وجود

... loading ...

وجود

بیانیہ

اتوار 14 دسمبر 2025 بیانیہ

بے نقاب /ایم آر ملک

کیا ”رجیم چینج” کا کھیل کھیلنے والوں کا بھی کورٹ مارشل ہوگا ؟کیا یہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں تھی ؟
جنرل فیض حمید کی گرفتاری پر شادیانے بجانے والی ن لیگ کا اپنا وقت آپہنچا ،وقت ہمیشہ حادثات کی پرورش کرتا ہے ،یقیناملک میں کوئی قانون رہا نہیں نہ قوم کے لئے کوئی دروازہ رہا ہے جس کو وہ کھٹکھٹا ئے ،اس وقت قوم کی امیدیں ایک ہی شخص سے وابستہ رہ گئی ہیں۔ سیاست کا ایک ہی چراغ جو اڈیالہ جیل کا قیدی ہے ،ہم نا جائز حکمرانوں کے چہروں پر خوف کے سائے دیکھ سکتے ہیں جو اس کے باہر آنے پر ڈر کی شکل میں پھیلتا چلا جارہا ہے ۔رجیم چینج کے بعد ان کو اتنے دھچکے لگ چکے ہیں کہ اب ہر قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار ان کا ماتھا ٹھنکتا ہے ۔رجیم چینج کے بعد طاقت کے ڈھانچے کو تین سے چار ایسے بڑے دھچکے لگے جن کی توقع ہی نہیں کی جا رہی تھی، کیونکہ پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ہو پائے گا۔
پہلا دھچکا رجیم چینج کے فوراً بعد اس وقت لگا جب اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام ایک حکومت کے خاتمے کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ ماضی میںجب حکومتیں گرائی جاتی تھیں تو ان جماعتوں کے کارکن بھی بمشکل نکلتے تھے لیکن اس بار کارکن تو ایک طرف، عام لوگ، جن کا عملی سیاست سے کوئی تعلق بھی نہیں، ہر شہر میں نکلے، بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ڈبل دھچکا تھا جو میڈیا کے ذریعے بنائے گئے اس تاثر پر یقین کرنے لگے تھے کہ عمران حکومت غیر مقبول ہو چکی ہے اور اب تحریکِ انصاف تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گی، حالانکہ عمران خان خود الیکشن کال کر کے اور پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ کر دکھا چکے تھے کہ جمہوری جواز اور عوامی مقبولیت کے لحاظ سے کون کتنے پانی میں ہے۔ اس کے بعد اسی دھچکے کے آفٹر شاکس ملک بھر میں عظیم الشان جلسوں اور لانگ مارچز کی شکل میں آتے رہے۔
دوسرا دھچکا جولائی 2022 میں اس وقت لگا جب پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا، حمزہ شہباز کی حکومت تھی، اسے مقتدرہ کی حمایت حاصل تھی، بارہ جماعتی اتحاد اور تحریک انصاف سے نکالے گئے دھڑوں کے متفقہ امیدوار میدان میں تھے، تحریک انصاف کے لوگوں کو توقع نہیں تھی کہ ہم جیت جائیں گے، لیکن نتیجہ آیا تو پی ٹی آئی نے سولہ نشستوں کے ساتھ لینڈ سلائیڈ حاصل کرلی۔ اسی دھچکے کا زوردار آفٹر شاک اکتوبر 2022 میں اس وقت لگا جب حکومت نے اپنی مرضی کی نو نشستوں پر استعفے قبول کرکے ضمنی الیکشن کروایا۔ یہ وہ نشستیں تھیں جہاں پی ٹی آئی گزشتہ عام انتخابات میں تھوڑے مارجن سے جیتی تھی اور مخالف جماعتوں کے مجموعی ووٹ بہت زیادہ تھے۔ اپنی مرضی سے میدان منتخب کرکے بارہ جماعتی اتحاد، مقتدرہ کی حمایت اور مضبوط مقامی الیکٹیبلز کے ساتھ میدان میں آیا تو عمران خان قبائلی علاقے اور مردان سے ننکانہ، فیصل آباد اور کراچی کے کورنگی تک پھیلے ان سب حلقوں میں خود امیدوار بن گئے، بیک وقت سب سے زیادہ حلقوں پر الیکشن لڑنے اور الیکشن لڑ کر جیتنے کا ریکارڈ قائم کر دیا، حالانکہ ووٹر کو پتہ تھا کہ عمران خان نے اسمبلی میں نہیں جانا۔
