... loading ...
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔
آج کل
پا کستان میں اس وقت 27ویں آئینی ترمیم کی برق رفتاری سے منظوری کا چرچا ہے ۔ابتدا میں اراکین پارلیمنٹ کی بھاری اکثریت اس سے لا علم تھی۔ مبصّرین کے مطابق ساری ترمیم کا مقصد کسی ایک یا دو مقتدر شخصیت کو مخصوص نوعیت کے اختیار ات اور تا حیات قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے جبکہ کراچی کی کا روباری شخصیت سینیٹر فیصل واوڈا (جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کے تر جمان ہیں )کا کہنا ہے کہ اب 28 ویں آئینی ترمیم بھی اس کے بعد آئے گی۔ بظا ہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی قسم کی کوئی آئینی ترمیم ہوگی۔ اپوزیشن کے خیال میں اس ترمیم سے جمہوریت صرف نمائش کے لیے باقی رہ گئی ہے، عملی طور پر جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
دنیا میں ترقی اورخوشحالی کاموثر طریقہ کارعوام کی امور مملکت میں شراکت اور انہیں معاشی سرگرمیوں کے لیے متحرک کرنے سے ہی ممکن ہے ۔یہ بات خلاف دانش ہے کہ پاکستان کے عوام کی خوشحالی موجودہ نوعیت کی آئینی ترامیم اور غیرنمائندہ پا رلیمنٹ کی حکمرانی کے ذریعے ممکن ہے ؟ حکمران ترقی اور خوشحالی کا دعویٰ کر تے ہیں لیکن حقائق کچھ اور ہیں ،فی الحال خوشحالی نظر نہیں آتی۔ گزشتہ دور کے حکمرانوں نے بھی خوشحالی کے دعوے کیے تھے جس پر عوامی شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہاتھا کہ
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
آج کے جدید دور میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے جائزے اور معاشی اور سماجی علوم کے ماہرین کی رائے کے مطابق کسی بھی ملک کو پسماندگی سے نکال کر ترقی یافتہ بنانے اور اس کے خزانے میں بڑے پیمانے میں اضافے کے لیے اگر عوام کو بااختیار بنایا جا ئے اور حقیقی جمہوری نظام کا راستہ اختیا کیا جائے تو کوئی بھی ملک خوشحالی کی راہ پرگامزن ہو سکتا ہے پاکستان میں بھی یہ ناممکن نہیں ہے۔ بالادست طبقے جدید تحقیق اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے تجربات کے مطابق رویہ اپنائیں اور ذاتی مفادات کے بجائے اجتمائی مفادات اور عوام کو بااختیار اورخوشحا ل بنانے کے عالمی معیار کی حکمت عملی کے مطابق خوشحال اور طاقتور پاکستان کی راہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ابتدائی طور پر پہلے مرحلے میں موجود تیز رفتار اخلاقی زوال اور بد عنوانی پر قابو پانے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں ۔عوام کی شراکت سے معاشی سرگرمیا ں تیز ہوں تو اس کے نتیجے میں پاکستان میں غربت کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگی۔ ہر شخص کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ اسی طرح عوام کی بھرپور مدد اور شراکت کے ذریعے دہشت گردی اور جرئم پر قابو پانے کی ایک مربوط اور موثرحکمت عملی بھی ناقابل یقین نہیں ہے، نہ ہی یہ محض کتابی بات ہے بلکہ تحقیق کے مطابق اس پر عملدرآمد ممکن ہے۔ اسے حقیقت میں عملی شکل دی جاسکتی ہے موجودہ دور میں انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع کی مدد سے جدید علوم پر ہر خاص عام کی دسترس اور ٹیکنالوجی کے عام ہونے کی وجہ سے آسانی سے اس ہدف کو حاصل کیا جا سکتاہے۔ اس وقت مایوسی کی ایسی کیفیت ہے کہ کسی سے اس بات کا ذکر بھی کیا جائے کہ پاکستان میں بھی دولت کی ریل پیل ہوسکتی ہے، ہر شخص مالامال ہوسکتا ہے تو وہ اسے سفید جھوٹ کہے گا، شاید اسے مذاق تصور کرکے قہقہ لگا ئے گا۔ حقیقت اور سچ یہ ہے کہ سنجیدگی سے اس بارے میں تحقیق سے جو حیران کن معلومات سامنے آئی ہیں،اس سے واضح ہوتا ہے۔ یقینا یہ سب کچھ ممکن ہے تحقیقاتی معلومات کے ذرائع میں امریکن ریسرچ جرنل آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنس،دنیا کی جمہوری ریاستوں کے قدیم ترین عالمی ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین، یونائیٹڈ نیشن آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم کنٹرول، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے علاوہ دیگر کئی ذرائع شامل ہیں ۔ ورلڈ جیواسٹریٹجک انسائٹ کے مطابق ”پاکستان کے لیے عدم استحکام اور دہشت گردی نئی بات نہیں ہے لیکن عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس میں مزید شدت آئی ہے۔ملک کے طاقتور ادارے کے سیاست میں عرصہ دراز سے عمل دخل کی وجہ سے جمہوریت کمزور ہوئی ہے ”۔
دوسری جانب ملک میں بدعنوانی اورمہنگائی کی وجہ سے پیداوری لاگت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو صنعت اور تجارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔پڑوسی ممالک سے کشیدگی ،بے روزگاری ،غربت،بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے دیگر مسائل پاکستان کے لیے چیلنج ہیں ۔انہی تلخ حقائق کی وجہ سے مایوسی بڑھ رہی ہے اور پاکستان کے خوشحال مستقبل کے بارے میںبہت بڑی بے یقینی کی کیفیت ہے۔ مقتدر ہ اور پاکستان کے بالادست طبقات کی آمادگی ہی وہ واحد شرط اور پہلاقدم ہے جو پاکستان کے تقریباً تمام مسائل کا حل ہے۔ مقتدرہ اور پاکستان کے بالادست طبقات کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کسی بھی ملک میں عوام کو متحرک کرنے اور ان میں تیز رفتار معاشی سرگرمیوں کے لیے اعتماد پیدا کرنے کے لیے ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو انتہائی ایماندار ہو،عہدوں اور دولت کی لالچ میں مبتلا نہ ہو، آمریت کے نظام میںکوئی بھی ملک ایک بڑی جیل میں تبدیل ہوجا تا ہے، عوام کی جیب پر ڈاکے مارے جاتے ہیں، غربت کا خاتمہ اور خوشحالی کا سفر کرنے والے مملک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جوجس میںعوام کو گھٹن اور خوف محسوس نہ ہو، وہ آزادانہ طورپر اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور محنت کے ذریعے ملک کومالا مال کر نے میں کردار اد ا کرتے ہیں ۔ ان ممالک میں آزادانہ منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک با اختیا ر پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے۔ عدلیہ آزاد ہوتی ہے جو انتظامیہ کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کو روکنے میں معاونت کرتی ہے۔
عالمی تحقیقاتی رپورٹوںکی روشنی میں پاکستان میں بھی ایک ایسی مربوط حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے جس کے ذریعے جمہوری اداروں کو مستحکم اورطاقتور بنایا جائے، شفافیت اور احتسابی عمل کو پروان چڑھایا جائے،عوام کی شراکت اور انہیں بااختیار بنانے کے عمل کو تیز کیا جائے، آزادانہ اور موثر قانون کی حکمرانی قائم کی جائے،انصاف کا ایک ایسانظام ہوجہاں آزادادانہ تحقیقات ہوں اور بدعنوانی اور دیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دی جائے ،چاہے وہ بہت زیاد طاقتور ہی کیوں نہ ہوں۔یا اعلیٰ عہدوں پر فائض ہی کیوں نہ ہوں،حکومت کے منصوبوں کو عوام کے سامنے لانے کے کا عمل ضرری ہے۔ مختلف ترقیاتی اور دیگر منصوبوں کے لیے جن کمپنیوں اور اداروں سے کام لیا جائے ان کی تفصیلات تک میڈیا اور عوام کی رسائی ضروری ہے۔ ہر سرکاری ادارے میں بھرتی اورترقی کے لیے قابلیت پر سختی سے عملدرآمد یقینی ہونا بھی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ لوگو ں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ کسی جرم کی معلومات فراہم کرنے میں پہل کریں۔ شہریوں کو اس پر انعامات دیے جائیں۔ میڈیا آزاد ہو ۔سول سوسائٹی سرگرم ہو۔بین الاقوامی سطح پر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سرمایہ غیر قانونی طور پر باہر منتقل نہ ہو۔ کسی بھی ملک کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کرنے والی یہ تحقیقاتی رپورٹس تفصیل کے ساتھ انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔شرط یہ ہے کہ حکمران طبقہ نیک نیتی اور ذاتیات سے بالا تر ہوکر اس پر عمل کر ے۔ کچھ قربانی دے خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی مایوسی کو روکے ۔دیگر صورت میں اندھیروں میں بھٹک کر ہم تباہی سے کیسے بچیں گے؟
٭٭٭