وجود

... loading ...

وجود

پوتن اور مودی کے درمیان دفاعی نہیں تجارتی ملاقات

منگل 09 دسمبر 2025 پوتن اور مودی کے درمیان دفاعی نہیں تجارتی ملاقات

ڈاکٹر سلیم خان

صدر ولایمیر پوتن ہند روس تعلقات اور تعاون کی سلور جوبلی منانے کے لیے آئے تو گودی میڈیا نے دونوں ممالک کے درمیان اسی
طرح کا دفاعی معاہدے کی خبر چلا دی جیسے پاکستان اور سعودی عرب کے بیچ ہوا ہے ۔ اس معاہدے کے مطابق ایک ملک پر حملہ کو دوسرے پر
یلغار سمجھا جائے گا اور بوقت ِضرورت وہ ایک دوسرے دفاعی سہولیات کا استعما ل کرسکیں گے ۔ ہندتوانواز میڈیا کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونا
ناممکن تھا اس لیے دورے کو تجارتی تعلقات کی وسعت پر سمیٹ دیا گیا ۔ مونگیری لال کے خواب دیکھنے والے بھول گئے کہ ہندوستان کی
مانند روس بھی چین کا پڑوسی ملک ہے مگر ان کے درمیان دشمنی نہیں ہے ۔ ایسے میں اگر ہندوستان اور چین کی جھڑپ میں کوئی معاہدہ
ہندوستانی فوج کو روسی اڈوں کو استعمال کرنے کا موقع فراہم کردے تو کیا ہوگا؟ کیا روس کسی دور دراز کے ملک کی خاطر اپنے پڑوسی سے رشتہ بگاڑ لے گا؟ جیسا کہ ہندوستان نے نہ پاکستان بلکہ نیپال ، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بگاڑ رکھاہے ؟؟ پوتن یقیناً مودی کی مانندنا سمجھ نہیں ہیں ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے دفاعی معاہدے کا اعلان کرنے کے بجائے توانائی ، سیکورٹی یعنی اسلحہ کی خرید اور دو نئے روسی قونصل خانے
کھولنے کے ساتھ روسی شہریوں کے لیے 30دن کا مفت ویزا پیشکش کردی لیکن کیا ہندوستانیوں کو بھی روس کے اندری یہ سہولیات دستیاب
ہوں گی ؟نہیں ۔ پوتن نے بھی توانائی یعنی خام تیل اور پھر عالمی مسائل کی آڑ میں یوکرین کا ذکر کیا ۔ تجارتی فروغ کا مطلب پوتن تیل بیچنے
کے لیے آئے تھے اور تیل لگا کر چلے گئے ۔ انہوں نے فرمایا ، ”میرے دوست پی ایم مودی، صدر دروپدی مرمو، اور تمام ہندوستانیوں کا
شکریہ۔ آپ کے گھر کا کھانا بہت اچھا تھا”۔ یہ دکھاوے کی تعریف ہے کیونکہ انہوں نے ایک نوالہ بھی چکھے بغیر دل رکھنے کے لیے کہہ دیا اور
مودی جی خوش ہوگئے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جب اپنے پیغام میں لکھا کہ:”ہندوستان اور روس کی دوستی وقت کی کسوٹی پر کھری اتری
ہے ، اس سے ہمارے لوگوں کو خوب فائدہ حاصل ہوا ہے ۔” تو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ کانگریس اس فائدہ اٹھا لے گی ۔
بی جے پی والے ملک کے سارے مسائل کے لیے کانگریس کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں مگر روس کے ساتھ قدیم دوستی کا فائدہ اٹھانے کی
کوشش میں جئے رام رمیش نے ایک لمبا چوڑا بیان جاری کر دیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان اور روس کے درمیان
تاریخی تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ 26 برسوں میں یہ 23واں سالانہ سربراہی اجلاس ہے لیکن اگر سوویت یونین تک
اسے پھیلا دیا جائے تویہ سفارتی روایت سات دہائیوں سے جاری پائیدار شراکت داری کا تسلسل قرار پائے گی ۔ ہندوستان کی صنعتی، دفاعی
اور سائنسی ترقی میں روس کے کردار کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔سوویت یونین سے ہندوستان کے تعلقات 1955 میں وہاں کی اعلیٰ قیادت
نکولائی بولگانین اور نکیتا خروشچف کے ہندوستانی دورے قائم ہوئے ۔ اس کا پہلا مرحلہ 18 سے 30 نومبر 1955 اور دوسرا 7 سے 14 دسمبر 1955 تک تھا۔
اس طویل اور جامع دورے سے چند ماہ قبل وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے سوویت یونین کا دورہ کیا تھا۔ اس طرح دونوں ممالک کے
درمیان اعتماد کی مضبوط بنیاد پڑی ۔ اس کے بعد صنعتی، تکنیکی اور دفاعی شعبوں میں کئی نمایاں منصوبے بنے اور بھلائی اسٹیل پلانٹ جیسی
صنعت اورآئی آئی ٹی ممبئی جیسا تعلیمی ادارہ عالمِ وجود میں آیا۔اس کے چندسال بعد سراری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل)
میں سوویت ٹیکنالوجی کی منتقلی کے تحت مگ طیاروں کی تیاری شروع ہوئی۔ اسی دور میں تیل کی کھوج کے لیے او این جی سی بنایا گیا اورآئی ڈی
پی ایل نے دوائیاں بنانی شروع کی بلکہ اس دور میں ہزاروں ڈاکٹر ماسکو سے تعلیم حاصل کرکے ہندوستان آئے ۔ اس سے نجی صنعتوں کی
ترقی کے لیے بنیاد فراہم ہوئی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے دو روزہ دورئہ ہند نے یہ تنازع بھی پیدا کیا کہ قدیم سفارتی و پارلیمانی روایات
کے خلاف حزب اختلاف کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ موجودہ حکومت غیر ملکی وفود کو اپوزیشن لیڈر سے ملاقات کرنے سے روکتی ہے ۔
راہل گاندھی کے مطابق ماضی میں بیرونِ ملک سے آنے والے وفود قائد حزب اختلاف سے ملاقات کرتے تھے ۔ یہ روایت اٹل بہاری
واجپئی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں بھی جاری رہی۔وزیر اعظم نریندر مودی نے مئی 2014 میں اقتدار سنبھالا اور اسی سال دسمبر میں صدر پوتن ہندوستان آئے ۔ کانگریس پارٹی کو اس وقت کم نشستوں کے باعث حزب اختلاف کا درجہ تک حاصل نہیں تھا اس کے باوجودپارٹی کی صدر سونیا گاندھی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سے پوتن کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد اکتوبر 2016 میں جب سری لنکا کے وزیر اعظم رانل وکرم سنگھے ہندوستان آئے تب بھی مذکورہ بالا دونوں لوگوں سے ان کی ملاقات کروائی گئی۔ 2019میں جب شیخ حسینہ واجد دہلی آئیں تو انہوں سونیا گاندھی کے ساتھ راہل اور پرینکا کو بلا کر ملاقات کی اور انہیں بنگلہ دیش کے پچاسویں سالگرہ پر ڈھاکہ آنے کی دعوت
دی تھی۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کے اندر خود اعتمادی تھی اس لیے وہ موقع دیتے تھے مگر پھر سب کچھ بدل گیا۔
ہندوستان کے اندر برطانیہ سے مشابہ پارلیمانی جمہوریت ہے ۔ اس میں حزب اختلاف کے رہنما کو وزیر اعظم کا سایہ سمجھا جاتا ہے ۔
ہندوستان کے اندر راہل گاندھی کے سبب یہ سایہ اپنے مالک سے بڑا ہوگیا ہے ۔ راہل گاندھی جب بھی برطانیہ یا امریکہ جاتے ہیں ان کی
خوب پذیرائی ہوتی ہے ۔ کیمبرج جیسے نامود درسگاہوں میں انہیں خطاب کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے ۔ وہاں خطاب کے بعد وہ شرکاء کے
سوالات کا جواب دیتے ہیں لیکن یہ سب کرنا وزیر اعظم نریندر مودی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ اس لیے انہیں زحمت نہیں دی جاتی کیونکہ وہ بیچارے تو ٹیلی پرومپٹرکے بغیر کچھ بول ہی نہیں سکتے ۔ انہوں نے پچھلے بارہ سالوں میں کوئی پریس کانفرنس نہیں کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ اس ڈھلتی عمر میں جبکہ پرچم کی رسیّ کھینچتے ہوئے بھی ہاتھ کانپتے ہوں کوئی نئی صلاحیت پیدا کرنا ناممکن ہے ۔ اس لیے اگر اپنا قد نہیں
بڑھا سکتے تو دوسرے کا قدکم کرو کی حکمت عملی پر اپنائی جارہی ہے ۔ وزیر اعظم کی احساسِ کمتری نہ صرف بیرونِ ملک سے آنے والے مہمانوں کو راہل گاندھی سے ملنے نہیں دیتی بلکہ جب وہ باہر جاتے ہیں تب بھی لوگوں کو ان سے ملاقات سے روکا جاتا ہے ۔ ایسے میں اروند کیجریوال
والی چوتھی پاس راجہ کی کہانی یاد آتی ہے اور پرینکا گاندھی واڈرا کا الزام کہ حکومت کسی اور کی آواز اٹھنے دینا ہی نہیں چاہتی کیونکہ وہ اختلاف
سے خوف کھاتی ہے صدا بہ صحرا ہوجاتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے روس سے تیل خرید کر ملک کو بڑا فائدہ پہنچانے کا دعویٰ کیا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ روس اور
ہندوستان کے درمیان جو تیل کا کاروبار ہوا اس سے امبانی کا تو خوب فائدہ ہوا ۔ موجودہ سیاست میں جب بھی کوئی سرمایہ دار حکومت کی مدد
سے منافع کماتا ہے تو وہ سی ایس آئی آر کے ، پردھان منتری فنڈ یا دوسرے ذرائع سے حکومت کو چندہ دیتا ہے ۔ ہندوستان اور امریکہ کے
درمیان تنازع کا بنیادی سبب روسی تیل ہے ۔ اسی وجہ سے ٹرمپ نے ہندوستان پر پچیس فیصدی اضافی ٹیرف تھوپ دیا۔ یہ دراصل ایک
نہایت پیچیدہ معاملہ ہے جس نے پورے مغرب کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ۔ خام تیل توانائی کا سب سے بڑاوسیلہ ہے ۔ یہ حسنِ اتفاق
ہے یوروپ کی یہ سب سے زیادہ ضرورت روس سے پوری ہوتی تھی ۔ یوکرین کی جنگ کے بعد روس سے تعلقات منقطع ہوگئے تو یہ پائپ
لائن بھی بند ہوگئی ۔
مذکورہ بالا صورتحال میں ہندوستانی سرمایہ دار امبانی اور حکومتِ ہند کو ایک موقع مل گیا کہ روس سے خام تیل خرید کر اسے یہاں ریفائن کیا
جائے اور پھر ہندوستانی مال کے طور پر یوروپ کو بیچا جائے ۔ اس سے سب کا فائدہ ہے ۔ روس کا تیل بک رہا ہے ۔ یوروپ کو تیل مل رہا ہے
مگر ہندوستانی عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملتا ۔ سرکاری ریفانریز روسی تیل بہت کم خریدتی ہیں بلکہ یہ سارا کاروبار روسی کمپنی نیارا اور
ہندوستانی ریلاینس کے توسط سے ہوتا ہے ۔ اس ان سرمایہ داروں کو منافع اور ہندوستانی خزانے کو ٹیکس مل جاتا ہے ۔ امریکہ کا الزام ہے کہ
اس تجارت کے ذریعہ ہندوستان یوکرین جنگ میں روس کی مدد کررہا ہے ۔ اس لیے وہ اضافی ٹیرف لگاتا ہے جس سے عام ہندوستانی
مصیبت میں پڑجاتا ہے ۔ فی الحال امریکی دباو کے سبب اس کا روبار میں کمی آئی ہے مگر آگے جب یوکرین کی جنگ رک جائے گی ،پابندیاں
اٹھ جائیں گی اور روس کے پرانے خریدار لوٹ آئیں گے تو وہ ہندوستان کو سستے میں خام تیل کیوں بیچے گا یہ ایک واجبی سوال ہے ؟ تجارت
سے قطع نظر سفارتی سطح پر پوتن کے دورے سے حزب اختلاف کو دور رکھ صدر کر مودی سرکار نے اپنے کھوکھلے پن اور تنگ نظری کو بے نقاب
کردیا ہے ۔راہل اور مودی کی حالت پر ڈاکٹر اعظم کے یہ اشعار منطبق ہوتے ہیں
میں ہی میں بزم میں رہا موجود
اور میں بزم میں گیا ہی نہیں
صرف احساس کمتری ہے تجھے
اور تو ہے کہ مانتا ہی نہیں


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی مسلمانوں کا سماجی و اقتصادی بائیکاٹ وجود منگل 09 دسمبر 2025
بھارتی مسلمانوں کا سماجی و اقتصادی بائیکاٹ

پوتن اور مودی کے درمیان دفاعی نہیں تجارتی ملاقات وجود منگل 09 دسمبر 2025
پوتن اور مودی کے درمیان دفاعی نہیں تجارتی ملاقات

بہت آگے جائیں گے! وجود منگل 09 دسمبر 2025
بہت آگے جائیں گے!

چائلڈ لیبر جبری مشقت کا بڑھتا دائرہ اور سماجی بے حسی وجود اتوار 07 دسمبر 2025
چائلڈ لیبر جبری مشقت کا بڑھتا دائرہ اور سماجی بے حسی

مودی کا کرپٹ دور حکومت وجود اتوار 07 دسمبر 2025
مودی کا کرپٹ دور حکومت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر