وجود

... loading ...

وجود

بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی

هفته 06 دسمبر 2025 بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی

ریاض احمدچودھری

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں گیس دھماکے میں 5ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کو 41سا ل مکمل ہونے کے موقع پر واقعے میں زندہ بچ جانے والے افراد اورمتاثرہ خاندانوں نے انصاف کی فراہمی سے انکار اورانکی مشکلات کو بڑھانے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی پرکڑی تنقید کی ہے۔2دسمبر 1984کو بھوپال میں یونین کاربائیڈ پیسٹی سائیڈ پلانٹ میں انتہائی زہریلے کیمیکل میتھائل آئسوسیانیٹ گیس کے اخراج کی وجہ سے ہونے والے دھماکے میں کم سے کم 5ہزار479افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے کو دنیاکا بدترین صنعتی سانحہ قراردیاجاتاہے۔سانحے میں زندہ بچ جانے والے افراد کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھوپال میں ایک پریس بریفنگ میں، بی جے پی کے خلاف چارج شیٹ جاری کی۔ چارج شیٹ میں بی جے پی پر الزام لگایا گیا ہے کہ ہندوتوا پارٹی کی حکومت نے یونین کاربائیڈ اور ڈائو کیمیکل جیسی امریکی کارپوریشنوں کے مفادات کو دھماکے میں ہلاک اور زندہ بچ جانے والے افراد پر ترجیح دی۔
بھوپال گیس پیڈٹ مہیلا اسٹیشنری کرمچاری سنگھ کی رشیدہ بی بی نے اس موقع پر کہا کہ بی جے پی نے سانحے کے متاثرین کودھوکا دیا اور امریکی کمپنی ڈائو کیمیکل کو ماحولیاتی ذمہ داریوں سے آزاد ی دلائی۔متاثرین کے ایک اور نمائندے بالکرشن نامدیو نے کہاکہ 2002میں اس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے یونین کاربائیڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر وارن اینڈرسن کے خلاف الزامات کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کی رچنا ڈھینگرا نے کہاکہ بی جے پی کے دور حکومت میں متاثرین کی بحالی کونظرانداز کیاگیا۔ 2008میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے سانحے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو بلاک کر دیاتھا۔ پابندیوں کے باوجود ڈائو کیمیکل بھارت میں اپنے کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارت میں 1984 میں گیس کے اخراج کا واقعہ پیش آیا تھا جسے دنیا کی سب سے بڑی صنعتی آفت سمجھا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں پیش آیا۔ بھوپال گیس سانحہ کو 41 سال ہو چکے ہیں۔ 2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو اس گیس کے اخراج سے ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج بھی گیس متاثرین اس کالی رات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جس جگہ پر گیس کا ہولناک سانحہ ہوا وہاں زہریلا فضلہ ابھی تک پڑا ہوا ہے۔ حکومتوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس زہریلے فضلے کو نہیں جلایا جا سکا۔ انصاف اور راحت کے لیے لڑنے والے بہت سے لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ ذمہ داروں کو سزا دینے کا معاملہ ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ دراصل یو سی آئی ایل فیکٹری یونین کاربائیڈ نے 1969 میں بھوپال میں بنائی تھی۔ جس میں میتھائل آئوسیانائیڈ سے کیڑے مار دوا کی پیداوار شروع ہو گئی۔ بعد ازاں 1979 میں یہاں میتھائل آئوسیانائیڈ کی تیاری کے لیے ایک نئی فیکٹری کھولی گئی۔ لیکن ذمہ داران نے اس کی سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے۔ نتائج 2 اور 3 دسمبر کی رات کو آئے۔ فیکٹری کے ٹینک نمبر اے 610 میں پانی لیک ہو گیا۔ میتھائل آئوسیانیٹ میں پانی ڈالنے سے ٹینک کے اندر کا درجہ حرارت بڑھ گیا اور اس کے بعد زہریلی گیس فضا میں پھیل گئی۔ تقریباً 45 منٹ کے اندر تقریباً 30 میٹرک ٹن گیس کا اخراج ہوا۔ گیس کا یہ بادل پورے شہر کی فضا میں پھیل گیا اور اس کے ساتھ ہی شہر میں موت کا ننگا ناچ شروع ہو گیا۔ اس گیس کی وجہ سے 15000 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ لیکن یہ رجحان نہیں رکا۔ جو لوگ اس حادثے میں بچ گئے وہ بھی اس گیس کے اثرات سے بچ نہ سکے۔اس گیس کا اثر لوگوں کی آنے والی نسلوں میں معذوری کی صورت میں دیکھا گیا۔ اس زہریلی گیس کے اثرات سے مرنے والوں کی سرکاری اعداد و شمار ابھی تک دستیاب نہیں ہیں۔ یہ مختلف ذرائع سے مختلف آراء کی وجہ سے مختلف ہوتے ہیں۔ ابتدائی طور پر سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 2259 بتائی گئی تھی، حالانکہ اس وقت کی مدھیہ پردیش کی حکومت نے 3,787 افراد کی گیس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی تھی۔ دوسرے اندازے بتاتے ہیں کہ صرف دو ہفتوں میں 8000 افراد ہلاک ہوئے۔ باقی 8000 افراد جو گیس کا شکار تھے وہ گیس سے متعلق بیماریوں سے ہلاک ہوئے۔
بھوپال گیس سانحہ کا شکار ہونے والے متاثرین اور ان کی نسلیں جسمانی پریشانیوں کا شکار ہیں لیکن اس کے بعد بھی متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔ آج تک کوئی بھی یونین کاربائیڈ کی جانب سے بھوپال کی عدالت میں پیش نہیں ہوا جو گیس اسکینڈل کی ذمہ دار ہے۔ اس معاملے کو لے کر گیس متاثرین نے بھوپال کی عدالت میں عرضی داخل کی تھی۔ بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کے ستیت ناتھ سدانگی، جو عرضی دے رہے ہیں، کہتے ہیں، “اتنے سالوں کے بعد بھی اس معاملے میں حکومت کی طرف سے صرف دلائل اور ثبوت پیش کیے جا رہے ہیں، انصاف کا ابھی بھی انتظار ہے۔ تاہم یونین کاربائیڈ کے چیئرمین اور اس وقت کے سی ای او وارن اینڈرسن کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی وجود هفته 06 دسمبر 2025
بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی

مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا وجود جمعه 05 دسمبر 2025
مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر وجود جمعه 05 دسمبر 2025
پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست وجود جمعه 05 دسمبر 2025
آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست

صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں! وجود جمعه 05 دسمبر 2025
صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر