وجود

... loading ...

وجود

خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا

جمعرات 04 دسمبر 2025 خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا

اونچ نیچ
آفتا ب احمد خانزادہ

ژاں پال سارتر کا ایک فلسفیانہ ناول ہے، جو 1938 میں شائع ہوا(La Nausee اصل عنوان ) “Nausea” تھا۔ یہ
سارتر کے پہلے ناول کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ وجودیت کا ایک بنیادی متن ہے۔ کہانی بوویل نامی ایک افسانوی قصبے میں ترتیب
دی گئی ہے، جو اس سے ملتی جلتی ہے۔ فرانسیسی بندرگاہی شہر لی ہاورے۔ یہ بیانیہ ایک فرانسیسی مصنف انٹوئن روکینٹن کی پیروی کرتا
ہے جو ایک گہرے وجودی بحران کا تجربہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اجنبیت اور مضحکہ خیزی کے جذبات سے دوچار ہوتا ہے، روکینٹن
خود وجود کی نوعیت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ وہ متلی کے اپنے احساسات کو بیان کرتا ہے، جو زندگی کی بے معنی اور من مانی نوعیت کے
بارے میں اس کے شعور کی علامت ہے۔ یہ احساس اپنے آس پاس کی دنیا کے ساتھ اس کے مقابلوں سے پیدا ہوتا ہے، جس سے
وہ حقیقت کے جوہر اور اس کے اندر اس کی جگہ پر سوال اٹھاتا ہے۔
سارتر نے Roquentinکے تجربات کو آزادی، ذمہ داری،اور بظاہر لاتعلق کائنات میں معنی کی تلاش جیسے موضوعات کو
تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ناول میں اس خیال کو شامل کیا گیا ہے کہ افراد کو اپنی اقدار اور زندگی کا مقصد خود بنانا چاہیے، کیونکہ روایتی ڈھانچے اور عقائد تسلی بخش جوابات فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔سو لہویں اور ستر ہویں صدی میں یورپ کے ہر ملک میں فلسفیوں اور سائنس دانوں پر الحاد اور بغا وت کے الزام لگا کر انہیں زندہ جلاد یا جاتا تھا اور کبھی انہیں جیل کے
تنگ و تاریک کمروں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا لیکن علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے
بجھانے کی کو شش ناکام رہی ،برونو کوروم میں زندہ جلادیاگیا لیکن اس کے خیال کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا۔ اگر علم و دانش کے یہ علم بردار کلیسا کی تلواروں سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا ۔یورپ کا احتسا ب عالموں کو زندہ
جلانے میں کامیاب ہوگیا لیکن احتساب انسانی غور و فکر کو زنجیروں میں نہ جکڑ سکا یورپ کے اس عہد کی اگر تعزیری تاریخ پر غور کیا جائے تو وہ بھیانک اور لرزہ خیز سزائوں کا ایک مسلسل عہد دکھائی دے گا۔ اس عہد میں انسانی ذہن کو قید کر نے کی کو شش میں انسانی
جسم کو زندہ جلایاگیا جسم جل گیا لیکن ذہن زندہ رہا جرم وسزا کے اس دور کے بعد خیالات باقی رہے کیونکہ خیال نہیں مٹا یاجاسکتا ۔
خیالات کو قید نہیں کیاجاسکتا خیال آزاد ہے فوج کے حملوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کے حملوں کو نوک سنگین سے
نہیں رو کا جاسکتا۔ وحشت اور بربریت سے تہذیب و تمد ن تک کا یہ سارا سفر راتوں رات طے نہیں ہواانسان کو یہ سفر طے کر نے
میں صدیا ں لگیں قربانیوں اور جدوجہد کی بہت طویل داستان ہے اس سارے سفر نے ایک بات ثابت کر دی کہ انسان عظیم ہے
اور عوام سپر یم ہیں دنیاکی تاریخ میں خدا کے بعد کر شمے عوام نے ہی کرکے دکھائے ہیں یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے آمروں ، بادشاہوں کے تاج و تخت اچھا ل کر پھینک دئیے جنہوں نے اپنے خالی ہاتھوں سے بڑے بڑے ٹینک الٹ کر رکھ دئیے بڑے بڑے ظالم ، جابر بادشاہ اور آمران ہی عوام کے ڈر و خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔
دنیا بھر کے عوام نے خو شحالی اور ترقی کی منزلیں ، جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے طے کی ہیں پاکستان کا قیام ایک عوامی جدو جہد کا نتیجہ ہے نہ کہ عسکر ی جدو جہدکااوریہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعد ہ ان کے آبائو اجداد سے کیا گیا تھا ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک میں رہیں گے جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں عوام سپریم ہوتے ہیں جہاں ہر شہر ی بلاکسی جبر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرسکے جہاں آزادانہ اور منصفا نہ انتخابات ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے جو با اختیار ہوتی ہے پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سمیت ہر طرح کی قانون سازی کی مجاز ہے پارلیمنٹ کی منظورکر دہ ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے، قائداعظم نے نئی دہلی میں رائٹر کے نمائندے ڈون کیمپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہو گی ”۔ 