... loading ...
محمد آصف
علامہ محمد اقبال برصغیر کی فکری و تہذیبی تاریخ کے وہ عظیم مفکر، شاعر، فلسفی اور مصلح تھے جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کی خوابیدہ روح کو
بیدار کیا بلکہ ایک ایسے سیاسی و فکری نظام کی بنیاد رکھی جو جدید دنیا کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہو اور اسلامی اصولوں سے متصادم بھی
نہ ہو۔ اقبال کا تصورِ سیاست دراصل تصورِ انسان اور تصورِ خدا سے وابستہ ہے ۔ وہ سیاست کو محض اقتدار یا حکومت کا کھیل نہیں سمجھتے بلکہ اسے
انسانی خودی کی تربیت اور اجتماعی فلاح کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست کا مقصد عدل، مساوات اور روحانی اقدار پر مبنی
ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جہاں انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے ۔
اقبال نے مغربی سیاسی نظاموں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ وہ جمہوریت، قومیت، سرمایہ داری، اشتراکیت اور سیکولرازم جیسے نظریات سے
بخوبی واقف تھے ۔ مگر ان کی فکر کا امتیاز یہ تھا کہ وہ ان تمام نظاموں کے مثبت پہلوؤں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی خامیوں کو اسلامی اصولوں
کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔ وہ مغربی جمہوریت کو ایک ”سکۂ زَر” سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی ایک ہی طرف تصویر ہے یعنی سرمایہ دار
طبقہ۔ اقبال کے نزدیک مغرب کی جمہوریت محض عددی اکثریت کا کھیل ہے جس میں اخلاقی اقدار اور روحانی اصولوں کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ
فرماتے ہیں:
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
یہ اشعار ان کے سیاسی شعور کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اصل جمہوریت وہ ہے جو روحِ انسانی کی آزادی، مساوات
اور عدل پر مبنی ہو، نہ کہ سرمایہ دارانہ مفادات اور طبقاتی تقسیم پر۔ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتے تھے جس میں روحانیت اور سیاست
ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ قرآن کی تعلیمات کے مطابق، سیاست عبادت کا تسلسل ہے اس کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ خدمتِ خلق ہے ۔
اقبال نے مغرب کی قومیت (Nationalism) کے نظریے پر بھی تنقید کی۔ وہ اسے انسانی وحدت کے خلاف ایک مصنوعی تقسیم
سمجھتے تھے ۔ ان کے نزدیک قومیت کی بنیاد نسل، زبان یا جغرافیہ نہیں بلکہ عقیدہ ہونا چاہیے ۔ اقبال فرماتے ہیں:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہاں اقبال قومیت کو ایک بت سے تشبیہ دیتے ہیں جو امتِ مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتا ہے ۔ وہ مسلمانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ان
کی اصل شناخت امتِ واحدہ کی ہے ، نہ کہ کسی جغرافیائی حدود کی۔ ان کے نزدیک جدید سیاسی نظاموں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہوں
نے مذہب کو نجی زندگی تک محدود کر دیا ہے ، جبکہ اسلام میں دین اور سیاست، اخلاق اور قانون، روحانیت اور مادیت سب ایک ہی نظام کے
اجزاء ہیں۔ اقبال نے ”اسلامی ریاست” کے نظریے کو جدید سیاسی تناظر میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا۔ ان کے مطابق اسلامی
ریاست ایک اخلاقی ریاست ہے جو عدل، مساوات، آزادی اور بھائی چارے کے اصولوں پر قائم ہوتی ہے ۔ ایسی ریاست میں حاکمیت
اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے اور انسان خلیفة اللہ کی حیثیت سے اس امانت کو استعمال کرتا ہے ۔ اقبال کے نزدیک ”حاکمیتِ الٰہیہ” کا مطلب یہ
نہیں کہ حکومت مذہبی طبقے کے ہاتھ میں ہو، بلکہ یہ ایک روحانی اصول ہے جس کے تحت قانون سازی قرآن و سنت کی روشنی میں عوامی
مشاورت سے کی جاتی ہے ۔ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف Reconstruction of Religious Thought in Islam میں
