وجود

... loading ...

وجود

سماجی برائیاں، اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں

بدھ 26 نومبر 2025 سماجی برائیاں، اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ

باروچ اسپینوزا کا اقتباس، ”اگر آپ چاہتے ہیں کہ حال ماضی سے مختلف ہو تو ماضی کا مطالعہ کریں”، تاریخی بیداری کی اہمیت کے بارے میں ایک گہری سچائی کو سمیٹتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے تجربات کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا،چاہے ذاتی، سماجی، یا حتیٰ کہ عالمی ، موجودہ میں بامعنی تبدیلیاں لانے کے لیے اہم ہے۔
تاریخ کو اکثر واقعات کے مجموعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مستقبل کی رفتار کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہم سے پہلے آنے والوں کے نمونوں، غلطیوں اور کامیابیوں کا مطالعہ کرنے سے، ہم غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکتے ہیں اور حاصل کردہ حکمت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماضی قیمتی اسباق فراہم کرتا ہے، جو ہمیں باخبر فیصلے کرنے اور سیاق و سباق کے گہرے احساس کے ساتھ چیلنجوں سے نمٹنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسپینوزا کے عقلیت پسند فلسفے میں، ان اسباب کا علم جو ہماری حقیقت کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس طرح، موجودہ دور کو تبدیل کرنے یا اس پر اثر انداز ہونے کے لیے، ہمیں ان عوامل کو پہچاننا اور ان کا تجزیہ کرنا چاہیے جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ اس تفہیم کو مربوط کرنے سے، ہم تاریخی تکرار کی جڑت کا شکار ہونے کے بجائے موجودہ کو نئے امکانات کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اسپینوزا کی بصیرت کو عالمی سطح پر انفرادی ترقی سے لے کر سماجی تبدیلی تک لاگو کیا جا سکتا ہے، جو اسے تاریخی مطالعہ کی طاقت پر ایک لازوال عکاسی بناتا ہے۔بچپن میں عید کا چاند سب لوگ اپنے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر مل کر ڈھونڈتے تھے لیکن چاند تھا کہ اکثر مل کر ہی نہ دیتا تھا کبھی ایک طرف سے آواز آتی تھی کہ وہ دیکھو چاند نظر آرہا ہے سب کے سب لوگ پھر اسی سمت دیکھ کر چاند کو ڈھونڈنے لگ جاتے تھے، پھر اسی دوران اچانک دوسری سمت سے آواز بلند ہوتی تھی کہ دیکھو دیکھو بادلوں کی آڑ میں چھپتا چاند نظرآرہاہے تو سب کے سب پھر اسی سمت اسے ڈھونڈنے نکل پڑتے تھے پھر جب رات کی سیاہی آسمان کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی تو سب مایوس ہو کر اپنی چھتوں سے اتر کر ریڈیو کے گر د بیٹھ جاتے تھے۔ ہر عید کی رات یہ ہی تماشا ہوتا تھا اصل میں ہم بہت ہی دلچسپ قوم ہیں ۔ہماری فطرت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب کسی نے کوئی بھی آواز بلند کی ہم سب نے باجماعت اسی سمت دیکھنا شروع کردیابغیر سوچے سمجھے ۔ کبھی ملک میںآواز لگی کہ اگر ہمیں ذہین سیاست دان مل جائے تو ہم ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں اور ہمیں درپیش تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں توہم سب نے ذہین سیاست دان ڈھونڈنا شروع کردیا پھر آواز بلند ہوئی کہ اگر ہمیں ماہر معاشیات میسر ہوجائے تو ملک میں پیسوں کا سیلاب آجائے گا تو پھر ہم نے ایک منٹ لگائے بغیر ماہر معاشیات کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔ اسی دوران اچانک کہیں سے آواز آئی کہ خدا را ماہر امور خارجہ کوتلاش کرو کیونکہ جب ہمارے دنیا بھر سے تعلقات اچھے ہوجائیں گے تو ہمارے تما م مسائل خود بخود حل ہوجائیںگے ۔ تو ہم نے ماہر امورخارجہ کی تلاش شروع کردی نتیجے میں آج دنیا بھر کے وہ تمام مسائل جو دنیا بھر میں ناپید ہوچکے ہیں ماشاء اللہ ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں ۔ اصل میں ہم نے اپنے اصل مسئلے کی طرف کبھی نہیں سو چا اور نہ ہی کبھی دھیان دیا اور نہ ہی کبھی اس کے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند ہوئی ۔
آئیں ہم اپنے اصل مسئلے پر بات کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمارے تمام کے تمام مسائل پیدا ہوئے ۔یونانی فلسفے کی تاریخ و ارتقا میں تین ادوار آئے ہیں چھٹی صدی قبل مسیح میں جب یونانی فلسفے کا آغاز ہوا تو ڈیڑھ سو بر س یونانی ابتدائی فلسفیوں نے جس میں تھا لیس، اناکسی منیڈر، ہیرا قلیطس ،انکساگورس، دیما قریطس شامل تھے نے اپنی ذہنی توانائیاں کائنات کی حقیقت معلوم کرنے میں صرف کیں دوسرے دور میں خود کو Sophistsکہلانے والے فلسفیوں پر وٹاگورس، تھراسی میکس، گارجیاس، پولس، کیلی کلس نے موضوع بحث و فکر کو کائنات سے انسان کی طرف موڑ دیا جبکہ تیسرے دور جس کاآغاز سقراط سے ہوا ،انہوں نے فکر و بحث کو نیکی بدی ، بھلائی اور انصاف کے حتمی معنی کی طرف اور ”اچھے ” انسان اور ”اچھے ” ترین نظام حکومت اور اخلاقی اوصاف کی طرف موڑ دیا اور ان سوالات سے بڑھ کر کہ اچھا حکیم کون ہے اچھا ملا ح کون ہے اچھا بڑھئی کون ہے اچھا کمہار کون ہے اچھا سنگتراش کون ہے اچھا ئی نائی کون ہے اچھا منتظم کون ہے اچھا سیاست دان کون ہے کے بجائے اس سوال پر زور دینے لگے کہ اچھا انسان کون ہے ؟ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں جس انسان میں احساس فرض ، ہمدردی ، ایثار، خلوص ،بے لوثی ،انصاف اور ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ نہ ہو، وہ فردچاہے جتنا بڑا عالم ،سائنس دان ، ماہر اقتصادایات ، ماہر امور خارجہ ، منتظم ، سیاست دان ، ادیب ،ہنر مند ، فنکار ہو اپنی برادری کے لیے بیکار ہے بلکہ صفر ہے ۔ روسو کہتا ہے کہ ” ہمارے پاس اچھے سائنس دان ، اچھے ڈاکٹر ،ا چھے ہنر مند، اچھے منتظمین تو ہیں مگر اچھے شہر ی اور اچھے انسان نہیں ہیں اس لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اگر ہم اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کرسکیں تو پھر ہمارے پاس سب کچھ ہوگا۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا بھر کے سماجوں میں سماجی برائیاں سائنس، علم ، تجربے،ہنراور فن کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہیں ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر کوئی ریاست خوشحال، کامیاب اور ترقی یافتہ ہے تو اس ریاست میں اچھے شہریوں اور اچھے انسانوں کی اکثریت ہے اور اگر کوئی ریاست تباہ اور برباد ہے اور اس میں دنیا بھر کی تمام غلاظتیں موجود ہیں تو اس ریاست میں بر ے شہریوں اور برے انسانوں کی اکثریت ہے۔ ذہن میں رہے ایک اچھا شہری لازماً ایک اچھا انسان بھی ہوتاہے اور برا شہری لازماً براانسان ہوتاہے ۔ پوری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی ریاست کا اصل مسئلہ اخلاقی ہوتا ہے یعنی اگر کوئی ریاست اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کررہی ہے تو وہ خوشحال اور کامیاب ہے دوسر ی طرف اگر کوئی ریاست برے شہری اور برے انسان پیدا کررہی ہے تو اس کا حال پاکستان جیسا ہوگا۔ اس لیے ہمیں اچھے سیاست دان ، اچھے ماہر اقتصادایات ،ماہر امور خارجہ کی نہیں بلکہ اچھے انسانوں اور اچھے شہریوں کی ضرورت ہے جب ہمیں اچھے شہری اور اچھے انسان وافر مقدار میں مہیا ہو جائیں گے تو ہمیں خود بخود اچھے سیاست دان ، اچھے ماہر اقتصادایات اور ماہر امور خارجہ مل جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں دنیا بھر کی غلاظتوں سے بھی نجات مل جائے گی ۔اس لیے آئیں ہم اپنے ملک میں اچھے انسان پیدا کرنا شروع کردیں ۔ اس کاآغاز آج ہی سے ہوجانا چاہیے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت ، ہندو ریاست بننے کی طرف گامزن وجود بدھ 26 نومبر 2025
بھارت ، ہندو ریاست بننے کی طرف گامزن

سماجی برائیاں، اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں وجود بدھ 26 نومبر 2025
سماجی برائیاں، اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں

آگ کے تابوت وجود بدھ 26 نومبر 2025
آگ کے تابوت

دھلی بم دھماکوں کے بعد کشمیریوں کی زندگی اجیرن وجود منگل 25 نومبر 2025
دھلی بم دھماکوں کے بعد کشمیریوں کی زندگی اجیرن

استنبول میں غزہ عالمی ٹریبونل کی سماعت وجود پیر 24 نومبر 2025
استنبول میں غزہ عالمی ٹریبونل کی سماعت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر