... loading ...
محمد آصف
جدید دور میں جب دنیا ایک دوسرے سے پہلے سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے ، بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت بھی تیزی سے بدل رہی ہے ۔ سائبر ٹیکنالوجی کے فروغ نے ریاستوں کے درمیان طاقت
کے توازن، سفارتی حکمتِ عملی اور عالمی سطح پر فیصلہ سازی کے طریقوں کو نئی جہت عطا کی ہے ۔ اسی تیز رفتار ڈیجیٹل تبدیلی نے ”سائبر ڈپلومیسی” کو ایک ناگزیر حقیقت بنا دیا ہے ۔ آج ریاستیں نہ صرف سیاسی،
معاشی اور عسکری محاذوں پر سرگرم ہیں بلکہ ان کی خارجہ پالیسیوں میں سائبر اسپیس کا کردار بنیادی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ڈیٹا شیئرنگ، مصنوعی ذہانت، سائبر سیکیورٹی اور ورچوئل
مذاکرات کے ذریعے عالمی سیاست کے قواعد بدل رہے ہیں،اور سفارتی نیٹ ورک اب جغرافیائی حدود سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے ۔
سائبر ڈپلومیسی بنیادی طور پر ڈیجیٹل ذرائع کے استعمال سے سفارتی مقاصد کے حصول کا عمل ہے ۔ روایتی سفارت کاری میں جسمانی ملاقاتیں، سفارت خانوں کی موجودگی اور سرکاری خط و کتابت اہم سمجھی
جاتی تھیں، لیکن آج ورچوئل کانفرنسز، آن لائن مذاکرات، ای۔ڈپلومیسی پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا بیانیہ سازی کا اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔ عالمی لیڈرز اپنی پالیسیوں کی وضاحت اور دنیا سے براہِ راست رابطے
کے لیے ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ وزارتِ خارجہ کے اکثر اہم فیصلے بھی ڈیجیٹل مشاورت اور مربوط آن لائن نٹ ورکنگ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ اس تبدیلی نے
سفارت کاری کو تیز رفتار، زیادہ مربوط اور زیادہ شفاف بنا دیا ہے ۔تاہم اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سائبر اسپیس نے ریاستوں کے درمیان نئی مسابقت کو جنم دیا ہے ۔
ڈیجیٹل طاقت اب روایتی فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ خارجہ اثر و رسوخ کا بڑا ذریعہ بن گئی ہے ۔ کمپیوٹر نیٹ ورکس کے ذریعے معلومات تک رسائی، ڈیٹا کنٹرول، سائبر حملے اور سائبر دفاع کی حکمت عملی
اب قومی سلامتی کا بنیادی حصہ بن چکے ہیں۔ ریاستیں نہ صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ اپنے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، قومی ڈیٹا بیس، مالیاتی نظام اور مواصلاتی نیٹ ورکس کو بھی سیکیور کرنے پر سرمایہ
کاری کر رہی ہیں۔ ان نئے خطرات نے ”سائبر وار” کے تصور کو بھی جنم دیا ہے جہاں دشمن ملک کے اہم اداروں کو مفلوج کرنا، جھوٹی معلومات پھیلانا،انتخابی نظام کو متاثر کرنا یا معاشی نیٹ ورک میں خلل ڈالنا ایک نئی جنگی تکنیک بن چکا ہے ۔
سائبر ڈپلومیسی روایتی تعلقات میں ایک اور بڑی تبدیلی لاتی ہے ، وہ ہے ”بیانیے کی جنگ”۔ عالمیسیاست میں جنگ اب صرف زمینی سرحدوں پر نہیں بلکہ ڈیجیٹل میدان میں بھی لڑی جا رہی ہے ۔ دنیا
کے بڑے ممالک اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کو فعال طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں معلومات طاقت کا ذریعہ ہے ، اور جو ریاست عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب
ہوجاتی ہے وہ سیاسی فوائد بھی حاصل کرتی ہے ۔ اس طرح عوامی سفارت کاری(Public Diplomacy) کو ڈیجیٹل سفارت کاری میں ضم کر دیا گیا ہے ۔ چھوٹے ممالک بھی موثر سوشل میڈیا مہمات کے
ذریعے اپنا موقف عالمی پلیٹ فارم پر بلند کر سکتے ہیں، جو روایتی نظام میں ممکن نہ تھا۔مزید یہ کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے بین الاقوامی تعاون کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ صحت، تعلیم، ماحول، سائنس،
موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق جیسے شعبوں میں ورچوئل اشتراک کے ذریعے عالمی سطح پر پالیسی سازی آسان ہو گئی ہے ۔ کوویڈ۔19 وبا کے دوران دنیا نے دیکھا کہ کیسے اقوامِ متحدہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
اور دیگر عالمی ادارے ڈیجیٹل سفارت کاری کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہے ۔ عالمی سربراہی کانفرنسیں، تجارتی معاہدے اور دوطرفہ مذاکرات ورچوئل پلیٹ فارمز پر منتقل ہوگئے ، جس نے وقت اور وسائل
دونوں کی بچت کی۔لیکن اس تیز رفتار ڈیجیٹل انحصار نے کئی چیلنجز بھی پیدا کیے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ سائبر سیکیورٹی کا ہے ۔ دنیا بھر میں ریاستوں کو سائبر حملوں، ہیکنگ، سائبر دہشت گردی، ڈیٹا لیک، فیک
نیوز اور پروپیگنڈا کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے ۔ ان خطرات نے سفارتی ماحول کو انتہائی حساس بنا دیا ہے ، کیونکہ ہر ڈیجیٹل قدم عالمی سیاست کو متاثر کر سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل عدم مساوات (Digital Divide) بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک جہاں جدید ٹیکنالوجی تک بھرپور رسائی رکھتے ہیں، وہ سائبر ڈپلومیسی میں زیادہ طاقتور ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک، خصوصاً جنوبی ایشیا اور
افریقہ کے ممالک، اس دوڑ میں پیچھے رہ رہے ہیں۔ اس فرق نے عالمی طاقت کے توازن کو مزید غیر مساوی بنا دیا ہے ۔
ایک اور نازک چیلنج ”ڈیٹا کی خود مختاری” ہے ۔ آج دنیا میں ڈیٹا کو نئی کرنسی کہا جاتا ہے ۔ ممالک اس بات کے خواہاں ہیں کہ ان کے شہریوں کا ڈیٹا ملک کے اندر محفوظ اور ریاست کی اپنی پالیسی کے
مطابق استعمال ہو۔ لیکن بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جس طرح عالمی سطح پر ڈیٹا اکٹھا کرتی اور استعمال کرتی ہیں، اس نے ریاستوں کے لیے نئی پالیسی کشمکش پیدا کر دی ہے ۔ سائبر ڈپلومیسی اسی پس منظر میں ایک ایسا
پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے جہاں ممالک ڈیٹا پالیسی، سائبر قوانین اور آن لائن حقوق کے حوالے سے باہمی اتفاق رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مصنوعی ذہانت (AI) بھی بین الاقوامی تعلقات کی
فطرت بدل رہی ہے ۔ عالمی طاقتیں نہ صرف AI کی دوڑ میں مصروف ہیں بلکہ اس کے اخلاقی، قانونی اور سیکیورٹی مضمرات پر بھی بحث جاری ہے ۔ مستقبل میں AI سفارت کاری، جنگی حکمت عملی، خارجہ
پالیسی اور ڈیجیٹل نگرانی کے شعبوں میں اہم کردار ادا کرے گی۔ سائبر ڈپلومیسی ان تبدیلیوں کا ایک ایسا ذریعہ بن چکی ہے جس کے بغیر جدید خارجہ پالیسی کا تصور بھی نامکمل ہے ۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے سائبر ڈپلومیسی نئی امید اور نئے امکانات رکھتی ہے ۔ ایک ایسے ملک کے لیے جسے داخلی سیاسی عدم استحکام، معاشی دباؤ اور روایتی سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے ، ڈیجیٹل سفارت
کاری عالمی سطح پر اپنی آواز بہتر انداز میں پہنچانے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ پاکستان سوشل میڈیا ڈپلومیسی، ڈیٹا پالیسی، ڈیجیٹل تعاون اور سائبر سیکیورٹی کے میدان میں بہتر حکمت عملی کے ذریعے نہ صرف
اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنا سکتا ہے بلکہ خطے میں ایک جدید اور فعال ریاست کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ آخر میں، یہ حقیقت اب واضح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کا مستقبل سائبر اسپیس سے گہرا
جڑا ہوا ہے ۔ روایتی سفارت کاری مکمل طور پر ختم نہیں ہو رہی، لیکن اس کی بنیادیں اور طریقۂ کار ضرور بدل رہے ہیں۔ دنیا اب ڈیجیٹل اثر و رسوخ کی سیاست کا میدان ہے جہاں معلومات، ٹیکنالوجی اور ڈیٹا
نئے ہتھیار اور نئے وسائل کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ سائبر ڈپلومیسی نے عالمی سیاست کو نہ صرف تیز رفتار، شفاف اور طاقت کے نئے اصولوں کے تابع بنایا ہے بلکہ اس نے نئی فکری جہات بھی کھولی ہیں۔ اس
بدلتی ہوئی فطرت کو سمجھنے اور اس کے مطابق پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے ، کیونکہ مستقبل کی کامیاب ریاست وہی ہو گی جو ڈیجیٹل دنیا کی سفارت کاری میں مہارت رکھتی ہو۔
٭٭٭