وجود

... loading ...

وجود

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

اتوار 14 دسمبر 2025 انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

حمیداللہ بھٹی

پاک انڈونیشیا تعلقات میں حالیہ پیش رفت اِس بناپر بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کا اقتصادی منظر نامہ
بدل رہا ہے اورنئے معاشی اور دفاعی اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔ یہ ایسی جغرافیائی تبدیلیاں ہیں جنھیں سمجھ لیاجائے تو مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے پاکستان اور انڈونیشیا دونوں ہی مسلم دنیا میں ممتازاور منفرد مقام رکھتے ہیں اگر پاکستان جوہری طاقت ہونے کی بناپر دفاعی حوالے سے اہم ہے تو انڈونیشیا نے بھی کمال مہارت سے گزرے دوعشروں کے دوران معاشی استحکام،صنعتی ترقی، سیاحت، روزگار اور جمہوری حوالے سے قابلِ رشک کامیابیاں حاصل کی ہیں جن سے ابھی پاکستان فاصلے پر ہے جوہری طاقت ہونے کے باوجود پاکستان سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہے معیشت ناتواں،مہنگی توانائی،بڑھتی مہنگائی اور خارجی انحصار جیسے مسائل کا سامنا ہے اِن حالات میںدونوں ممالک کا ایک دوسرے کے قریب آنااور تعاون و اشتراک کے معاہدے کرنا بروقت ہے مقامِ اطمنان یہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو نہ صرف نئے حالات و مسائل کا ادراک ہے بلکہ اِن مسائل کو حل کرنے کی تگ ودومیں ہے اور سنجیدگی سے دونوں کی مستقبل کی منصوبہ بندی پر توجہ ہے اگر عملی طورپر بھی ایسا ہوجاتا ہے تو اُن کے عالمی کرداروساکھ میں بہتری آسکتی ہے توقع ہے کہ موجودہ حالات میں انڈونیشین صدر ابووسوبیانتوکے دورہ پاکستان سے تعلقات کونئی جہت ملے گی کیونکہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں کے حوالے سے دونوں نے کشادہ دلی کا دکھائی ہے۔
پاکستان اور انڈونیشیا میں کئی اقدار مشترک ہیں دونوں ہی نہ صرف دنیا کی بڑی مسلم آبادی والے ممالک ہیں بلکہ ماضی میں نوآبادیاتی
قوتوں کے خلاف جدوجہد سے آزاد ہوئے اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لیے عالمی سطح پر آوازبھی اُٹھاتے ہیں دونوں میں اشتراکِ کار اِس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مسلم ممالک کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے اور محکوم اقوام کوحقِ خوداِرادیت دینے کے علمبردار ہیں
کشمیر، فلسطین،میانمار میں مسلم آبادی پر روارکھے جانے والے مظالم کے سخت ناقد ہیں۔ اِ ن کا ایک آواز ہونا مسلم ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک اور محکوم مسلم آبادی کے لیے یقینی طورپر حوصلہ افزاہوگا۔
پاک انڈونیشیاموجودہ قیادت دونوں ممالک کو قریب ترلانے کے لیے کوشاں ہے انڈونیشین صدرکے حالیہ دورے کے دوران اقتصادی و تجارتی تعلقات،دفاع،سلامتی ،صحت ،تعلیم ،سائنس وٹیکنالوجی،زراعت اور ماحولیاتی تعاون کو مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ اطمینان بخش
ہے اگر تجارتی حوالے سے دیکھا جائے تو تجارتی توازن واضح طورپر انڈونیشیا کے حق میں ہے جس کی اہم وجہ پاکستان کا خوردنی تیل کی
ضروریات کے لیے انڈونیشیا کوترجیح دینا ہے ۔اسی وجہ سے پاکستان صرف انڈونیشیا سے اپنی خوردنی تیل کی ستر فیصد ضروریات پوری کرتا ہے مگر انڈونیشیا کی طرف سے ایسی گرمجوشی عنقاہے اوربے پناہ تجارتی مواقع ہونے کے باوجود ماضی میں اُس نے پاکستانی مصنوعات کی
خریداری میںدلچسپی نہیں لی حالانکہ انڈونیشیا ٹیکسٹائل،چمڑے کی مصنوعات اور حلال گوشت کی اہم منڈی ہے اور یہ اشیا اگر دیگر ممالک سے
درآمد کرنے کی بجائے پاکستان کو فوقیت دے تو تجارتی عدمِ توازن کو باآسانی دورکیا جاسکتا ہے ادویات اور آرائشی مصنوعات بھی خریدی
جاسکتی ہیں معیاری اور سستی دفاعی سازوسامان خرید کر انڈونیشیا اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا سکتا ہے دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم
گزشتہ برس چار ارب ستر کروڑ ڈالر رہا جس میں پاکستان کی اندونیشیا کوبرآمدات محض پچاس کروڑ تینتالیس لاکھ ڈالر رہیں یہ صورتحال بہت
مایوس کن ہے باہمی تجارت کو باآسانی آٹھ سے دس ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ اندونیشیااپنی
ترجیحات میں تبدیلی لائے اور پاکستان معاہدے کرتے وقت مال کے بدلے مال کے اصول کواپنائے تاکہ دونوں ممالک کو یکساں معاشی
ترقی کے مواقع حاصل ہوں۔
ماضی میں پاک انڈونیشیا تعاون قابلِ قدررہا ہے 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران انڈونیشیا زبانی و بیانی ہی نہیں عملی طورپر بھی
پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا لیکن بعد میں قریبی تعاون کی رفتار برقرا ر نہ رہ سکی جسے بہتر بنانا دونوں ممالک کی زمہ داری ہے اب جبکہ جنوب
مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا تجارت کا ایک اہم اور قابلِ رشک مرکز بن کر سامنے آیا ہے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ خطے کے اِس اہم ملک پرپاکستان توجہ دے اور اِس اہم تجارتی منڈی سے فوائد کشید کرے جب دونوں ممالک کے تعلقات باہمی احترام اور اصولوں پر مبنی ہیں تو
پاکستان سے درآمدات میں انڈونیشیا کیوں گریزاںہے؟ نہ صرف اِن وجوہات کوجاننابہت ضروری ہے بلکہ دورکرنابھی پاکستان کی ذمہ داری ہے انڈونیشین صدر کارواں ہفتے کا دورہ تبھی عملی طورپر بہتر ثابت ہو سکتا ہے جب پاکستان لاپرواہی اور سُستی چھوڑ کر تجارت کے
فروغ میں حائل مسائل ختم کرنے پر توجہ دے، یقینا اِس کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری شعبے کو مراعات دی جائیں تاکہ نہ صرف برآمدی
سامان وافر ہوبلکہ سستا بھی ہو، مہنگی توانائی پیداوار میں بڑی رکاوٹ ہے جس کاخاتمہ کرنانہایت ضروری ہے۔ دوطرفہ تجارت کے حجم کو
بڑھانے کے لیے انڈونیشیا سے ترجیحی تجارتی معاہدے کے ثمرات تبھی پاکستان حاصل کر سکتا ہے جب محض تجارتی منڈی بننے کی بجائے
برآمدی سپلائی لائن بہتر کی جائے تاکہ تجارتی عدم توازن دورکرنے پر اتفاق حقیقت میں بھی نظر آئے۔
پاکستان اور انڈونیشیا دونوں کا تعلق امریکی بلاک ہے اور دونوں کے ہی ماضی میں امریکی انتظامیہ سے تعلقات اتارچڑھائو کا شکار رہے
ہیں۔ پاکستان کی طرح اب انڈونیشیا بھی چین کے قریب ہورہا ہے۔ اِس کے باوجود تجارتی رکاوٹیں سمجھ سے باہر ہیں انڈونیشین صدر کے
دورہ پاکستان کو اگر دونوں اسلامی ممالک کے دیرینہ تعلقات کا مظہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا مہمان کا اسلام آباد پہنچنے پر وزیر اعظم کا استقبال
کرنا اور افواجِ پاکستان کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کرنا ثابت کرتا ہے کہ انڈونیشیا سے تعلقات کوپاکستان بہت اہمیت دیتا ہے۔ صدر
آصف زرداری نے مہمان صدر کو نشانِ پاکستان سے نوازایہ اُلفت،احترام اور اہمیت کا اظہار ہے۔ مہمان صدر سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم
منیر کا ملنا اور دفاعی تعاون ،تربیت،اِنسدادِ دہشت گردی اور علاقائی سلامتی جیسے وسیع امور پر تبادلہ خیال کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے ۔دونوں
ممالک کے 75برس پر محیط تعلقات ہر آزمائش پر پورا اُترے مگر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی مال کو نظرانداز کرتے ہوئے ترکیہ کی طرح
انڈونیشیا دیگر ممالک پر مہربان ہے ؟ اگر اِس سوال کا جواب تلاش کرلیاگیا توہی تجارتی عدم توازن بہترہو گاوگرنہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بیانیہ وجود اتوار 14 دسمبر 2025
بیانیہ

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات وجود اتوار 14 دسمبر 2025
انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت وجود اتوار 14 دسمبر 2025
افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت

کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن وجود هفته 13 دسمبر 2025
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست وجود هفته 13 دسمبر 2025
بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر