... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت کی فوج، جو کبھی پیشہ ورانہ اور میرٹ پر مبنی ادارہ سمجھی جاتی رہی ہے، سیاسی گروپ بندی اور ہندوتوا نظریات کے اثرات میں مسلسل اضافے کی وجہ سے تیزی سے ایک سیاسی اور نظریاتی آلے میں تبدیل ہو رہی ہے۔مودی کے دورحکومت میں فوجی قیادت کی جانب سے سیاسی وابستگیوں اور ہندو توا نظریات کو فروغ دینے کے رجحانات نے فوج کی پیشہ ورانہ روایتی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔حالیہ شواہد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارتی فوج کے افسران کی سیاسی قیادت کے ساتھ ذاتی تعلقات مضبوط ہو گئے ہیں۔ فوجی افسران اکثر حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ قریبی روابط رکھتے ہیں اورسالانہ سرکاری تقریبات، سالگرہ اور دیگر اہم مواقع پر مہنگے تحائف پیش کرکے اپنی پسندیدگی جتاتے ہیں۔ اس رویہ سے ایک سرپرستی کی ثقافت کو فروغ مل رہا ہے، جس کے تحت فوج کی موجودہ قیادت میں ہندو توا کے نظریات کو سرگرمی سے پھیلایا جا رہا ہے۔اس رحجان کی وجہ سے فوجی مقاصداور قومی سلامتی پر سیاسی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت میں حالیہ تبدیلیاں اس بات کی عکاس ہیں کہ فوج میں سیاسی مداخلت کس حد تک بڑھ چکی ہے۔جنرل منوج پانڈے کی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر تعیناتی اس سیاسی مداخلت کی سب سے واضح مثال ہے۔ یہ تقرری میرٹ یا پیشہ ورانہ قابلیت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ بی جے پی/آر ایس ایس کے نظریات سے وفاداری کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
مودی کے دورحکومت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے نظریاتی حامی کی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر تقرری اس بات کا واضح پیغام ہے کہ سیاسی وفاداری کو فوجی صلاحیتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ بھارتی فوج کے افسران ترقیاں، حساس تعیناتیاں اور مالی فوائد حاصل کر نے کیلئے سیاستدانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات برقرار رکھتے ہیں، جس سے ادارے کی سا لمیت اور پیشہ ورانہ اصول بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔اعلی فوجی تربیتی اداروں، بشمول ساینک اسکولز کے گریجویٹس کا اجارہ داری کانظام بھارتی فوج میں مضبوط نیٹ ورکس قائم کر چکا ہے۔ یہ گروہ ہم خیال افراد کو ترجیح اور سرپرستی اور نظریاتی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں جبکہ باصلاحیت اور مختلف رائے رکھنے والے افسران کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ میرٹ اور پیشہ ورانہ اصولوں کو منظم طریقے سے نظراندازکئے جانے نے بھارتی فوج کے افسران میں مایوسی اور بے چینی پیدا اور بھارت کی فوج کی عملی استعداد کارکو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان کا شکایتی بیان، بھارتی دفاعی صنعت پر شدید عدم اعتماد کا اظہار ہے۔مودی کا ”میک اِن انڈیا” دفاعی خواب بری طرح زمین بوس ہوگیا جبکہ بھارتی فوج وقت پر اسلحہ نہ ملنے کی کھلے عام شکایات کرنے لگی۔بھارتی دفاعی صنعت کی سرد مہری نے سی ڈی ایس کو میڈیا پر آ کر قوم پرستی کی دہائی دینے پر مجبور کر دیا۔سی ڈی ایس انیل چوہان کا کہنا تھا کہ ہم آپ کی منافع کمانے والی کاوشوں میں کچھ قومیت اور حب الوطنی کی توقع رکھتے ہیں۔ دفاعی اصلاحات یک طرفہ عمل نہیں، صنعت کو اپنی صلاحیت کے بارے میں سچ بولنا ہوگا۔ آپ معاہدہ کر کے اور وقت پر ڈیلیور نہ کریں، یہ ہماری صنعتی صلاحیت کا نقصان ہے۔ آپ کو اپنی مقامی صلاحیت کے بارے میں سچ بولنا ہوگا، اس کا تعلق قومی سلامتی سے ہے۔ بہت سی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ان کے مصنوعات 70 فیصد مقامی ہیں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔کرپٹ مودی کے دور اقتدار میں بھارتی دفاعی کمپنیاں اربوں کے حکومتی فنڈز لینے کے باوجود جدید ہتھیار وقت پر دینے میں ناکام ہیں۔ بھارتی سی ڈی ایس کی تنقید خود بھارتی فوج کی داخلی بدانتظامی اور ناقص پلاننگ کی گواہی دے رہی ہے۔ بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی مایوسی نے خطے میں ناکام ملٹری ماڈرنائزیشن اور اندرونی کھوکھلے پن کا پردہ چاک کر دیا۔بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ روسی فوج میں بھارتیوں کی تعداد تیزی سے بڑھ کر 44ہوگئی ہے جو ستمبر میں 27تھی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے تصدیق کی کہ حال ہی میں روسی فوجی یونٹس نے متعدد بھارتی شہریوں کو بھرتی کیا ہے۔ انہوں نے ماسکو پر زور دیا کہ وہ بھارتی شہریوں کی بھرتی کو ختم کرتے ہوئے انہیں جلد از جلدفارغ کرے۔جیسوال نے روسی فوج میں شامل نہ ہونے کے حکومت کے مشورے کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ اس طرح کی بھرتی زندگی کے لئے خطرناک ہے۔ بھارتی حکام روس اور بھرتی ہونے والے افراد کے اہلخانہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں تاکہ بھارتی شہریوں کو گمراہ ہونے سے روکا جا سکے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق رواںسال کے شروع میں روس کے ذریعے بھرتی کیے گئے 127بھارتیوں میں سے 97کو فارغ کر دیا گیا ، 12کی ہلاکت کی رپورٹ ہے اور باقی لاپتہ ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی اور اسرائیلی فوجوں میں بھارتیوںکی بڑھتی ہوئی تعداد بھارت میں بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتی ہے جہاں بے روزگاری، غربت اور بھوک کے باعث بہت سے لوگوں کے پاس اورکوئی راستہ نہیںہے۔ کچھ نوجوانوں کو روسی اور اسرائیلی افواج میں کرائے کے سپاہیوں کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو خطرات کے باوجود روزی روٹی اور بقا کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان بھارت میں معاشی مایوسی اور بیرون ملک اس کے شہریوں کے استحصال کے خطرے کی عکاسی کرتا ہے۔