... loading ...
بے لگام / ستار چوہدری
اسّی کی دہائی کا وہ سورج جیسے رونالڈ ریگن کے کندھوں پربیٹھا ہوا تھا، جب وہ وائٹ ہاؤس کے لان میں کھڑے ہو کر مسکراتے تو لگتا کہ امریکہ خود مسکرا رہا ہے ، معیشت ڈگمگا رہی تھی، ایران کونٹراجیسے گہرے سیاہ دھبے ابھررہے تھے ، کانگریس چیخ رہی تھی، میڈیا روز نئے الزامات کی بوچھاڑ کررہا تھا، مگروہ الزامات ریگن کے کوٹ پر لگتے ہی پگھل کر گر جاتے ۔ نہ دھبہ، نہ سلوٹ، نہ کوئی نشان۔صحافیوں نے پہلے حیرت سے ، پھر حسرت سے لکھا کہ یہ آدمی کسی عجیب کیمیاسے بنا ہے ۔ تنقید اس پراترتی تو تھی، مگر ٹھہرتی نہیں تھی، جیسے کوئی گرم tefalپین پر پانی کی بوندیں ڈالتے جاؤ، چھناک سے آواز کے ساتھ اچھلتی ہیں اور غائب ،بھاپ بن کر اڑ جاتی ہیں ،ایک دن نیویارک ٹائمز کی ایک کالم نگار، پیگی نونن نے لکھا”۔۔ He is the Teflon President۔۔” بس یہی جملہ پکڑ لیا گیا۔ریگن کچھ دنوں میں ”۔۔۔ Teflon-coated Ronnie۔۔۔”پورے ملک کی زبان پرچڑھ گیا،ریگن خود اس پر ہنستے ، کندھے اچکاتے اورکہتے
”۔۔ know what that stuff is, but it sure works t’I don۔۔”مگراصل جادو Tefal کی کوٹنگ میں نہیں، ان کی سادگی میں تھا۔ وہ جب کیمرے کے سامنے آتے تو لگتا کوئی بوڑھا ہالی ووڈ اداکار نہیں، کوئی پڑوسی چچا بول رہا ہے جو کل ہی گھاس کاٹ کر آیا ہو۔ جب وہ کہتے ”۔۔well۔۔” اور رکتے ، تو لاکھوں دل رکتے ۔ جب وہ مسکراتے توتنقید کرنے والے خود شرمندہ ہوجاتے ۔ ایران،کونٹراکی سماعتوں میں بھی جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کچھ یاد ہے ؟ تو انہوں نے سرجھکایا، معصوم سی مسکراہٹ دی اور بولے ”۔۔My heart tells me one thing, my memory tells me another۔۔”بس اتنا کافی تھا۔ قوم نے معاف کر دیا۔ کیونکہ وہ ”ہم میں سے ایک ” لگتے تھے ، اورہم میں سے کوئی بھی غلطی کرسکتا ہے ،یوں وہ پہلے اورآخری امریکی صدر بنے جن پرتاریخ کا سب سے زیادہ کیچڑ اچھالا گیا۔۔۔ان پرپہلا بم 1981میں ہی پھٹا، Bitburg Cemeteryتنازع ،ریگن نے مغربی جرمنی کے دورے پر نازی فوجیوں کی قبروں پر پھول چڑھانے کا فیصلہ کیا،یہودی تنظیموں نے چیخنا شروع کر دیا، دنیا بھر میں احتجاج ہوئے ، میڈیا نے کہا یہ نازیوں سے ہمدردی ہے ،ریگن نے بس اتنا کہا”۔۔ll still go I’۔۔۔” اور گئے ،دو ہفتے بعد قوم بھول گئی ۔1983 میں بیروت میں میرین بیریکس پربم دھماکہ ہوا، 241امریکی فوجی مارے گئے ۔ کانگریس اورمیڈیا نے پوچھا، انٹیلی جنس فیل کیوں ہوئی ؟ ریگن نے ٹی وی پرآکر آنسو بہائے ، کہا ”۔۔ We made a mistake۔۔ ” اوردودن بعدعوام نے معاف کردیا۔
1985-86 میں ایران۔۔کونٹرا اسکینڈل پھٹا۔ ثابت ہوا کہ ریگن انتظامیہ نے ایران کو خفیہ طور پرہتھیار بیچے ، پیسے نکال کر نکاراگوا کے باغیوں کو دیے ، یہ دونوں کام کانگریس کی منظوری کے بغیر ہوئے ،یہ صدارتی تاریخ کا سب سے بڑا آئینی جرم تھا۔ ریگن ٹی وی پر آئے اور کہا ۔۔۔ ” My heart tells me we didn’t trade arms for hostages, but the facts say otherwise۔۔۔” قوم نے سن کو کندھے اچکائے آور آگے بڑھ گئی۔ اسی دوران ای پی اے اسکینڈل، HUDفراڈ، ڈیفنس کنٹریکٹرز کی کرپشن، Savings & Loanبحران جس نے امریکی ٹیکس دہائی کے آخر تک اربوں ڈالرڈبو دیے ،ہرجگہ ریگن کے قریبی لوگ ملوث نکلے ،مگرریگن خود ہربار ” ۔۔ I was not aware۔۔” کہہ کر نکل جاتے ۔ پھر 1987میں بورس اسٹاک مارکیٹ کریش، Black Monday، ایک دن میں 22فیصد گراوٹ۔ سب نے کہا ریگن کی معاشی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ ریگن نے بس مسکرا کر کہا ”۔۔ Stay the cours۔۔” اوردوماہ بعد لوگ بھول گئے ۔ آخری برسوں میں الزائمر کی افواہیں چلیں، لوگ کہنے لگے صدرتو ذہنی طور پرفٹ نہیں،ریگن نے آخری پریس کانفرنس میں مذاق اڑایا”۔۔
m not going to exploit, for political purposes, my opponents’youth’ I۔۔”
and inexperience
سب ہنس پڑے اوربات ختم ۔۔۔یہ تمام کیچڑ، یہ تمام ثبوت، یہ تمام گواہیاں؛ سب اچھالے گئے ، سب ریگن پرگرے ، اورسب پگھل کر بہہ گئے ، کوئی دھبہ نہ لگا،اسی لیے وہ واقعی ”۔۔ Teflon President۔۔” تھے ، تاریخ کے وہ واحد امریکی صدر،جس پرگندگی پھینکی تو گئی، مگر لگی ہی نہیں، جب وہ عہدہ چھوڑ کرکیلیفورنیا واپس گئے توان کا کوٹ اتنا ہی چمک رہا تھا جتنا 1981میں واشنگٹن آتے وقت تھا۔ یہ نظام قدرت ہے ،اللہ تعالیٰ سب کچھ انسانوں کے حوالے نہیں کرتا،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا ،اے میرے رب !! کیا آپ بھی ہنستے ہیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا !! اے موسیٰ ( علیہ السلام) میں دو بارہنستا ہوں،ایک باراس وقت،جب میں کسی کو کچھ دینا چاہتا ہوں، پوری دنیا مخالفت میں اتر آتی ہے تو میری ہنسی نکل جاتی ہے ،دوسری باراس وقت،جب میں کسی سے کچھ چھیننا چاہتا ہوں،پوری دنیا اس کی حمایت میں اتر آتی ہے ،تو میری ہنسی نکل جاتی ہے ۔9مئی کے بعد اداروں،حکومت اوران کے حواریوں،ہمدردوں،کارکنوں نے وہ کونسا الزام ہے جوعمران خان،ان کی اہلیہ،ان کی بہنوں کے خلاف نہیں لگایا ۔۔؟ لیکن کوئی فرق پڑا۔۔ ؟ یاجوج ماجوج کی طرح صبح اٹھتے ہیں”دیوار چاٹنے ” لگتے ہیں،شام کو سمجھتے ہیں دیوارختم کرلی،سوجاتے ہیں،پھراگلی صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں،دیوار تو ویسے کی ویسے سلامت ہے ، پھر ”چاٹنا ” شروع کردیتے ہیں، تین سال سے یہی کام ”چاٹنے ” والا ہورہا ہے ، ” دیوارہویا بوٹ ” بے روزگاری،مہنگائی ،غربت تاریخی سطح پرپہنچ چکی،مینوفیکچرنگ صفرہوگئی،انڈسٹری بند ہورہی،ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک سے بھاگ رہیں،کسان رو رہے ،زراعت کا بھی بیڑاغرق کر دیا، ٹیکس پرٹیکس لگائے جارہے اور ساتھ دعویٰ کررہے ہیں،ملک ترقی کے راستے پر چل نکلا ہے ، وہ بڑے میاں صاحب،تین سال بعد بولنے کی اجازت ملی،پرچی دیکربٹھایا گیا،عمران سے شروع ،عمران پرختم،ضیاء الحق کو اس ” تحفے ” پرکبھی معافی نہیں مل سکتی، ”چنتخب ” حکمرانو!! ملک اور قوم کا کچھ سوچ لو،کپتان ”۔۔ Mr. Teflon۔۔” ہیں۔۔ آپ ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے ،آپ کے الزامات کا عوام پر کوئی اثرنہیں ہورہا،یہ آپ کے بس کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی ان حرکتوں پرضرورہنستا ہوگا۔
٭٭٭