... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی دھماکہ ایک اندوہناک سانحہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک حادثہ یہ ہے کہ دارالخلافہ میں موجود رہنے کے باوجود وزیر اعظم ہلاک شدگان کے پسماندگان کی تعزیت یا زخمیوں کی مزاج پرسی کے لیے نہیں گئے ۔ موصوف بے حسی کی انتہا ئی مظاہرہ کرتے ہوئے بھوٹان دورے پر نکل گئے ۔ وہ کوئی ایسا دورہ بھی نہیں ہے کہ اس میں عدم شرکت سے بڑا نقصان ہوجائے ، یعنی غیر معمولی بین الاقوامی کانفرنس جہاں دنیا کے بڑے بڑے رہنما شرکت کرنے والے ہوں تو وزیر اعظم کا جانا ناگزیر ہوجاتاہے ۔ وہاں پر جانے سے ملک کا بہت بڑا مفاد وابستہ ہوتا تو اس کے لیے جواز نکالا جاسکتا تھا۔ گزشتہ دنوں آسیان ممالک کی ایک ایسے ہی اہم اجلاس سے وزیر اعظم نے ٹرمپ کے خوف سے کنی کاٹ لی اور وزیر خارجہ کو بھیج کربذاتِ خود اپنے بِل میں دبک کر بیٹھ گئے ۔ ایسے میں مودی جی نے بھوٹان جانے کی جو وجہ بتائی وہ مضحکہ خیز اور شرمناک ہے ۔ انہوں نے ایکس پر اطلاع دی کہ وہ بھوٹانی مہاراجہ کی 70ویں سالگرہ کے تقریب شرکت کریں گے نیز پناتسانگچو -II ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا افتتاح بھی کریں گے ۔ اپنے سوگوار عوام کو روتا بلکتا چھوڑ کراگر حکمرانِ وقت کسی کی سالگرہ کا جشن منانے کے لیے نکل جائے تو اس پر عنایت علی خان کا یہ شعر صادق آتا ہے
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
وزیر اعظم کے مطابق یہ دورہ ہندوستان اور بھوٹان کے دو طرفہ تعلقات میں نئی تاریخ رقم کرے گا لیکن سچائی تو یہ ہے کہ اس نے مودی کا نام دنیا کے سفاک و بے حس ترین لوگوں کی فہرست میں درج کردیا ہے ۔ مودی جی فی الحال دو بڑی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں ۔ اول تو وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن انہیں نہ تو وہ کام آتا ہے اور نہ اس میں دلچسپی ہے ۔ اس کا ٹھیکہ انہوں نے پی ایم او سے منسلک اعلیٰ افسران کو دے رکھا ہے جو ان کی چاپلوسی کے ساتھ ملک کا انتظام و انصرام کرتے ہیں ۔ مودی جی نہ صرف پردھان منتری بلکہ بی جے پی کے پرچار منتری بھی ہیں ۔ اس پسندیدہ مشغلہ میں وہ بڑے ذوق و شوق سے منہمک رہتے ہیں۔ قومی انتخاب کے علاوہ ریاستی الیکشن میں بھی وہ لنگوٹ کس کے کود جاتے ہیں ۔ اس عمر میں اگر کوئی دن رات روڈ شو اور خطابات عام کرنے لگے تو تھک جاتا ہے ۔ اس لیے یہ ان کا معمول ہے ہر بڑے الیکشن کے بعد وہ سرکاری خرچ پر آرام کرنے کی خاطر غیر ملکی دورے پر نکل جاتے ہیں ۔ بہار کی انتخابی مہم کے دوران انہیں دو مرتبہ بیرونِ ملک چھٹی منانی تھی یعنی ایک بار ملیشیا کے شہر کوالالمپور جانا تھا اور پھر بھوٹان میں ہمالیہ کی تازہ ہوا کھانی تھی۔
مودی جی کے ساتھ ٹریجڈی ہوئی کہ ٹرمپ نے ملیشیا آنے کا اعلان کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور مرتا کیا نہ کرتا مصداق جئے شنکر کو روانہ کرکے جان چھڑانا پڑا ۔ بھوٹان دورے سے قبل دہلی میں دھماکہ ہوا مگریہ دوسرا موقع انہوں نے نہیں گنوایا ۔ وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ اس دل دہلا دینے والے واقعہ کے بعد حالات پر نظر رکھنے کی خاطر حزب اختلاف سمیت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر گہرائی سے دھماکے کے تمام پہلووں کا جائزہ لیتے ۔ یہ اس لیے لازمی تھا کہ پہلے فرید آباد کے ایک ڈاکٹر عمر کے گھر پر 320کلو آر ڈی ایکس ملا۔ دہلی متصل ہریانہ کے اس شہر میں بھی ڈبل انجن سرکار ہے ۔ آگے چل کرسرکاری وضاحت ہوئی کہ وہ آر ڈی ایکس نہیں امونیم نائیٹریٹ تھا لیکن حیرت کی بات ہے کہ جس گاڑی میں دھماکہ ہوا اسے وہی ڈاکٹر عمر چلا ر ہے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص کو پولیس کی حراست میں ہونا چاہیے تھا وہ گاڑی چلا کر دھماکہ کیسے کرسکتا ہے ؟ اور پولیس یہ بتانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ اس کا کیا ہوا؟ وہ خود مارا گیا یا نکل گیا ؟ بلکہ وہ سی این جی دھماکہ تو نہیں تھا اس کی تصدیق بھی نہیں ہوئی اس لیے یہ معاملہ بے شمار شکوک وشبہات میں گھرا ہوا ہے ۔مستقبل میں ایسا واقعہ نہ ہو اس کے لیے تہہ میں جاکر حقیقت کا پتہ لگانا اور حفظِ ماتقدم کی حکمتِ عملی بنانا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے۔ دارالخلافہ کے اندر اتنے بڑے سانحہ کی ذمہ داری طے کرکے متعلقہ افسران و وزراء کی کوتاہی پر سرزنش کرنا بھی لازمی ہے ۔ اس کارروائی کی زد میں چونکہ بڑ بولے وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال آتے ہیں اس لیے وزیر اعظم کے سوا کوئی انہیں باہر کا راستہ نہیں دکھا سکتا ۔ مودی جی کو شہر میں رہ کر یہ کرنا چاہیے تھا لیکن ا ن میں اس کی صلاحیت اور جرأت نہیں ہے ۔سوشیل میڈیا کے اندر فی الحال امیت شاہ کے خلاف زبردست غم و ہے ۔ منیش سنگھ نامی صارف نے ایکس پر ایک سوال کرکے سروے کروایا تو تادمِ تحریر 91 فیصد لوگوں نے ان کی نااہلی پر مہر لگائی اور 9 فیصد نے انہیں اہل قرار دیا۔اس جم غفیر میں بی جے پی رہنما ڈاکٹر سبرامنیم سوامی بھی شامل ہیں۔وطن عزیز میں فی الحال بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کا بول بالہ ہے ۔ امیت شاہ دفعہ 370کو ختم کرکے یانکسل نوازں کے خاتمے کا اعلان کرکے بغلیں بجاتے ہیں لیکن نہیں بتاتے کہ ان کی ناک کے نیچے یہ سب کیسے ہوگیا؟ ملک کا نظم و نسق چلانے کی اگر ان میں صلاحیت نہیں ہے توجھولا اٹھاکر چلتے بنیں اور اپنے بیٹے کے ساتھ کرکٹ کے جوئے سے نوٹ کمائیں۔ ایسے لوگوں کی بابت ارتضی نشاط نے کیا خوب کہا ہے
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے
کانگریس کی ترجمان سپریہ شری نیت اور انوپما آچاریہ نے دھماکے اور دھماکہ خیز مواد کے متعلق حکومت سے کئی سوال کیے جن کا کوئی جواب نہیں ملا۔ عوام اجیت ڈوبھال سے بھی نالاں ہے جنھوں نے حال میں کہہ دیا تھا کہ پچھلے گیارہ سالوں میں کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا جبکہ یہ فہرست بہت طویل ہے پلوامہ و پہلگام تو بہت مشہور ہیں ۔ ان کی بھی چھٹی ضروری ہے ۔ دھماکوں اور بی جے پی میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ 2013میں جب بی جے پی نے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا تو نتیش کمار این ڈی اے سے الگ ہوگئے ۔ اس کے چار ماہ بعد موصوف پٹنہ گئے تو گاندھی میدان میں دھماکہ کرکے یہ پیغام دیا گیا نتیش چونکہ تحفظ نہیں دے سکتے اس لیے ان کے مخالف کو کامیاب کیا جائے ۔ پٹنہ دھماکوں میں گرفتار مسلمان نوجوانوں میں سے چار ملزمین کو 2021 میں سزائے موت دی گئی جسے 2024 میں ہائی کورٹ نے عمر قید میں بدل دیا بعید نہیں کہ سپریم کورٹ باعزت بری کردے ۔
رافیل بدعنوانی انکشافات کے بعد جب مودی پر ‘چوکیدار چور ہے’ کا نعرہ چسپاں ہوگیا تو پلوامہ دھماکے میں بی ایس ایف کے جوانوں کی ہلاکت کے بہانے آپریشن بالا کوٹ کرکے ‘گھر میں گھس کر مارا’ کا نعرہ لگا کر انتخاب جیتاگیا۔ اس بار پلوامہ کے بعد آپریشن سیندور کے ذریعہ بہار جیتنے کا منصوبہ تھا جو فلاپ ہوگیا۔ اس کے بعد جب بی جے پی ایس آئی آر لے کر آئی تو ‘ووٹ چور گدی چھوڑ’ کے جال میں پھنس گئی اس لیے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے عین سے پہلے دہلی دھماکہ کی ضرورت پیش آئی لیکن گراونڈ زیرو پر کام کرنے والے بتاتے ہیں کہ عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔پہلے مرحلے سے زیادہ ووٹنگ کا تناسب اشارہ کررہا ہے کہ اب کی بار بدلے گی سرکار۔ دہلی کی عوام نے اسی سال عام آدمی پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرکے کمل کو کھلایا ہے اس لیے ان رائے دہندگان کے غم میں شریک ہونا احسانمندی کا تقاضا تھا مگر بڑے ارمانوں سے بنائی جانے والی سرکارکا ڈبل انجن اوور برج سے بھوٹان کی طرف نکل گیا اور نیچے غریب و مسکین عوام بے یارو مددگار چھوڑ دئیے گئے ۔
وزیر اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان اور بھوٹان کے درمیان گہرااعتماد، نیک خواہشات اور باہمی احترام پر مبنی ایک منفرد اور مثالی شراکت داری موجود ہے لیکن کیا یہی کیفیت مودی کی مرکزی یا ریکھا گپتا کی ریاستی سرکار اور عوام کے بیچ میں بھی ہے ؟وہ فرماتے ہیں مشترکہ روحانی ورثہ اور عوامی سطح پر قائم گرمجوش روابط اس خصوصی تعلق کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ دہلی کی عوام کے ساتھ اگر یہ روحانی گرمجوشی موجود ہوتی تو مودی بھوٹان کا دورہ منسوخ کردیتے ۔ بھوٹان میں وزیر اعظم چوتھے بادشاہ کی 70ویں سالگرہ کے موقع منائے جانے والے ”گلوبل پیس پریئر فیسٹیول” میں شریک ہوئے ۔اس تقریب میں عالمی امن اور خوشحالی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ ہندوستانی وزیرِ اعظم نے بھی بھوٹانی رہنماؤں کے ساتھ اس امن و دعا کے جشن میں شریک ہوئے لیکن اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو فی الحال دہلی کے اندر
ہے ۔ وزیر اعظم اگر وہاں سے راہِ فراراختیار کرکے بھوٹان میں یہ سب کریں گے تو دہلی کے لوگوں کو علامہ اقبال کا یہ ا شعار سنانا پڑے گا
ڈھُونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شُعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا!