... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
کیا ”رجیم چینج” کا کھیل کھیلنے والوں کا بھی کورٹ مارشل ہوگا ؟کیا یہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں تھی ؟
جنرل فیض حمید کی گرفتاری پر شادیانے بجانے والی ن لیگ کا اپنا وقت آپہنچا ،وقت ہمیشہ حادثات کی پرورش کرتا ہے ،یقیناملک میں کوئی قانون رہا نہیں نہ قوم کے لئے کوئی دروازہ رہا ہے جس کو وہ کھٹکھٹا ئے ،اس وقت قوم کی امیدیں ایک ہی شخص سے وابستہ رہ گئی ہیں۔ سیاست کا ایک ہی چراغ جو اڈیالہ جیل کا قیدی ہے ،ہم نا جائز حکمرانوں کے چہروں پر خوف کے سائے دیکھ سکتے ہیں جو اس کے باہر آنے پر ڈر کی شکل میں پھیلتا چلا جارہا ہے ۔رجیم چینج کے بعد ان کو اتنے دھچکے لگ چکے ہیں کہ اب ہر قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار ان کا ماتھا ٹھنکتا ہے ۔رجیم چینج کے بعد طاقت کے ڈھانچے کو تین سے چار ایسے بڑے دھچکے لگے جن کی توقع ہی نہیں کی جا رہی تھی، کیونکہ پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ہو پائے گا۔
پہلا دھچکا رجیم چینج کے فوراً بعد اس وقت لگا جب اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام ایک حکومت کے خاتمے کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ ماضی میںجب حکومتیں گرائی جاتی تھیں تو ان جماعتوں کے کارکن بھی بمشکل نکلتے تھے لیکن اس بار کارکن تو ایک طرف، عام لوگ، جن کا عملی سیاست سے کوئی تعلق بھی نہیں، ہر شہر میں نکلے، بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ڈبل دھچکا تھا جو میڈیا کے ذریعے بنائے گئے اس تاثر پر یقین کرنے لگے تھے کہ عمران حکومت غیر مقبول ہو چکی ہے اور اب تحریکِ انصاف تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گی، حالانکہ عمران خان خود الیکشن کال کر کے اور پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ کر دکھا چکے تھے کہ جمہوری جواز اور عوامی مقبولیت کے لحاظ سے کون کتنے پانی میں ہے۔ اس کے بعد اسی دھچکے کے آفٹر شاکس ملک بھر میں عظیم الشان جلسوں اور لانگ مارچز کی شکل میں آتے رہے۔
دوسرا دھچکا جولائی 2022 میں اس وقت لگا جب پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا، حمزہ شہباز کی حکومت تھی، اسے مقتدرہ کی حمایت حاصل تھی، بارہ جماعتی اتحاد اور تحریک انصاف سے نکالے گئے دھڑوں کے متفقہ امیدوار میدان میں تھے، تحریک انصاف کے لوگوں کو توقع نہیں تھی کہ ہم جیت جائیں گے، لیکن نتیجہ آیا تو پی ٹی آئی نے سولہ نشستوں کے ساتھ لینڈ سلائیڈ حاصل کرلی۔ اسی دھچکے کا زوردار آفٹر شاک اکتوبر 2022 میں اس وقت لگا جب حکومت نے اپنی مرضی کی نو نشستوں پر استعفے قبول کرکے ضمنی الیکشن کروایا۔ یہ وہ نشستیں تھیں جہاں پی ٹی آئی گزشتہ عام انتخابات میں تھوڑے مارجن سے جیتی تھی اور مخالف جماعتوں کے مجموعی ووٹ بہت زیادہ تھے۔ اپنی مرضی سے میدان منتخب کرکے بارہ جماعتی اتحاد، مقتدرہ کی حمایت اور مضبوط مقامی الیکٹیبلز کے ساتھ میدان میں آیا تو عمران خان قبائلی علاقے اور مردان سے ننکانہ، فیصل آباد اور کراچی کے کورنگی تک پھیلے ان سب حلقوں میں خود امیدوار بن گئے، بیک وقت سب سے زیادہ حلقوں پر الیکشن لڑنے اور الیکشن لڑ کر جیتنے کا ریکارڈ قائم کر دیا، حالانکہ ووٹر کو پتہ تھا کہ عمران خان نے اسمبلی میں نہیں جانا۔
چوتھا دھچکا آٹھ اور نو فروری 2024 کی درمیانی رات اس وقت لگا جب پولنگ اسٹیشنز سے انتخابی نتائج موصول ہونا شروع ہوئے۔ تحریک انصاف پر نو مئی فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں کریک ڈاؤن، درجنوں رہنماؤں اور الیکٹیبلز سے پارٹی چھڑوائے جانے، عمران خان سمیت ساری لیڈرشپ کے جیل جانے، سائفر عدت اور توشہ خانہ جیسے مقدموں میں الیکشن سے کچھ دن پہلے سزا دے کر کردار کشی کرنے اور مایوسی پھیلانے کی کوشش، نواز شریف کی بھرپور ریاستی حمایت اور پروپیگنڈہ کمپین سے ری لانچنگ، انتخابی نشان چھیننے، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع نہ کرنے اور مہم چلانے پر مکمل پابندی، میڈیا بلیک آؤٹ، سوشل میڈیا رضا کاروں کی پکڑ دھکڑ، انتخابی فہرستوں میں ہیر پھیر، الیکشن کے دن انٹرنیٹ کی بندش جیسے بے شمار حربوں کے بعد مقتدرہ اور پڈم کا خیال تھا کہ پولنگ اور کاؤنٹنگ میں کسی دھاندلی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر وہ سماجی اور ذہنی تغیر پیدا نہ ہو گیا ہوتا جس کی نمائندگی تحریک انصاف کرتی ہے تو کوئی جماعت ان حالات میں مٹھی بھر نشستیں بھی حاصل نہیں کر سکتی تھی لیکن نتائج آئے تو ان اہلکاروں کو بھی واپس بلاناپڑا جو چھٹی کر کے گھر چلے گئے تھے اور جعلی فارم سینتالیس بنانے جیسی بھونڈی ترین دھاندلی کرنی پڑی۔ تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشستوں میں نصف سے زائد چھین لی گئیں لیکن سِنگل لارجسٹ پارٹی پھر بھی تحریک انصاف رہی۔
ان سیاسی زلزلوں نے اس سیاسی کلچر کی عمارت مسمار کرکے رکھ دی جو 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں تخلیق پایا تھا۔ اب یہ عمارت مصنوعی سہارے سے ہی کھڑی ہے۔ اس کی بنیادیں ہی ختم ہو چکی ہیں۔ کسی بھی وقت گر کر اپنے مکینوں کو لہو لہان کر دے گی۔ اس لیے یہ لوگ دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت اور بدترین آمریت کے باوجود بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ، تاحیات استثنیٰ حاصل کرنا، عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی، میڈیا بلیک آؤٹ، امریکہ میں لابنگ، ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی مسلسل خرابی، ن لیگ کا مقتدرہ سے مزید ضمانتیں مانگنا۔۔۔ سب چیزیں اس خوف کے ثبوت ہیں۔ کوئی کتنا ہی انقلابی بننے کی کوشش کرے جو چیز انکی جنم گھٹی میں پڑی ہے وہ ختم نہیں ہو سکتی وہ کیا چیز ہے میں اس کا نام نہیں لے سکتا ۔ البتہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کی سیاست ہمیشہ کے لئے کوڑے دان کی نذر ہو چکی۔ اب یہ اپنے مقام سے اور نظروں سے گر چکے ،عوام کے ذہن سے یہ ابہام اب دور ہوچکا کہ باجوہ اور فیض حمید کا (Beneficiary)شریف خاندان تھا اور انہوں نے عمران خان کیلئے یہ سیڑھی استعمال کرنے کیلئے فیض اور باجوہ کے خلاف جھوٹا بیانیہ بنایا ،انسان اپنے پلان بناتا ہے اور قدرت دور کہیں یقین کی ہلاکت کے دھاگے بن رہی ہوتی ہے ۔
٭٭٭