... loading ...
محمد آصف
عہدِ حاضر انسانی تاریخ کا وہ فیصلہ کن دور ہے جس میں دنیا اپنی تیز رفتار ترقی، ٹیکنالوجی کی حیران کن پیش رفت، اور باہمی رابطوں کے بے مثال امکانات کے باوجود شدید نوعیت کے عدم برداشت، اختلافات، انتہاپسندی اور تشدد کے بحران سے دوچار ہے ۔ آج کا انسان بلاشبہ علم و شعور کی نئی منزلیں طے کر چکا ہے ، مگر اسی انسان کے رویّوں میں سختی، جذباتیت اور غصہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ عالمی سطح پر نسلی، مذہبی، لسانی اور سیاسی تقسیمیں گہری ہوتی جا رہی ہیں، جنہوں نے معاشروں کو بے سکونی، بداعتمادی اور خوف کے ماحول میں دھکیل دیا ہے ۔ ایسے میں برداشت، امن اور ہم آہنگی محض اخلاقی اقدار نہیں رہے ، بلکہ پوری انسانیت کی بقا، معاشرتی استحکام اور تہذیبی پیش رفت کے لیے ناگزیر اصول بن چکے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں بڑھتے تنازعات اور ٹکراتے مفادات نے ثابت کر دیا ہے کہ بغیر برداشت اور امن کے ترقی کا کوئی خواب پورا نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی کوئی معاشرہ دیرپا سکون اور خوش حالی حاصل کر سکتا ہے ۔
برداشت بنیادی طور پر انسان کے باطنی ضبط، وسعتِ نظر اور اخلاقی بلندی کا نام ہے ۔ یہ وہ صفت ہے جو کسی شخص کو اختلافِ رائے ، تنقید یا ناموافق حالات میں بھی تحمل، شائستگی اور وقار برقرار رکھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے ۔ معاشروں میں برداشت کا کلچر، افراد کے باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے ، مختلف ذہنوں کو قریب لاتا ہے ، اور اختلاف کو دشمنی بننے سے روکتا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے آج کا انسان فوری ردِ عمل، عدم برداشت، اور دوسروں کی رائے مسترد کرنے کی عادت میں مبتلا ہے ، جس کا نتیجہ گھروں میں جھگڑوں، اداروں میں تناؤ، سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی، اور معاشرے میں شدت پسندی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ یہی رویے آگے چل کر معاشرتی بے چینی، ذہنی دباؤ، انتشار اور عدم اعتماد کو جنم دیتے ہیں۔ اس لیے برداشت کا فروغ نہ صرف افراد کے لیے ضروری ہے بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ایک پُرامن معاشرے کی ضمانت ہے ۔
امن انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے ۔ معاشی، سماجی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا انحصار براہِ راست امن پر ہے ۔ جہاں امن ہوتا ہے وہاں ترقی ہوتی ہے ، لوگ خوش حال ہوتے ہیں،
ادارے مضبوط ہوتے ہیں، اور ذہنوں میں اعتماد اور امید کی روشنی پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس جنگ، بدامنی، انتشار اور خوف معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیتے ہیں۔ آج دنیا کے کئی خطے جنگوں اور خانہ جنگیوں کا شکار ہیں، جہاں نسلیں برباد ہو رہی ہیں، معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں اور انسانیت لہولہان ہو رہی ہے ۔ یہ صورتِ حال ہمیں باور کراتی ہے کہ عالمی امن کسی ایک ملک یا قوم کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے ۔ ایک خطے میں عدم استحکام دوسری جگہ کے امن کو بھی متاثر کرتا ہے ، اس لیے امن کو برقرار رکھنا عالمی ذمہ داری بھی ہے اور اخلاقی فریضہ بھی۔ ہم آہنگی دراصل وہ پل ہے جو مختلف طبقات، مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کو جوڑتا ہے ۔ ایک ہم آہنگ معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں لوگوں کے درمیان رواداری، محبت، تعاون اور باہمی احترام کی فضا قائم ہو۔ اس کے برعکس جہاں تعصب، نفرت، تقسیم اور شدت پسندی ہو، وہاں زندگی مشکل، تہذیب کمزور، اور معاشرہ کھوکھلا ہو جاتا ہے ۔ آج کی دنیا میں عالمی سطح کی ہجرت، معاشی تعلقات اور سوشل میڈیا نے مختلف اقوام کو ایک دوسرے سے پہلے سے کہیں زیادہ قریب کر دیا ہے ۔ ایسے میں ایک دوسرے کے عقائد، رسوم اور روایات کا احترام نہایت ضروری ہو گیا ہے ۔ ہم آہنگی نہ صرف اختلافات کو کم کرتی ہے ، بلکہ معاشرے کے اندر مثبت توانائی، اجتماعی بھلائی اور سماجی متوازن
پن پیدا کرتی ہے ۔
اسلام، جو امن اور سلامتی کا دین ہے ، برداشت، رواداری اور ہم آہنگی کے اصولوں پر مبنی ہے ۔ قرآنِ کریم میں ”لَا ِکْرَاہَ فِی الدِّینِ” کا واضح اعلان موجود ہے ، جو آزادیٔ رائے ، احترامِ انسانیت اور
برداشت کی اعلیٰ ترین علامت ہے ۔ نبی اکرم ۖ کی پوری سیرت بین المذاہب ہم آہنگی، اخلاق، معافی اور صبر سے عبارت ہے ۔ میثاقِ مدینہ ہو یا فتحِ مکہ، ہر موقع پر آپ ۖ نے امن، انصاف، احترامِ
انسانیت اور رواداری کو بنیاد بنایا۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جو آج بھی دنیا کو شدت پسندی، نفرت اور انتشار سے بچا سکتی ہیں۔ اگر انسانیت نبی ۖ کے اخلاقی اصولوں کو سمجھ لے تو دنیا میں بہت سے تنازعات خود بخود ختم ہو جائیں۔عہدِ حاضر میں برداشت، امن اور ہم آہنگی کی ضرورت کا ایک اہم سبب سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا کا بڑھتا ہوا اثر بھی ہے ۔ معلومات کی تیز ترین گردش نے معاشروں میں شعور تو بڑھایا ہے مگر
ساتھ ہی جھوٹ، افواہوں اور نفرت انگیز مواد نے لوگوں کو جذباتی اور ردِ عمل پر آمادہ کر دیا ہے ۔ایک غلط خبر چند منٹوں میں فساد برپا کر سکتی ہے ۔ ایسے ماحول میں ضروری ہے کہ ہر فرد تحمل، تدبر اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے ۔ آن لائن گفتگو میں بدزبانی، طنز، تضحیک اور تذلیل سے بچا جائے ، اور ایسی زبان استعمال کی جائے جو اصلاح کا ذریعہ بنے ۔ ڈیجیٹل اخلاقیات کا فروغ ہی نئے دور میں برداشت اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ مزید یہ کہ معاشی مشکلات، بے روزگاری، مہنگائی اور سماجی دباؤ بھی لوگوں میں غصہ، عدم برداشت اور بداعتمادی کو بڑھا رہے ہیں۔ ایک شخص جب مسلسل مسائل کا شکار ہوتا ہے تو وہ چھوٹی بات پر مشتعل ہو جاتا ہے ۔ اس لیے معاشی استحکام، انصاف کی فراہمی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع بڑھانا بھی امن اور برداشت کے ماحول کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ ایک مضبوط اور منصفانہ نظام خود بخود لوگوں کے رویوں میں نرمی اور سکون پیدا کرتا ہے ۔ اختتامی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آج کی دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت برداشت، امن اور ہم آہنگی کی ہے ۔ یہ وہ اقدار ہیں جو معاشروں کو بکھرنے سے بچاتی ہیں، انسانوں کو جوڑتی ہیں، اور تہذیبوں کو ترقی کا راستہ دکھاتی ہیں۔ اگر ہم ان اصولوں کو اپنائیں، اختلافات کو دشمنی نہ بننے دیں، مختلف آرا کا احترام کریں، بین المذاہب و بین الثقافتی مکالمے کو فروغ دیں، اور انسانیت کو مقدم رکھیں تو دنیا نہ صرف زیادہ پُرامن ہو سکتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے ۔ برداشت اور امن کا سفر فرد سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے تک پھیلتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں خود پہلا قدم اٹھانا ہوگا۔
٭٭٭