... loading ...
حمیداللہ بھٹی
دنیا میںاِس وقت معاشی ،تجارتی کے ساتھ نئے دفاعی اتحادبن رہے ہیں ۔تباہ کُن ہتھیاروں کے ذخائر اور جدیدترین لڑاکا طیاروں کے باوجود ریاستیں قومی سلامتی کے حوالے سے فکرمندہیں امن پسندی کی دعویدارکچھ طاقتوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کااِتنا ذخیرہ ہے جس سے پوری دنیا کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس کے باوجودتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ایجاد پر کام ہورہا ہے ۔حالانکہ آواز کی رفتار سے تیزمیزائل اور لڑاکا جہاز بن چکے لیکن دفاعی فکرمند ی موجودہے۔ دولت کے لیے امریکہ جیسے ممالک کا ہتھیاروں کی برآمد بڑھانا امن کے لیے نقصان دہ ہے ۔
سرد جنگ کے بعدچار عشرے تک یہ خیال دنیاکے اذہان میں راسخ رہا کہ جتنے جوہری ہتھیار بنائے جا چکے وہ دفاع کے لیے کافی ہیں۔ اِس لیے ایک تو مزید ممالک کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے گا اور جو ممالک جوہری طاقت حاصل کر چکے ہیں وہ مزید تجربات نہیں کریں گے۔ اِس پر کچھ عرصہ عمل بھی ہوا۔ روس اور امریکہ کے درمیان اِس حوالے سے معاہدہ طے پانے پر یہ پیغام لیاگیاکہ بڑی طاقتیں امن کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور وہ دنیا میںجوہری ہتھیارمحدودکرنا چاہتی ہیں تاکہ دنیاکوجوہری ہتھیاروں کاڈھیر نہ بنایا جائے ۔یہ امن کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت تھی مگر یہ اطمینان اُس وقت غارت ہوگیا جب بھارت نے دوسری بار جوہری تجربات کرناشروع کر دیے ،اِن تجربات نے دنیا کو چونکادیا۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی طاقتیں بھارت کی سرزنش کرتیں لیکن عملی طورپر ایسا کچھ نہ ہوابلکہ بظاہر ناپسندیدگی کے باوجود یہ کہہ کرسفارتی حوصلہ افزائی کی گئی کہ بھارت جیسے بڑے ملک کواپنی ضروریات کے مطابق دفاعی تیاریوں کا حق حاصل ہے جس سے شہ پاکر بھارتی قیادت حملہ کرنے اورپاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے لگی۔ مزید حیران کُن پہلو یہ کہ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو جوابی جوہری تجربات سے منع کرنا شروع کر دیا۔ اگر بھارت کے جوہری تجربات پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیاجاتا اور معاشی وتجارتی پابندیاں لگادی جاتیں تو ممکن ہے پاکستان انتہائی اقدام سے گریز کرتا لیکن بھارت کے جارحانہ رویے نے جواب دینے پر مجبور کردیا۔
دنیا کے مسائل حل کرنے ہیں تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا ۔ہتھیاروں کی بجائے تعلیم اور صحت کے لیے وسائل وقف کرنا ہوں گے۔ معدنیات ہتھیانے کی سوچ ترک کرنا ہوگی ۔بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔ قدیم اور جدید دور کی سوچ میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ ماضی میں طاقتور ریاستیں کمزور ریاستوں کو تاراج کرتیں اور وسائل لوٹ لیتیں۔آج طاقتورممالک معاہدوں کے ذریعے غریب ممالک کی معدنیات ہڑپ کررہے ہیں ۔علاوہ ازیں کمزور ممالک کو دھمکا کر ہتھیار خریدنے پر مجبور کیا جانے لگا ہے۔ جس سے اسلحہ کی پیدوارمیں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اسلحے کی دوڑ تیز ہورہی ہے۔ اِس وقت امریکہ غیر ضروری تنازعات میں الجھنے سے اب معاشی طورپر روبہ زوال ہے اِس کی وجہ عراق،لیبیا،افغانستان اور ایران جیسے ممالک کونشانہ بنانے کے دوران معیشت کوثانوی درجہ دیناہے لیکن چین نے معیشت ودفاع پر یکساں توجہ دی۔ اسی بناپر آج طاقت میںامریکہ کا ہم پلہ نہیں تو کم بھی نہیں۔اب تو امریکہ اور چین میں دنیاسے معدنیات چھیننے کابھی مقابلہ جاری ہے۔ امریکہ نے چینی معاشی ترقی کاتوڑ اسلحہ بیچنے میں تلاش کرلیا ہے ۔سعودی عرب،بھارت ،اسرائیل ،عرب امارات،قطر اور ترکیہ کی شکل میں اُسے اچھے خریدار حاصل ہیں۔اِس کے باوجود چینی معیشت مات دینے کے قریب ہے۔ باربار کا شٹ ڈائون امریکی نظام کو کھوکھلا کررہا ہے۔ ابھی حال ہی میں 43 روزہ شٹ ڈائون کاخاتمہ ہوا ہے لیکن ایسے خطرات کا مستقبل میں بھی امکان موجود ہے جس امریکہ کے روشن مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے ۔
امریکی سربراہی میں قائم چار رُکنی بھارت،جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ کی فعالیت کم ہوچکی ہے مگرامریکہ بھارت سے دس سالہ دفاعی معاہدے کے تحت اسلحہ فروخت کرتا رہے گا۔ حال ہی میں سعودیہ کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیکر بھی اسلحے کا بڑا سودا کیا ہے۔ قطر اور عرب امارات سے بھی اسلحہ فراہمی کے اربوں ڈالر کے معاہدے کررکھے ہیں۔ لیکن یہ بھاری بھرکم معاہدے کیا اِ ن ممالک کی سلامتی کو یقینی نہیں بنا سکتے کیونکہ اب عددی برتری اور ہتھیاروں کے ذخائر کے ساتھ جنگیں جیتنا مشکل ہوگیاہے ۔جدید ہتھیاروں کے ساتھ مہارت اور بہتر جنگی حکمت عملی بھی ضروری ہے۔ وگرنہ وہی ہوناہے جو بھارت کے ساتھ مئی کی فضائی اور زمینی جھڑپوں میں ہوچکا۔اِس دوران بھارت کو ایسی ہزیمت کا سامنا کرناپڑا جس سے نہ صرف عالمی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عسکری مورال بھی متاثر ہواہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اسلحے کے بڑے خریدارتمام تر تیاریوں کے باوجود اسرائیلی رحم وکرم پر ہیں ۔دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد امریکہ نے قطر سے دفاعی معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دو نوں میں سے کسی ایک پر حملہ دونوں پر شمار ہو گاجبکہ چینی اسلحہ جسے امریکی ہتھیاروں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا تھا اُسے بہتر استعمال سے پاکستان آج دنیا کانہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ چینی ہتھیاروں کی مانگ میں اضافے کا باعث بناہے کیونکہ پاکستان نے مہارت اور بہتر جنگی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا ۔اب ہتھیاروں اور نفری سے جیت کے خواب دیکھنا ٹھیک نہیں تو دنیاکیوں اسلحے کی دوڑ چھوڑ کر تنازعات کے حل پر توجہ نہیں دیتی تاکہ جنگوں کی نوبت ہی نہ آئے مگر ایسا تبھی ممکن ہے جب عالمی طاقتیں ہتھیار بیچ کر دولت بٹورنے کے عمل سے کنارہ کش ہوں۔ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اب تو شمالی کوریا اور اسرائیل بھی اعلانیہ جوہری بم رکھنے کے دعویدار ہیں۔ یہ دنیا کے مزیدغیر محفوظ ہونے کی طرف اِشارہ ہوتا ہے ۔اسرائیل تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی پاسداری بھی نہیں کرتا جس کی وجہ امریکی تھپکی ہے۔ اس طرح کے ممالک کاجوہری طاقت رکھناامن کے لیے مُضرہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ تمام تر ترقی کے باوجود روایتی اورجوہری ہتھیاروں کی شکل میں دنیا بارود کا ڈھیربن چکی ہے تو بے جا نہ ہوگا جس کی ذمہ داری بڑی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ طاقتیں انصاف کا دُہرا معیار چھوڑ دیں اور ہتھیاروں کی دوڑ کی حوصلہ شکنی کریں تو اسلحے کی خرید پر ہونے والے اخراجات انسانی خوشحالی پر صرف ہوں۔ غریب ممالک اپنی معدنیات کو غربت اوربے روزگاری پر قابو پا نے کے لیے استعمال کریں تعلیم اور صحت کے مسائل پر قابو پائیں لیکن ایسے حالات میں جب دنیا کو امن کی ضرورت ہے ،عالمی طاقتوں نے طاقت کے بل بوتے پر معدینات ہتھیانے کے معاہدے کرنا شروع کردیے ہیں اور امریکی صدرٹرمپ نے جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کا اعلان کردیا ہے جس سے مزید ممالک ایسی روش پر چل سکتے ہیں۔ اِس طرح حقیقی مسائل توشاید حل نہ ہوں البتہ دنیا مزید غیر محفوظ ہوجائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