اقبال نے اجتہاد کو اسلامی ریاست کی فکری بنیاد قرار دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زمانے کے تغیر کے ساتھ ساتھ قانون کی تعبیر بھی بدلتی رہنی چاہیے
تاکہ اسلام ہمیشہ زندہ اور متحرک مذہب رہے ۔ ان کے نزدیک پارلیمنٹ یا مجلسِ شوریٰ کو اجتہاد کا ادارہ ہونا چاہیے ، جو جدید مسائل کے حل
کے لیے اجتماعی دانش سے استفادہ کرے ۔ یہ تصور نہ صرف اسلامی سیاست کو جمود سے بچاتا ہے بلکہ اسے جدید جمہوری اقدار کے قریب بھی
لے آتا ہے ۔
اقبال کے نزدیک جدید سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے تین بنیادی اصول ضروری ہیں: (1) روحانیت کا احیائ، (2) خودی کی
تربیت، اور (3) اجتماعی عدل۔ وہ سیاست میں اخلاقی اقدار کے بغیر کسی نظام کو پائیدار نہیں سمجھتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے
سائنس اور معیشت میں ترقی کی، مگر روحانیت کو نظرانداز کر کے انسان کو مشین بنا دیا۔ اس کے برعکس اسلام انسان کو ایک اخلاقی ہستی کے طور
پر دیکھتا ہے ، جس کی ترقی صرف مادی نہیں بلکہ روحانی بھی ہونی چاہیے ۔
اقبال کی سیاسی فکر میں ”خودی” مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کے نزدیک خودی کا مطلب انا یا غرور نہیں بلکہ اپنی روحانی حقیقت کو
پہچاننا ہے ۔ جب فرد اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے تو وہ غلامی، ظلم اور جبر کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ یہی آزاد انسان حقیقی جمہوریت اور صالح
قیادت کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یہ اشعار واضح کرتے ہیں کہ اقبال اجتماعی اصلاح کا آغاز فرد کی اصلاح سے کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر فرد خوددار، دیانتدار اور
بااخلاق ہو جائے تو سیاسی نظام خود بخود درست سمت اختیار کر لیتا ہے ۔ اقبال نے سرمایہ دارانہ نظام کی نابرابری اور اشتراکی نظام کی مادیت
پرستی دونوں کو رد کیا۔ وہ ایک ایسے متوازن نظام کے قائل تھے جس میں دولت کی گردش منصفانہ ہو اور انسان کی عزتِ نفس محفوظ رہے ۔ ان کا
تصورِ معیشت بھی ان کے سیاسی نظریے سے جدا نہیں وہ اسے عدلِ اجتماعی کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک جدید ریاستوں کا المیہ
یہ ہے کہ انہوں نے انسان کو معاشی مشین بنا دیا ہے ، جبکہ اسلام انسان کو خلیفةاللہ کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔
پاکستان کے قیام کی فکری بنیاد بھی دراصل اقبال کے اسی تصورِ سیاست پر قائم تھی۔ ان کے خطبۂ الٰہ آباد (1930ئ) میں انہوں نے
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ سیاسی وحدت کی تجویز دی، جو نہ صرف ان کی مذہبی شناخت بلکہ ان کے سماجی و اقتصادی حقوق کی
ضمانت ہو۔ اس نظریے نے آگے چل کر دو قومی نظریہ اور قیامِ پاکستان کی صورت اختیار کی۔ یوں اقبال کو جدید اسلامی ریاست کے
معماروں میں اولین مقام حاصل ہے ۔ جدید سیاسی نظام میں جہاں طاقت، معیشت، اور مفادات غالب ہیں، اقبال کی فکر انسانیت،
اخلاق، اور روحانیت کا پیغام دیتی ہے ۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سیاست اگر اخلاق سے خالی ہو جائے تو وہ ظلم بن جاتی ہے ۔ ان کے
نزدیک سیاست کا مقصد خدمت، عدل، اور فلاحِ انسانیت ہے ۔ اگر جدید ریاستیں اقبال کے ان اصولوں کو اپنائیں تو دنیا ایک عادلانہ اور
پرامن نظام کی طرف بڑھ سکتی ہے ۔
اقبال کی سیاسی فکر دراصل ”روحانیت اور حقیقت ”کا امتزاج ہے ۔ انہوں نے جدید سیاسی تصورات کو چیلنج کیا مگر انہیں رد نہیں کیا بلکہ
ان میں اسلامی روح پھونک کر ایک نیا نظامِ فکر پیش کیا۔ اقبال آج بھی ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ خدمت
ہے ، اور انسان کی آزادی تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی خودی کو پہچان کر عدل و اخلاق پر مبنی معاشرہ قائم کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