... loading ...
افتخار گیلانی
جب ظہران ممدانی نے نیویارک کے نئے میئر کے بطور الیکشن میں جیت درج کی، تو مجھے دہلی کی ایک پرانی، پسینے سے بھری دوپہر یاد آئی۔ صحافت کے ابتدائی دن تھے ۔ میں نے ان دنوں ایک فیچر ایجنسی فیچر اینڈ نیوز الائینس یعنی فانا میں کام کرنا شروع کیا تھا کہ ایڈیٹر ایم اے سراج نے دہلی کے انٹر اسٹیٹ بس ٹرمینل کے بغل میں بے گھر بچوں کی طرف سے قائم کردہ ایک ڈھابہ پر فیچر لکھنے کی ہدایت دی۔ ہوا میں حبس تھا، زمین پر گرد، اور ایک نوجوان رپورٹرکام کے لیے روانہ ہوگیا۔معلوم ہوا کہ اس ریستوراں کے منتظم، باورچی اور بیرے سبھی بے گھر بچے تھے ، جو یاتو اس سے قبل بھیک مانگ کر یا چھوٹے موٹے جرائم کرکے گزارہ کرتے تھے ۔ان سے بات کرکے معلوم ہوا کہ یہ ڈھابہ سلام بالک ٹرسٹ کی دین ہے ، جس کی روح رواں معروف فلمساز میرا نائر تھی۔ 1988میں ان کی شہرہ آفاق فلم سلام بامبے ریلیز ہوئی تھی، جس کی کہانی بمبئی کی سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بے گھربچوں کے ارد گرد گھومتی ہے ۔
خاص بات یہ تھی کہ اس میں اداکاروں کے بجائے حقیقی بے گھربچوں نے کام کیا تھا۔ اس دن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں جس چھوٹے سے ڈھابے پر پہنچا ہوں، وہاں کی کہانی ایک دن نیویارک کے سٹی ہال تک جا پہنچے گی۔فلم نے ممبئی کے بے گھر بچوں کی دنیا کو جس بے باکی اور سچائی سے دکھایا، اُس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ فلم کو آسکر کی نامزدگی ملی۔ لیکن میرا نائرکے نزدیک کہانی فلم کے آخری منظر پر ختم نہیں ہوئی تھی۔وہ چاہتی تھیں کہ اُن بچوں کی زندگی فلم کے پردے سے نکل کر حقیقت کا روپ دھارے ۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے اپنی والدہ ڈاکٹر پروین نائر کے ساتھ 1989میں سلام بالک ٹرسٹ قائم کیا۔ ایک ایسی پناہ گاہ جہاں ان بے گھر بچوں کو نہ صرف چھت ملی، بلکہ تعلیم، تربیت، اور وقار بھی۔
میں جب اس ڈھابے کی رپورٹنگ کر رہا تھا، تو فضا میں امید کی خوشبو تھی۔ بچے ہنس رہے تھے ، سیکھ رہے تھے اور زندگی کی نئی تعریف لکھ رہے تھے ۔پاس کے فٹ پاتھ پر ایک خاتون نے اسکول کھولا ہوا تھا، جہاں سڑکوں پر پلنے والے چھوٹے بچے سلیٹ ہاتھوں میں لیے حروف تہجی سیکھ رہے تھے ۔منتظمین سے میرا نائر کا نمبر حاصل کرکے میں نے ایک بوتھ سے ان کو فون کیا، تو انہوں نے خود ہی کال اٹھائی اور مجھے اگلے روز جنوبی دہلی کے وسنت وہار علاقہ میں واقع ان کی رہائش گاہ آنے کے لیے کہا۔ان سے ملنے سے ایک روز قبل میں نے دریاگنج میں گولچہ سینما پہنچ کر سلام بامبے فلم دیکھی۔ اتنی بڑی فلم پروڈیوسر ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر ان کا کوئی سکریٹری نہ منیجر تھا۔فون بھی خود اٹھایا، وقت بھی خود طے کیا، اور گھر کادروازہ بھی خود کھولا۔ وہ مشہور فلمساز کے بجائے ایک عام، سادہ، لیکن بیحد باوقار عورت کے طور پر سامنے آئیں۔ان کی باتوں سے لگا کہ ان کے لیے سینما محض فن نہیں، ایک ذمہ داری ہے ۔ وہ کہہ رہی تھیں،اگر ہم نے کہانی دکھا دی، تو اس میں ابھارے گئے ایشوزکو بھی ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ بھی ہم کو ہی کرنا ہے ۔ اس صورتحا ل کو اب ہم کو ہی بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ الفاظ اُس وقت ایک مشن کا اعلان لگے ۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن اسی مشن کا بیج اُن کے بیٹے کی سیاست میں پھل دے گا۔
ایک دہائی کے بعد غالباً 2005یا 2006 میں مجھے ایک فون آیا۔ دوسری طرف معروف افریقی نژاد مفکر اور پروفیسر محمود ممدانی تھے ۔ اُن کی کتاب گڈ مسلم بیڈ مسلم اُس وقت عالمی سطح پر بحث کا محور تھی۔انہوں نے بتایا کہ وہ ہندوستان میں’مسلم نوجوانوں اور قانون’ پر تحقیق کر رہے ہیں اور میری کتاب مائی ڈیز ان پریژن کا انہوں نے مطالعہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔جب میں ملاقات کی جگہ پہنچا تو وہ وہی وسنت وہار کا بنگلہ تھا، جہاں ایک زمانے میں میری میرا نائر کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ اس دن معلوم ہوا کہ وہ میرا نائر کے شوہر ہیں۔میری جیل کی روداد، شناخت، نگرانی، حکومت کا دہشت گردی کے حوالے سے رویہ، ریاستی جبر وغیرہ پر جب بات ہو رہی تھی، تو اس دوران ایک نوعمر لڑکا کمرے میں آتا جاتا رہا۔ مؤدب، خاموش مگر تجسس سے بھرا ۔
محمود ممدا نی نے مسکراتے ہوئے کہا؛یہ میرا بیٹا ظہران ہے ۔وہ اُس وقت نیویارک کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ ہماری گفتگو جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، اُس لڑکے کے چہرے پر غور و فکر کے آثار نمایاں ہوتے گئے ۔میں نے سوچا، یہ محض ایک اسکول کا طالبعلم نہیں، بلکہ ایک ایسے گھر کا فرد ہے جہاں فن اور فکر روزمرہ کی بات چیت ہے ۔دو دہائیاں گزر گئیں۔ وہی لڑکا، جو ایک دن اپنے والد کی کتابوں کے بیچ بیٹھا ہماری باتیں سن رہا تھا، آج نیویارک سٹی ہال کی سیڑھیوں پر کھڑا ہے ۔ اُس کے چہرے پر وقار، لہجے میں یقین، اور آنکھوں میں انسانیت کا عکس معلوم ہوتا ہے ۔اس کی کامیابی محض ایک شخص کی جیت نہیں تھی، بلکہ ایک نظریے کا احیاء تھی،ایسا نظریہ جو ہمدردی کو سیاست کا مرکز مانتا ہے ۔
سلام بالک ٹرسٹ، جس پر میں نے برسوں پہلے رپورٹ کی تھی، آج ہندوستان کے کامیاب ترین فلاحی ماڈلز میں سے ایک ہے ۔ ایک کمرے سے شروع ہونے والا ادارہ اب دہلی میں 17مراکز اور دیگر شہروں میں شاخوں کے ساتھ ہزاروں بے گھر بچوں کو زندگی دے رہا ہے ۔اب تک ایک لاکھ سے زائد بچے اس کے ذریعے تعلیم، رہائش، مشاورت اور تربیت پا چکے ہیں۔ وہ ڈھابہ جس پر میں نے رپورٹ کی تھی نے ان بچوں کو ایک نئی زندگی اور بااختیار بنایا۔انہی میں ایک وِکی رائے بھی ہے ، جو گھر سے بھاگ کر آیا تھا۔ سلام بالک نے اُسے فوٹوگرافی سکھائی، تربیت دی، اور ایک دن وہ انہی چند فوٹوگرافروں میں شامل ہوا جنہیں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تعمیرنو کی تصویری دستاویز بنانے کا موقع ملا۔
کیمپالا، یوگنڈا میں 1991میں پیدا ہونے والا ظہران ممدانی، افریقہ اور امریکہ میں پروان چڑھا۔ اُس نے اپنے والد کی فکری گہرائی اور والدہ کی انسان دوستی دونوں جذب کیں۔سیاست میں آنے سے پہلے وہ نیویارک کے کوئنز علاقے میں ہاؤسنگ کونسلر کے طور پر کام کرتا تھا۔وہ اُن تارکین وطن کے گھروں میں جا کر بیٹھتا جنہیں بے دخلی کا سامنا تھا۔ ان کے لیے قرضے بندوبست کرنے کے لیے ، بینکوں سے بات کرتا، اور نظام کی بند دیواروں میں اُن کے لیے دروازہ تلاش کرتا تھا۔بعد میں ریاستی اسمبلی کا رکن بن کر اُس نے ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ بھوک ہڑتال کی، کرایہ داروں کے ساتھ احتجاج کیا، اور ہمیشہ اُن کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا جو نظام کے کنارے پر دھکیل دیے گئے تھے ۔
اُس کی سیاست نظریہ نہیں بلکہ تجربہ تھی ،وہ سیاست جو دفتر میں نہیں، گلیوں میں لکھی جاتی ہے۔لوگ اکثر ظہران ممدانی کا موازنہ سابق امریکی صدر براک اوباما سے کرتے ہیں،دونوں افریقی نژاد، دونوں کئی ثقافتوں کے سنگم پر ہیں۔مگر غور سے دیکھا جائے توان کے راستے مختلف ہیں۔اوباما اُس وقت سیاست میں آئے جب کامیابی کے لیے تسلی اور توازن ضروری تھا۔ اُنہوں نے اپنے درمیانی نام ‘حسین’کو چھپایا، کیونکہ وہ مسلم کے طور پر اپنے آپ کو شناخت نہیں کروانا چاہتے تھے ۔اُن کی سیاست رنگ اور مذہب سے اوپر اٹھنے کی علامت تھی، لیکن اُس میں شناخت کاعنصر کم تھا۔
ظہران ممدانی ایک نئے عہد کا نمائندہ ہے ،جو میل جول سے زیادہ سچائی پر اصرار کرتا ہے ۔و ہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو اس کی شناخت کے حوالے سے پہچانیںایک مسلمان، افریقی اور جنوبی ایشیائی نژاد۔ ان کا کہنا ہے ؛ہمیں اپنی شناخت چھپانی نہیں چاہیے ، بلکہ اُسے عزت دینی چاہیے ۔یہی ان کی سیاست کا بنیادی فرق ہے ۔
ظہران کی انتخابی مہم کا نعرہ سادہ مگر دل کو چھونے والا تھا؛کرایہ، راشن، بسیں، وقار!یہ الفاظ کسی فلسفے سے نہیں، بلکہ عام انسان کی روزمرہ جدوجہد سے پھوٹے تھے ۔وہ مساجد میں جاتا، اردو اور عربی میں بات کرتا، یہودی ربّیوں اور اماموں دونوں سے ملاقات کرتا۔اپنے آپ کو’ایک مسلم نیویارکر’کہتا ہے ، بغیر کسی جھجک کے ۔ اُس کے لیے مذہب سیاسی شناخت نہیں بلکہ انسانی پس منظر ہے ۔ان کی انتخابی مہم بالکل 2013میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کی طرز پر تھی۔ برونکس سے بروکلن تک نوے ہزار رضاکار دروازے کھٹکھٹا رہے تھے ، پرچے بانٹ رہے تھے ، ووٹروں کو باہر نکلنے کی ترغیب دے رہے تھے ۔ ان کی انتخابی مہم کے دوران کم از کم 62 ارب پتیوں یا اُن کے اہل خانہ نے تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اُن سیاسی گروپس کو دیے جو ممدانی کو ہرانا چاہتے تھے ۔نیویارک کا میئر بننا کسی معمولی شہر کی قیادت نہیں۔یہ امریکہ کے سب سے بڑے بجٹ اور سب سے متنوع آبادی والا شہر ہے ۔یہاں کی سیاست پورے ملک کے مزاج کی سمت طے کرتی ہے ۔مگر سوال ہے کہ کیا ممدانی نیویارک کو محنت کشوں کے لیے انصاف کا نمونہ بناپائے گا؟
میرا نائرکے سلام بامبے سے شروع ہونے والا خواب، محمود ممدانی کی فکری تحریروں اور ظہران کی سیاست میں ایک ہی روح بہہ رہی ہے انسانی وقار۔یہ کہانی بتاتی ہے کہ جب ہمدردی عمل میں ڈھل جائے تو جغرافیہ بے معنی ہو جاتا ہے ۔ایک دہلی کا صحافی جس نے برسوں پہلے سڑکوں پر پلنے والے بے گھر بچوں کی کہانی لکھی تھی، آج اُسی کہانی کا تسلسل نیویارک کے سٹی ہال میں دیکھ رہا ہے ۔ظہران نہ صرف اپنے والدین کا تسلسل ہے ، بلکہ اُس یقین کا مظہر بھی کہ وقار ہمیشہ طاقت سے آگے چلتا ہے ۔تاہم، ظہران ممدانی کی فتح جتنی امید جگاتی ہے ، اتنا ہی ایک سوال بھی جنم دیتی ہے ۔ کیا وہ اس خواب کو برقرار رکھ پائیں گے جس نے لاکھوں عام نیویارکرز کو اُن کے گرد جمع کیا؟
دہلی کی سیاست میں بھی کبھی ایک ایسی ہی تازگی دیکھنے کو ملی تھی۔ جب عام آدمی پارٹی نے کرپشن اور استحصال کے خلاف عوامی لہروں سے جنم لیا۔ اُس وقت بھی نعرہ ‘عوام کی حکومت’تھا، بجلی، پانی، اور کرایہ کے وعدے تھے ، اور لیڈر تھا ایک عام سا آدمی اروند کیجریوال۔مگر وقت کے ساتھ وہ تحریک بھی اقتدار کے بوجھ تلے دب گئی۔ نظریہ مصلحت میں بدل گیا، اور وعدوں کی جگہ حکومتی تنازعات نے لے لی۔
ظہران ممدانی کے سامنے بھی اب یہی امتحان ہے کہ آیا وہ اپنی تحریک کو نظام کی گرد میں کھوئے بغیر آگے بڑھا پائیں گے ؟کیا وہ سوشلزم کو عوامی خدمت کی سطح پر زندہ رکھ سکیں گے ، یا پھر دہلی کی طرح نیویارک بھی ایک دن یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ خواب تو سچا تھا، مگر نظام طاقتور نکلا۔
یہی وہ لمحہ ہے جو طے کرے گا کہ ظہران ممدانی کی سیاست ایک عارضی لہر تھی یا واقعی ایک نئی روایت کا آغاز۔