11 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے 3 دن قبل پاکستان کی آئین سازاسمبلی کے صدر کی حیثیت سے کئے گئے اپنے تاریخی خطاب میں انہوں نے انسانوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کو بار بار پاکستان کا مقتدر اعلیٰ کہہ کر مخا طب کیا۔ روسو کہتا ہے ”میں کیسا آدمی ہوں ، اس کا فیصلہ کو ئی شخص یا چند اشخاص نہیں کرسکتے ۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنے کا حق فقط عوام ہی کو حاصل ہے اور میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی پر چھوڑتا ہوں ”۔ تو جناب ملک کے اہم فیصلے کسی شخص یا چند اشخاص پر کیسے چھوڑ ے جاسکتے ہیں ۔شخص یا چند اشخاص غلط ہو سکتے ہیں لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کر تے ۔ ملک عوام کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام ملک کے لیے عوام سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند کوئی بھی نہیں ہوسکتا ۔ ریاست ایک منفر د کلیت ہوتی ہے آپ اس میں جانبدار ی تلاش نہیں کرسکتے ، کیونکہ اس میں آئین سب سے افضل ہوتاہے اور یہ نہ صرف ذہنی قوتوں کی نمائند گی کرتا ہے بلکہ اس میں تمام اخلاقی اور علمی ہمہ گیریت کی صورت پذیری بھی ہوتی ہے ۔
آئین میں سب سے اہم بات تو عوام کی سیاسی صورت حال کی نمود ہے۔ ہیگل کہتا ہے ”ہرآئین اپنے دور کا غماز ہوتاہے اور وہ سیاسی اصولوں کی کلیت ہوتا ہے ہم پرانی تاریخ کے کسی عظیم آئین سے جدید آئین کے بارے میں کچھ نہیں سیکھ سکتے ۔ وہ کہتا ہے
” اب ریاست اور عوام کا تعلق کیا ہے ریاست ، اس کے قوانین ، اس کی انتظامیہ شہریوں کے حقوق اس کی طبعی خصو صیات اس کے پہا ڑ ، آ ب و ہوا ، ملک ، شہریوں کی جائیداد ، تاریخ ، ریاست ، اسلاف کے کار نا مے ، ان کی یاد، ان سب کا تعلق عوام سے ہے اور ان کی زندگی میں رواں دواں ہے یہ سب ان کا ہے جیسے وہ خود اس کے ہیں کیونکہ ان کی ہستی (Being) ہے یہ سب مل کر روح عصر بنتی ہے اور ہر شہر ی اس کا نما ئند ہ ہے اوراس سے اس نے جنم لیا ہے اور وہ اسی میں بستا ہے ” ۔ آخری اورقطعی آزادی جسے انسان سے چھینا نہیں جاسکتا ” نہ ” کہنے کی آزادی ہے اور یہ ہی سارتر کے نظریہ قدرت و اختیار کا سنگ بنیاد ہے۔ سارتر کہتا ہے کہ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ ”نہ ” کہے ۔ ہر انسان اپنی اخلاقی قدریں خود تخلیق کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال میں مطلق العنا ن ہے اور جس راہ عمل کو چاہے بلا رو ک ٹوک انتخاب کر سکتا ہے۔ جے جی فریزر کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتاہے ” کسی قوم یا فرد میں استحکام کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ حال کو مستقبل پر قربان کر دے یہ خصوصیت جس فرد میں جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا کر دار مستحکم ہوگا جب ایک انسان اپنی زندگی کی آسائشیں بلکہ خود زندگی کو قربان کر دیتا ہے تاکہ مستقبل بعید میں آنے والی نسلوں کو آزادی اور صداقت کی بر کات میسر آسکیں ۔ یہ ہی انسان کی عظمت ہے ۔ سقرا ط، برو نو ، وکلف، شیخ الاشراق سہروردی نے اپنی جانیں کسی ذاتی فائدے کے حصو ل کے لیے قربان نہیں کی تھیں بلکہ اپنے عقائد و اصول کی پاسبانی کرتے ہوئے مو ت کو خندہ پیشانی سے دعوت دی تھی۔ سقراط کے دوستوں نے کہا ”ہم محا فظوں کو رشوت دے کر آپ کو بھگانے کی کو شش کررہے ہیں ”۔ سقراط نے بھا گنے سے انکار کر دیا اور کہا ”میں ایتھنز والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے اصولوں کو اپنی جان سے زیاد ہ عزیز رکھ سکتاہے ۔ سقراط ، برونو،و کلف نے ” نہ ” کہا اور اپنی جان دے دی ۔اور صرف ”نہ” کہنے کی وجہ سے یہ سب صدیوں بعد آج بھی زند ہ ہیں ۔ لیکن ان کے قاتلوں کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے ۔ عوام طاقت کا اصل سر چشمہ ہوتے ہیں طاقت اور فیصلے کر نے کا محو ر شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں پاکستان کے عوام اپنا معاشرہ بدلنے کی مسلسل کو ششیں کررہے ہیں کیونکہ وہ عقل اور شعور کے مالک ہیں۔ مثالی معا شر ہ قائم کرنے میں شاید کئی سال اور لگ جائیں لیکن عوام کو اپنی کامیابی پریقین ہے کیونکہ ان پر حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ صرف مثالی معا شرہ قائم کرنے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا وجود جمعرات 04 دسمبر 2025
خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا

خواتین ڈاکٹروں سمیت 1500 کشمیری گرفتار وجود جمعرات 04 دسمبر 2025
خواتین ڈاکٹروں سمیت 1500 کشمیری گرفتار

یاسین ملک کو سزا دلانے کا بھارتی منصوبہ وجود منگل 02 دسمبر 2025
یاسین ملک کو سزا دلانے کا بھارتی منصوبہ

مسٹر ٹیفلون۔۔۔ وجود منگل 02 دسمبر 2025
مسٹر ٹیفلون۔۔۔

آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ وجود پیر 01 دسمبر 2025
آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر