... loading ...
اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
باروچ اسپینوزا کا اقتباس، ”اگر آپ چاہتے ہیں کہ حال ماضی سے مختلف ہو تو ماضی کا مطالعہ کریں”، تاریخی بیداری کی اہمیت کے بارے میں ایک گہری سچائی کو سمیٹتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے تجربات کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا،چاہے ذاتی، سماجی، یا حتیٰ کہ عالمی ، موجودہ میں بامعنی تبدیلیاں لانے کے لیے اہم ہے۔
تاریخ کو اکثر واقعات کے مجموعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مستقبل کی رفتار کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہم سے پہلے آنے والوں کے نمونوں، غلطیوں اور کامیابیوں کا مطالعہ کرنے سے، ہم غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکتے ہیں اور حاصل کردہ حکمت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماضی قیمتی اسباق فراہم کرتا ہے، جو ہمیں باخبر فیصلے کرنے اور سیاق و سباق کے گہرے احساس کے ساتھ چیلنجوں سے نمٹنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسپینوزا کے عقلیت پسند فلسفے میں، ان اسباب کا علم جو ہماری حقیقت کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس طرح، موجودہ دور کو تبدیل کرنے یا اس پر اثر انداز ہونے کے لیے، ہمیں ان عوامل کو پہچاننا اور ان کا تجزیہ کرنا چاہیے جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ اس تفہیم کو مربوط کرنے سے، ہم تاریخی تکرار کی جڑت کا شکار ہونے کے بجائے موجودہ کو نئے امکانات کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اسپینوزا کی بصیرت کو عالمی سطح پر انفرادی ترقی سے لے کر سماجی تبدیلی تک لاگو کیا جا سکتا ہے، جو اسے تاریخی مطالعہ کی طاقت پر ایک لازوال عکاسی بناتا ہے۔بچپن میں عید کا چاند سب لوگ اپنے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر مل کر ڈھونڈتے تھے لیکن چاند تھا کہ اکثر مل کر ہی نہ دیتا تھا کبھی ایک طرف سے آواز آتی تھی کہ وہ دیکھو چاند نظر آرہا ہے سب کے سب لوگ پھر اسی سمت دیکھ کر چاند کو ڈھونڈنے لگ جاتے تھے، پھر اسی دوران اچانک دوسری سمت سے آواز بلند ہوتی تھی کہ دیکھو دیکھو بادلوں کی آڑ میں چھپتا چاند نظرآرہاہے تو سب کے سب پھر اسی سمت اسے ڈھونڈنے نکل پڑتے تھے پھر جب رات کی سیاہی آسمان کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی تو سب مایوس ہو کر اپنی چھتوں سے اتر کر ریڈیو کے گر د بیٹھ جاتے تھے۔ ہر عید کی رات یہ ہی تماشا ہوتا تھا اصل میں ہم بہت ہی دلچسپ قوم ہیں ۔ہماری فطرت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب کسی نے کوئی بھی آواز بلند کی ہم سب نے باجماعت اسی سمت دیکھنا شروع کردیابغیر سوچے سمجھے ۔ کبھی ملک میںآواز لگی کہ اگر ہمیں ذہین سیاست دان مل جائے تو ہم ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں اور ہمیں درپیش تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں توہم سب نے ذہین سیاست دان ڈھونڈنا شروع کردیا پھر آواز بلند ہوئی کہ اگر ہمیں ماہر معاشیات میسر ہوجائے تو ملک میں پیسوں کا سیلاب آجائے گا تو پھر ہم نے ایک منٹ لگائے بغیر ماہر معاشیات کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔ اسی دوران اچانک کہیں سے آواز آئی کہ خدا را ماہر امور خارجہ کوتلاش کرو کیونکہ جب ہمارے دنیا بھر سے تعلقات اچھے ہوجائیں گے تو ہمارے تما م مسائل خود بخود حل ہوجائیںگے ۔ تو ہم نے ماہر امورخارجہ کی تلاش شروع کردی نتیجے میں آج دنیا بھر کے وہ تمام مسائل جو دنیا بھر میں ناپید ہوچکے ہیں ماشاء اللہ ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں ۔ اصل میں ہم نے اپنے اصل مسئلے کی طرف کبھی نہیں سو چا اور نہ ہی کبھی دھیان دیا اور نہ ہی کبھی اس کے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند ہوئی ۔
آئیں ہم اپنے اصل مسئلے پر بات کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمارے تمام کے تمام مسائل پیدا ہوئے ۔یونانی فلسفے کی تاریخ و ارتقا میں تین ادوار آئے ہیں چھٹی صدی قبل مسیح میں جب یونانی فلسفے کا آغاز ہوا تو ڈیڑھ سو بر س یونانی ابتدائی فلسفیوں نے جس میں تھا لیس، اناکسی منیڈر، ہیرا قلیطس ،انکساگورس، دیما قریطس شامل تھے نے اپنی ذہنی توانائیاں کائنات کی حقیقت معلوم کرنے میں صرف کیں دوسرے دور میں خود کو Sophistsکہلانے والے فلسفیوں پر وٹاگورس، تھراسی میکس، گارجیاس، پولس، کیلی کلس نے موضوع بحث و فکر کو کائنات سے انسان کی طرف موڑ دیا جبکہ تیسرے دور جس کاآغاز سقراط سے ہوا ،انہوں نے فکر و بحث کو نیکی بدی ، بھلائی اور انصاف کے حتمی معنی کی طرف اور ”اچھے ” انسان اور ”اچھے ” ترین نظام حکومت اور اخلاقی اوصاف کی طرف موڑ دیا اور ان سوالات سے بڑھ کر کہ اچھا حکیم کون ہے اچھا ملا ح کون ہے اچھا بڑھئی کون ہے اچھا کمہار کون ہے اچھا سنگتراش کون ہے اچھا ئی نائی کون ہے اچھا منتظم کون ہے اچھا سیاست دان کون ہے کے بجائے اس سوال پر زور دینے لگے کہ اچھا انسان کون ہے ؟ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں جس انسان میں احساس فرض ، ہمدردی ، ایثار، خلوص ،بے لوثی ،انصاف اور ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ نہ ہو، وہ فردچاہے جتنا بڑا عالم ،سائنس دان ، ماہر اقتصادایات ، ماہر امور خارجہ ، منتظم ، سیاست دان ، ادیب ،ہنر مند ، فنکار ہو اپنی برادری کے لیے بیکار ہے بلکہ صفر ہے ۔ روسو کہتا ہے کہ ” ہمارے پاس اچھے سائنس دان ، اچھے ڈاکٹر ،ا چھے ہنر مند، اچھے منتظمین تو ہیں مگر اچھے شہر ی اور اچھے انسان نہیں ہیں اس لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اگر ہم اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کرسکیں تو پھر ہمارے پاس سب کچھ ہوگا۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا بھر کے سماجوں میں سماجی برائیاں سائنس، علم ، تجربے،ہنراور فن کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہیں ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر کوئی ریاست خوشحال، کامیاب اور ترقی یافتہ ہے تو اس ریاست میں اچھے شہریوں اور اچھے انسانوں کی اکثریت ہے اور اگر کوئی ریاست تباہ اور برباد ہے اور اس میں دنیا بھر کی تمام غلاظتیں موجود ہیں تو اس ریاست میں بر ے شہریوں اور برے انسانوں کی اکثریت ہے۔ ذہن میں رہے ایک اچھا شہری لازماً ایک اچھا انسان بھی ہوتاہے اور برا شہری لازماً براانسان ہوتاہے ۔ پوری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی ریاست کا اصل مسئلہ اخلاقی ہوتا ہے یعنی اگر کوئی ریاست اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کررہی ہے تو وہ خوشحال اور کامیاب ہے دوسر ی طرف اگر کوئی ریاست برے شہری اور برے انسان پیدا کررہی ہے تو اس کا حال پاکستان جیسا ہوگا۔ اس لیے ہمیں اچھے سیاست دان ، اچھے ماہر اقتصادایات ،ماہر امور خارجہ کی نہیں بلکہ اچھے انسانوں اور اچھے شہریوں کی ضرورت ہے جب ہمیں اچھے شہری اور اچھے انسان وافر مقدار میں مہیا ہو جائیں گے تو ہمیں خود بخود اچھے سیاست دان ، اچھے ماہر اقتصادایات اور ماہر امور خارجہ مل جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں دنیا بھر کی غلاظتوں سے بھی نجات مل جائے گی ۔اس لیے آئیں ہم اپنے ملک میں اچھے انسان پیدا کرنا شروع کردیں ۔ اس کاآغاز آج ہی سے ہوجانا چاہیے۔
٭٭٭