چوتھا دھچکا آٹھ اور نو فروری 2024 کی درمیانی رات اس وقت لگا جب پولنگ اسٹیشنز سے انتخابی نتائج موصول ہونا شروع ہوئے۔ تحریک انصاف پر نو مئی فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں کریک ڈاؤن، درجنوں رہنماؤں اور الیکٹیبلز سے پارٹی چھڑوائے جانے، عمران خان سمیت ساری لیڈرشپ کے جیل جانے، سائفر عدت اور توشہ خانہ جیسے مقدموں میں الیکشن سے کچھ دن پہلے سزا دے کر کردار کشی کرنے اور مایوسی پھیلانے کی کوشش، نواز شریف کی بھرپور ریاستی حمایت اور پروپیگنڈہ کمپین سے ری لانچنگ، انتخابی نشان چھیننے، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع نہ کرنے اور مہم چلانے پر مکمل پابندی، میڈیا بلیک آؤٹ، سوشل میڈیا رضا کاروں کی پکڑ دھکڑ، انتخابی فہرستوں میں ہیر پھیر، الیکشن کے دن انٹرنیٹ کی بندش جیسے بے شمار حربوں کے بعد مقتدرہ اور پڈم کا خیال تھا کہ پولنگ اور کاؤنٹنگ میں کسی دھاندلی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر وہ سماجی اور ذہنی تغیر پیدا نہ ہو گیا ہوتا جس کی نمائندگی تحریک انصاف کرتی ہے تو کوئی جماعت ان حالات میں مٹھی بھر نشستیں بھی حاصل نہیں کر سکتی تھی لیکن نتائج آئے تو ان اہلکاروں کو بھی واپس بلاناپڑا جو چھٹی کر کے گھر چلے گئے تھے اور جعلی فارم سینتالیس بنانے جیسی بھونڈی ترین دھاندلی کرنی پڑی۔ تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشستوں میں نصف سے زائد چھین لی گئیں لیکن سِنگل لارجسٹ پارٹی پھر بھی تحریک انصاف رہی۔
ان سیاسی زلزلوں نے اس سیاسی کلچر کی عمارت مسمار کرکے رکھ دی جو 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں تخلیق پایا تھا۔ اب یہ عمارت مصنوعی سہارے سے ہی کھڑی ہے۔ اس کی بنیادیں ہی ختم ہو چکی ہیں۔ کسی بھی وقت گر کر اپنے مکینوں کو لہو لہان کر دے گی۔ اس لیے یہ لوگ دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت اور بدترین آمریت کے باوجود بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ، تاحیات استثنیٰ حاصل کرنا، عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی، میڈیا بلیک آؤٹ، امریکہ میں لابنگ، ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی مسلسل خرابی، ن لیگ کا مقتدرہ سے مزید ضمانتیں مانگنا۔۔۔ سب چیزیں اس خوف کے ثبوت ہیں۔ کوئی کتنا ہی انقلابی بننے کی کوشش کرے جو چیز انکی جنم گھٹی میں پڑی ہے وہ ختم نہیں ہو سکتی وہ کیا چیز ہے میں اس کا نام نہیں لے سکتا ۔ البتہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کی سیاست ہمیشہ کے لئے کوڑے دان کی نذر ہو چکی۔ اب یہ اپنے مقام سے اور نظروں سے گر چکے ،عوام کے ذہن سے یہ ابہام اب دور ہوچکا کہ باجوہ اور فیض حمید کا (Beneficiary)شریف خاندان تھا اور انہوں نے عمران خان کیلئے یہ سیڑھی استعمال کرنے کیلئے فیض اور باجوہ کے خلاف جھوٹا بیانیہ بنایا ،انسان اپنے پلان بناتا ہے اور قدرت دور کہیں یقین کی ہلاکت کے دھاگے بن رہی ہوتی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بیانیہ وجود اتوار 14 دسمبر 2025
بیانیہ

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات وجود اتوار 14 دسمبر 2025
انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت وجود اتوار 14 دسمبر 2025
افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت

کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن وجود هفته 13 دسمبر 2025
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست وجود هفته 13 دسمبر 2025
بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر