... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت اب ہندو ریاست بن گیا ہے، جہاں اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔سیکولر بھارت کو بی جے پی نے طاقت زور زبردستی بدمعاشی سے ہندوتوا نظریہ پرچار کر کے اقلیتوں کے حقوق غصب کر لیے ہیں۔پھر بھی بھارتی انتہا پسند ہندو پنڈت یہی کہتے ہیں کہ بھارت خطرے میں ہے کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس کے بر عکس بھارت میں ہندووں کی آبادی سب سے زیادہ ہے ۔ایک سروے کے مطابق بھارت کی مجموعی آبادی کے حوالے سے مستند اعدادوشمار کے مطابق 2011کی سرکاری مردم شماری میں ملک کی آبادی تقریباً 21ئ1 بلین ریکارڈ کی گئی، جب کہ بین الاقوامی اداروں اور اقوامِ متحدہ کے تخمینوں کے مطابق 2025 تک بھارت کی آبادی بڑھ کر تقریباً46 ئ1 بلین تک پہنچ چکی ہے ۔ اسی مردم شماری کے مطابق ہندو آبادی ملک کی کل آبادی کا 79۔8 فیصد تھی، جو تعداد میں تقریباً 966۔3 ملین بنتی ہے ، جب کہ مسلمانوں کی آبادی 14۔23 فیصد یعنی تقریباً 172۔2 ملین درج کی گئی۔ تازہ بین الاقوامی تخمینوں میں مسلمانوں کی موجودہ آبادی تقریباً 200ملین تصور کی جاتی ہے ، اور ہندو آبادی کا تناسب بدستور 80فیصد کے قریب برقرار ہے ۔ یہ تمام اعدادوشمار اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی اکثریتوں میں سے ایک ہے ، جب کہ اقلیتیں مجموعی طور پر تقریباً 20فیصد کے قریب آبادی کا حصہ ہیں۔بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر آگرہ میں تاج محل کی پارکنگ کے قریب ایک مسلمان بزرگ محمد رئیس کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ‘جے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنا صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہندوستان میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت، سماجی تقسیم اور ہندوتوا کے جارحانہ بیانیے کا وہ کڑوا ثبوت ہے جو گزشتہ چند برسوں میں مسلسل گہرا ہوتا جا رہا ہے ۔ اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک کمزور، حیران اور خوف میں ڈوبے بزرگ کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں ان کی شناخت، مذہب اور عقیدے کی توہین پر مجبور کیا گیا۔ اس ایک لمحے میں پورا وہ درد سمٹ آیا ہے جو آج بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکتا ہے، وہ درد جسے دنیا ملاحظہ تو کرتی ہے مگر اس کے خلاف آوازیں بہت کم اٹھتی ہیں۔وائرل ویڈیو میں بارہا دیکھا گیا کہ ایک شخص بزرگ شہری محمد رئیس کو جو برسوں سے سیاحوں کو تاج محل لے جانے والے کیب ڈرائیور ہیں نعرہ لگانے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے ۔ انکار کرنے پر انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ویڈیو انسٹاگرام پر اس دعوے کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہے کہ چند دن میں رئیس کو یہ نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ یہ عمل محض ایک دوسرے انسان کی تذلیل نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور بڑھتے ہوئے انتہا پسند ذہن کی کھلی علامت ہے جو اقلیتوں کے لیے خوف کی فضا مزید گہری کرتا جا رہا ہے ۔
پولیس نے مقدمہ تو درج کرلیا، مگر کسی ملزم کی عدم گرفتاری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ریاستی اداروں
کا ردعمل اب بھی کمزور ہے ۔ ہندوستان میں ایسے واقعات کوئی نئے نہیں۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ہندوتوا سے جڑے
تشدد کے کیسز میں 40فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے ، جبکہ اقلیتی گروہوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں 70فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ اعدادوشمار نہ صرف تشویشناک ہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بھارتی معاشرہ شدت پسندی کے ایسے چکر میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے فوری اور مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے ۔ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ تعمیر کیے جانے والے مندر پر آر ایس ایس کا جھنڈا لہرانا بھی اسی بیانیے کی توسیع ہے ۔ یہ فیصلہ نہ صرف سیاسی بلکہ علامتی طور پر بھی ایک واضح پیغام رکھتا ہے کہ ہندوستان اب سیکولر جمہوری اقدار سے ہٹ کر مذہبی اکثریت کے غلبے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بابری مسجد کے انہدام سے لے کر آج تک 1992 میں شروع ہونے والی اس جارحانہ مہم نے بھارت کا سماجی نقشہ بدل دیا ہے ۔ حقوقِ اقلیت پر تحقیق کرنے والے کئی بین الاقوامی ادارے اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ گزشتہ 10برسوں میں بھارت میں مذہبی عدم برداشت کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ، یہاں تک کہ بعض عالمی انڈیکس میں بھارت کو ”ہائی رسک”کیٹیگری میں شامل کر لیا گیا ہے ۔
محمد رئیس کا واقعہ، ایک فرد پر ظلم ہونے کا مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ پورے معاشرتی نظام کی شکستگی کا ہے ۔ جب ایک پارکنگ ایریا میں کھڑے بزرگ کو زبردستی نعرہ لگوانے کی ویڈیو بنا کر یہ ثابت کیا جائے کہ اکثریت اپنی طاقت کو طاقتور تر سمجھتی ہے ، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرہ ایک ایسے خطرناک مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک کمزور شخص کے پاس صرف خوف بچ جاتا ہے ۔ بھارت کے مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے یہ واقعات صرف خبروں کا حصہ نہیں، بلکہ ان کی روزمرہ زندگی کا بڑھتا ہوا خطرہ بن چکے ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق گزشتہ 5 برس میں مسلمان شہریوں کے خلاف تشدد، ہراسانی یا جبری مذہبی نعرے لگوانے کے واقعات میں 30٪ اضافہ ہوا ہے ، جبکہ سوشل میڈیا پر ہندوتوا مہمات کا اثر نوجوان نسل کے رویوں میں بھی نمایاں طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
آگرہ کا یہ واقعہ ہندوستان کی اس سماجی و سیاسی تصویر کا ایک عکس ہے جس میں آزادی، احترام اور مذہبی رواداری کے رنگ تیزی سے پھیکے پڑ رہے ہیں۔ بھارت کا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے ، مگر عملی طور پر حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں سیکولرازم کا دعویٰ اب محض سرکاری بیانیہ بن کر رہ گیا ہے ، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اقلیتوں کا اعتماد روز بروز مجروح ہو رہا ہے ۔ایسے واقعات کے نتیجے میں خطے میں موجود کروڑوں مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھر رہا ہے کہ کیا ہندوستان اب بھی گاندھی اور نہرو کا وہ ملک ہے جس کی بنیاد عدم تشدد، رواداری اور ہم آہنگی پر رکھی گئی تھی؟ یا پھر یہ ملک نظریاتی طور پر ایک نئے رخ کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں اقلیتوں کے لیے جگہ تنگ تر ہوتی جا رہی ہے ؟ اس سوال کا جواب بھارت کے سنجیدہ طبقات کو دینا ہوگا، کیونکہ اگر معاشرہ تقسیم کے اس راستے پر بڑھتا رہا تو اس کے اثرات نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ علاقائی امن پر بھی گہرے ہوں گے ۔
آگرہ کے واقعے سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے حملے صرف انفرادی تشدد نہیں بلکہ باقاعدہ نظریاتی تحریک کا حصہ ہیں، جسے سیاسی سرپرستی، خاموشی، یا کمزور ردعمل مزید مضبوط بنا دیتا ہے ۔ اگر پولیس ایف آئی آر درج کرنے کے باوجود ملزمان تک نہیں پہنچ پاتی، تو یہ نہ صرف نظامِ انصاف کی کمزوری ہے بلکہ متاثرہ کمیونٹی کے لیے مایوسی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ ایسے ماحول میں اقلیتوں کا سماجی اعتماد ٹوٹتا ہے ، اور عوامی سطح پر خوف اور بے بسی کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے سامنے مضبوط حکمت عملی اپنائی جائے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اقلیتوں کی سکیورٹی کے حوالے سے واضح پالیسیاں مرتب کرے ، نفرت انگیز تقاریر اور مذہبی جبر پر سخت کارروائی کرے ، ایسے کیسز میں فوری گرفتاریوں کو یقینی بنائے اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والی انتہا پسند مہمات کا موثر طریقے سے سدباب کرے ۔ میڈیا کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی منافرت کے بجائے حقیقت اور انصاف کی آواز بننا چاہیے ، تاکہ معاشرہ مزید تقسیم کا شکار نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والی مہمات کی فوری ضرورت ہے ، تاکہ لوگوں کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ تشدد اور نفرت کسی بھی قوم کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔محمد رئیس جیسے بزرگ شہری کی بے بسی ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اگر معاشرہ خاموش رہا تو کل یہ ظلم مزید بڑھے گا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری قوت سے نبھائیں، قانون کو بلا امتیاز نافذ کریں اور ایسے واقعات کی روک تھام کو قومی ترجیح بنائیں تاکہ ہندوستان میں رہنے والی ہر کمزور آواز محفوظ ہو سکے اور ہر شہری اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ باوقار زندگی گزار سکے ۔
٭٭٭