... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں گیس دھماکے میں 5ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کو 41سا ل مکمل ہونے کے موقع پر واقعے میں زندہ بچ جانے والے افراد اورمتاثرہ خاندانوں نے انصاف کی فراہمی سے انکار اورانکی مشکلات کو بڑھانے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی پرکڑی تنقید کی ہے۔2دسمبر 1984کو بھوپال میں یونین کاربائیڈ پیسٹی سائیڈ پلانٹ میں انتہائی زہریلے کیمیکل میتھائل آئسوسیانیٹ گیس کے اخراج کی وجہ سے ہونے والے دھماکے میں کم سے کم 5ہزار479افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے کو دنیاکا بدترین صنعتی سانحہ قراردیاجاتاہے۔سانحے میں زندہ بچ جانے والے افراد کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھوپال میں ایک پریس بریفنگ میں، بی جے پی کے خلاف چارج شیٹ جاری کی۔ چارج شیٹ میں بی جے پی پر الزام لگایا گیا ہے کہ ہندوتوا پارٹی کی حکومت نے یونین کاربائیڈ اور ڈائو کیمیکل جیسی امریکی کارپوریشنوں کے مفادات کو دھماکے میں ہلاک اور زندہ بچ جانے والے افراد پر ترجیح دی۔
بھوپال گیس پیڈٹ مہیلا اسٹیشنری کرمچاری سنگھ کی رشیدہ بی بی نے اس موقع پر کہا کہ بی جے پی نے سانحے کے متاثرین کودھوکا دیا اور امریکی کمپنی ڈائو کیمیکل کو ماحولیاتی ذمہ داریوں سے آزاد ی دلائی۔متاثرین کے ایک اور نمائندے بالکرشن نامدیو نے کہاکہ 2002میں اس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے یونین کاربائیڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر وارن اینڈرسن کے خلاف الزامات کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کی رچنا ڈھینگرا نے کہاکہ بی جے پی کے دور حکومت میں متاثرین کی بحالی کونظرانداز کیاگیا۔ 2008میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے سانحے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو بلاک کر دیاتھا۔ پابندیوں کے باوجود ڈائو کیمیکل بھارت میں اپنے کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارت میں 1984 میں گیس کے اخراج کا واقعہ پیش آیا تھا جسے دنیا کی سب سے بڑی صنعتی آفت سمجھا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں پیش آیا۔ بھوپال گیس سانحہ کو 41 سال ہو چکے ہیں۔ 2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو اس گیس کے اخراج سے ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج بھی گیس متاثرین اس کالی رات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جس جگہ پر گیس کا ہولناک سانحہ ہوا وہاں زہریلا فضلہ ابھی تک پڑا ہوا ہے۔ حکومتوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس زہریلے فضلے کو نہیں جلایا جا سکا۔ انصاف اور راحت کے لیے لڑنے والے بہت سے لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ ذمہ داروں کو سزا دینے کا معاملہ ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ دراصل یو سی آئی ایل فیکٹری یونین کاربائیڈ نے 1969 میں بھوپال میں بنائی تھی۔ جس میں میتھائل آئوسیانائیڈ سے کیڑے مار دوا کی پیداوار شروع ہو گئی۔ بعد ازاں 1979 میں یہاں میتھائل آئوسیانائیڈ کی تیاری کے لیے ایک نئی فیکٹری کھولی گئی۔ لیکن ذمہ داران نے اس کی سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے۔ نتائج 2 اور 3 دسمبر کی رات کو آئے۔ فیکٹری کے ٹینک نمبر اے 610 میں پانی لیک ہو گیا۔ میتھائل آئوسیانیٹ میں پانی ڈالنے سے ٹینک کے اندر کا درجہ حرارت بڑھ گیا اور اس کے بعد زہریلی گیس فضا میں پھیل گئی۔ تقریباً 45 منٹ کے اندر تقریباً 30 میٹرک ٹن گیس کا اخراج ہوا۔ گیس کا یہ بادل پورے شہر کی فضا میں پھیل گیا اور اس کے ساتھ ہی شہر میں موت کا ننگا ناچ شروع ہو گیا۔ اس گیس کی وجہ سے 15000 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ لیکن یہ رجحان نہیں رکا۔ جو لوگ اس حادثے میں بچ گئے وہ بھی اس گیس کے اثرات سے بچ نہ سکے۔اس گیس کا اثر لوگوں کی آنے والی نسلوں میں معذوری کی صورت میں دیکھا گیا۔ اس زہریلی گیس کے اثرات سے مرنے والوں کی سرکاری اعداد و شمار ابھی تک دستیاب نہیں ہیں۔ یہ مختلف ذرائع سے مختلف آراء کی وجہ سے مختلف ہوتے ہیں۔ ابتدائی طور پر سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 2259 بتائی گئی تھی، حالانکہ اس وقت کی مدھیہ پردیش کی حکومت نے 3,787 افراد کی گیس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی تھی۔ دوسرے اندازے بتاتے ہیں کہ صرف دو ہفتوں میں 8000 افراد ہلاک ہوئے۔ باقی 8000 افراد جو گیس کا شکار تھے وہ گیس سے متعلق بیماریوں سے ہلاک ہوئے۔
بھوپال گیس سانحہ کا شکار ہونے والے متاثرین اور ان کی نسلیں جسمانی پریشانیوں کا شکار ہیں لیکن اس کے بعد بھی متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔ آج تک کوئی بھی یونین کاربائیڈ کی جانب سے بھوپال کی عدالت میں پیش نہیں ہوا جو گیس اسکینڈل کی ذمہ دار ہے۔ اس معاملے کو لے کر گیس متاثرین نے بھوپال کی عدالت میں عرضی داخل کی تھی۔ بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کے ستیت ناتھ سدانگی، جو عرضی دے رہے ہیں، کہتے ہیں، “اتنے سالوں کے بعد بھی اس معاملے میں حکومت کی طرف سے صرف دلائل اور ثبوت پیش کیے جا رہے ہیں، انصاف کا ابھی بھی انتظار ہے۔ تاہم یونین کاربائیڈ کے چیئرمین اور اس وقت کے سی ای او وارن اینڈرسن کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔
٭٭٭