... loading ...
محمد آصف
عصری صنعتی دور اور تیز رفتار شہری ترقی نے جہاں انسان کی زندگی کو سہولت اور آسانی دی ہے ، وہیں اس کے مضر اثرات بھی ہمارے ماحول اور صحت پر واضح ہو چکے ہیں۔ انہی ماحولیاتی مسائل میں سے ایک سب سے بڑا خطرہ اسموگ ہے ، جو انسانی زندگی اور قدرتی ماحول دونوں کے لیے مہلک ثابت ہو رہا ہے ۔ا سموگ دراصل ہوا میں موجود دھول، کیمیکلز، دھوئیں اور دیگر نقصان دہ ذرات کا ایک ملا جلا امتزاج ہے جو شہر کی فضا کو گہرے اور زہریلے دھند کی شکل میں گھیر لیتا ہے ۔ عام طور پر سردیوں میں اور صنعتی علاقوں کے قریب اس کا اثر زیادہ محسوس کیا جاتا ہے ۔
دنیا کے کئی بڑے شہروں میں اسموگ ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے ، جس کے نتیجے میں انسانی صحت، زندگی کے معیار اور معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اسموگ نہ صرف سانس کے امراض پیدا کرتا ہے بلکہ دل، دماغ اور دیگر اعضا کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ سب سے پہلے اسموگ کے ماخذ پر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ اس کا سب سے بڑا سبب صنعتی دھواں، گاڑیوں کے دھوئیں، فیکٹریوں کی آلودگی، بجلی گھروں سے نکلنے والا دھواں، اور کھیتوں میں فصلوں کے باقیات کو جلانے کی روش ہے ۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں گاڑیوں کی کثیر تعداد، پرانی اور ناقص انجن والی گاڑیاں، اور ٹریفک کے مسائل ہوا کو مزید آلودہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سردیوں میں موسم کی خرابیت اور ہوا کی کم حرکت بھی اسموگ کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے ۔ بعض اوقات قدرتی عناصر جیسے دھند اور سرد ہوا کے ساتھ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی مل کر اسموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے ، جو نظر بھی آتی ہے اور سانس کے نظام پر بھی برا اثر ڈالتی ہے ۔
اسموگ کے صحت پر اثرات سنگین اور متعدد ہیں۔ سب سے عام اثر سانس کے نظام پر پڑتا ہے ۔بچوں، بوڑھوں اور پہلے سے سانس کے
امراض میں مبتلا افراد میں یہ اثر زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسموگ میں موجود نقصان دہ ذرات پھیپھڑوں میں جمع ہو کر سانس کی بیماریوں جیسے دمہ، برونکائٹس، نمونیا اور دیگر انفیکشنز کا سبب بنتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اسموگ دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے ۔ بعض اوقات تو یہ آنکھوں کی سوزش، ناک اور گلے میں خراش، اور جلد کے مسائل کا بھی باعث بنتا ہے ۔ طویل مدتی اثرات میں پھیپھڑوں کی کارکردگی کم ہونا، قوتِ مدافعت میں کمی، اور دیگر داخلی اعضا پر منفی اثرات شامل
ہیں۔
اسموگ سے متاثر ہونے والے افراد کی فہرست وسیع ہے ، لیکن سب سے زیادہ خطرہ بچوں، بزرگوں اور پہلے سے سانس یا دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو ہوتا ہے ۔ بچے اپنی کمزور مدافعتی نظام اور بڑھتے ہوئے پھیپھڑوں کی وجہ سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور اسموگ کی وجہ سے دمہ، برونکائٹس اور دیگر سانس کی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بزرگ اور بوڑھے افراد بھی اس دھند میں موجود زہریلے ذرات کے اثرات سے دل کے امراض، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر پیچیدگیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین، معذور افراد اور وہ لوگ جو طویل وقت باہر گزارتے ہیں یا آلودہ علاقوں میں کام کرتے ہیں، وہ بھی اسموگ کے منفی اثرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح، اسموگ آنکھوں کی سوزش، ناک اور گلے میں خراش اور جلدی مسائل پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ، جس سے ہر شہری کی روزمرہ زندگی متاثر ہو سکتی ہے ۔ سموگ کے نقصانات کو کم کرنے اور بچاؤ کے لیے کئی اقدامات اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ شہری غیر ضروری باہر نکلنے سے گریز کریں اور اسموگ والے دنوں میں ماسک پہنیں تاکہ سانس کے ذریعے نقصان دہ ذرات جسم میں نہ جائیں۔ گھر یا دفاتر میں ایئر پیوریفائر کا استعمال فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ، جبکہ کھڑکیوں اور دروازوں کو بند رکھنا بھی مددگار ہے ۔ بچوں اور بزرگوں کو زیادہ آلودہ ماحول میں لے جانے سے گریز کرنا چاہیے اور تعلیمی ادارے اور اسکول بھی اسموگ کے دنوں میں کھلی فضا میں کھیلنے یا سرگرمیوں کو محدود کریں۔ اس کے علاوہ طویل مدتی حل کے لیے گاڑیوں کے غیر ضروری استعمال کو کم کرنا، پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ استعمال، درخت لگانا اور صنعتی فضائی آلودگی کے خلاف قوانین پر عمل درآمد کرنا بھی اہم ہے تاکہ سماجی سطح پر اسموگ کے اثرات کم سے کم ہوں اور انسان اپنی صحت محفوظ رکھ سکے ۔
اسموگ کے اثرات صرف جسمانی صحت تک محدود نہیں ہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی صحت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ فضائی آلودگی سے دماغ میں آکسیجن کی کمی اور زہریلے ذرات کی موجودگی نفسیاتی دباؤ، چڑچڑاپن، اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کمی پیدا کرتی ہے ۔ بچوں میں اسموگ کی وجہ سے تعلیمی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ دماغی فعالیت اور یادداشت پر اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسموگ کے باعث سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں میں کمی آتی ہے ، لوگ گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں اور روزمرہ کے معمولات متاثر ہوتے ہیں، جس سے انسانی زندگی کا معیار گھٹ جاتا ہے ۔اسموگ کے اثرات کے حوالے سے حکومتوں اور عالمی اداروں نے کئی اقدامات تجویز کیے ہیں،مگر عملی طور پر ان پر مکمل عمل درآمد ابھی بھی ایک چیلنج ہے ۔ شہری منصوبہ بندی، صنعتی ریگولیشن، گاڑیوں کے انجن کا معیار بہتر کرنا، اور فیکٹریوں میں فلٹریشن کے نظام کو لازمی بنانا اس ضمن میں بنیادی اقدامات ہیں۔ علاوہ ازیں، شہریوں میں شعور اجاگر کرنا اور اسموگ کے دنوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم دینا بھی ضروری ہے ۔ مثلاً باہر جانے سے گریز، ماسک پہننا، ہوا صاف کرنے والے آلات کا استعمال، اور بچوں اور بوڑھوں کو زیادہ آلودہ ماحول میں لے جانے سے گریز کرنا۔ اس کے علاوہ زرعی سرگرمیوں میں جدید طریقے استعمال کرنا، جیسے فصل کے باقیات کو جلا کر ختم کرنے کی بجائے کمپوسٹنگ یا دیگر محفوظ طریقے اپنانا، اسموگ کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔
اسموگ کے مسئلے کا حل صرف تکنیکی اور حکومتی اقدامات تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری بھی اہم ہے ۔ شہریوں کو اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں میں ماحول دوست رویہ اپنانا چاہیے ۔ گاڑیوں کے غیر ضروری استعمال سے گریز، پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ استعمال، توانائی کی بچت، اور پودے لگانے کی عادت نہ صرف ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ہے بلکہ اسموگ کی شدت کو کم کرنے میں بھی مؤثر ثابت ہوتی ہے ۔ تعلیم، شعور اور سماجی ذمے داری کے امتزاج سے ہی اسموگ کے خطرناک اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے ۔ لہٰذا اسموگ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی زندگی، صحت اور خوشحالی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے ۔ اگر اسے بروقت کنٹرول نہ کیا گیا تو اس کے اثرات بچوں، بزرگوں اور معذور افراد سمیت ہر شہری پر پڑیں گے ، اور آنے والی نسلیں ایک بیمار اور غیر محفوظ ماحول میں پرورش پائیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومتیں، ادارے اور شہری مل کر اسموگ کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کریں، ماحول دوست اقدامات اپنائیں اور صحت مند زندگی کے لیے پائیدار ماحول قائم کریں۔ اسموگ کے خاتمے کے لیے سب کی مشترکہ کوشش ہی ہمارے ماحول اور نسلوں کی بقا کی ضمانت بن سکتی ہے ۔
٭٭٭