وجود

... loading ...

وجود

دلیپ کمارکا خستہ گھر

جمعه 14 نومبر 2025 دلیپ کمارکا خستہ گھر

میری بات/روہیل اکبر

بچپن کسی بھی انسان کا ہو وہ ناقابل فراموش ہوتا ہے، جوں جوں انسان زندگی کی منزلیں طے کرتااور بچپن سے دور ہوتا جاتا ہے تو اتنی ہی شدت سے بچپن یاد آتا ہے۔ گلی ،محلہ ،یار دوست اور شرارتیں کچھ بھی تو نہیں بدلتا ۔سب کچھ جوں کا توں ہی نظر آتا ہے جب کبھی انسان خیالوں میں اپنے لڑکپن کی طرف لوٹتا ہے۔ انسان بڑھاپے کو پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ وہ پھر سے بچہ بن جاتا ہے۔ شائد اسی لیے کہ وہ اکثر اپنے بچپن کو یاد کرتا رہتا ہے خاص کر اپنے بچوں کے بچوں کے ساتھ ہر وقت گزرے ہوئے اپنے بچپن کے قصے کہانیاں ضرور سناتا ہے اور یہ بچپن ہی ہوتا ہے جو انسان کو بڑھاپے میں بھی معصوم بچہ بنائے رکھتا ہے۔
بچپن ہر انسان کا یاد گار ہوتا ہے خاص کر ایسے انسان کا جو غربت کی لکیر سے اوپر آیا ہوا اور پھر دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان بنالے ۔ایسے شخص کا بچپن اسے ہمیشہ یاد رہتا ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج دنیا کی نامورشخصیات کا بچپن پاکستان میں گزرااور اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ان یادگار جگہوں کو محفوظ نہیں بنا سکے۔ چند دن قبل میرے ایک بھائیوں جیسے دوست نے فون کیا کہ ابھی ہم نے اسلام آباد نکلنا ہے اور رات کو واپسی ہو جائیگی اور پھر ٹھیک ایک گھنٹے بعد میں اور میرا دوست اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے۔ دوست کا نام اس لیے نہیں لکھوں گا کہ وہ آرٹ لور ہے اورتقریبا سبھی اسے جانتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں اگر کوئی فن و ثقافت سے گہری دوستی اور دلچسپی رکھتا ہے تووہ یہی شخص ہوگا لیکن بدقسمتی ہے کہ اسے جان بوجھ کر کھڈے لائن لگا رکھا ہے تاکہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے وژن کو پرموٹ نہ کرسکے ۔خیر یہ ہر ادارے میں ہورہا ہے اور ہوتا آیا ہے کہ کام کرنے والے کو ہمیشہ رگڑا ہی لگایا جاتا ہے۔ جبکہ نکمے ،نااہل ،کام چور اور میرٹ سے ہٹ کر ترقیاں پانے والوں کو نوازا جاتا ہے۔
ہم لوگ صبح تقریبا11بجے لاہور سے اسلام آباد کی طرف نکلے اور وقت پر وہاں پہنچ گئے جہاں جانا تھا فارغ ہوئے تو واپسی کی بجائے دوست نے پشاور کا پروگرام بنا لیا ۔وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ یوسف خان صاحب (دلیپ کمار ) کا گھر دیکھنا ہے جو میری سب سے بڑی حسرت اور تمنا ہے جو اپنے فن کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک الگ ہی پہچان بنا گیا ۔خیر ہم اسلام آباد سے پشاور کی طرف چل پڑے اور جب تک پشاور نہیں آیا اس وقت تک ہم دلیپ کمار صاحب کی ہی باتے کرتے رہے ۔میں حیران تھا کہ میرے دوست کو دلیپ کمار صاحب کی پچپن سے لیکردنیا سے رخصت ہونے تک کی پوری کہانی یاد تھی بلکہ دلیپ کمار صاحب نے اپنے مکان ،گلی اور محلے کے بارے میں جو جو لکھا اور کہا ہوا تھا وہ بھی اسے یاد تھا ۔اسلام آباد سے پشاور تک کا سفر دلیپ کمار صاحب کی باتوں میں ہی گزرا۔ موٹر وے سے اترتے ہی ہم نے قصہ خوانی بازار کا پوچھنا شروع کردیا کیونکہ دلیپ کمار صاحب کی رہائش اسی بازار کی ایک چھوٹی سی گلی میں تھی۔ پشاور کی قدیم گلیوں میں واقع قصہ خوانی بازار آج بھی صدیوں کی داستانیں اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ یہی وہ تاریخی مقام ہے جہاں کبھی ہر شام داستان گو اپنے لب و لہجے سے سننے والوں کو ماضی کے رنگوں میں لے جاتے تھے۔ انہی گلیوں میں ایک گھر ایسا بھی ہے جو کبھی روشنیوں، قہقہوں اور محبتوں سے جگمگاتا تھا۔ یہ گھر ہے برصغیر کے عظیم اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار کا وہ شخص جسے دنیا نے جذبات کی ترجمانی کا بادشاہ قرار دیا۔ دلیپ کمار کا تعلق صرف فلم انڈسٹری سے نہیں، بلکہ ایک پورے عہد سے تھا ۔انہوں نے اداکاری کو ایک نئی زبان دی ”مغلِ اعظم” کے شہزادہ سلیم سے لے کر ”دیدار” ”داغ” اور ”دیوداس” تک ہر کردار میں ان کی آنکھوں سے نکلنے والا درد دلوں میں اُتر جاتا تھا۔ دلیپ صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اداکاری نہیں کرتے تھے بلکہ وہ خود کردار بن جاتے تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک شائستگی ایک وقار اور ایک گہری تہذیبی جھلک تھی جو آج کے زمانے میں کم ہی نظر آتی ہے۔ لیکن افسوس جس شخص نے برصغیر کے کروڑوں دلوں میں محبت جگائی اس کا پشاور والا آبائی گھر آج زبوں حالی کا شکار ہے ۔کبھی لکڑی کے دروازوں سے مزین سرخ اینٹوں سے بنا وہ خوبصورت مکان اب ٹوٹ پھوٹ کا منظر پیش کرتا ہے۔ چھتیں گر چکی ہیں ۔دیواروں سے پلستر جھڑ رہا ہے اور وہ گلی جو کبھی دلیپ کمار کے بچپن کی ہنسیوں سے گونجتی تھی۔ اب مشینوں کی کھڑکھڑاہت سے کانپتی ہے۔ حکومت پاکستان نے کئی بار وعدے کیے کہ دلیپ کمار کے گھر کو قومی ورثہ قرار دے کر اسے بحال کیا جائے گا۔ مگر بدقسمتی سے یہ وعدے محض بیانات کی حد تک رہے جبکہ صوبائی حکومت نے بھی سوائے نیا تالا لگانے کے اور کچھ نہیں کیا ۔پشاور کے لوگ آج بھی فخر سے کہتے ہیں کہ ”یہ دلیپ کمار کا شہر ہے” مگر جب کوئی سیاح ان کے گھر کا رخ کرتا ہے تو منظر دل توڑ دیتا ہے ۔شاید ہماری اجتماعی بے حسی ہی ہے کہ ہم اپنی ثقافت اپنے ورثے اور اپنے ہیروز کی نشانیوں کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔دلیپ کمار نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں پاکستان کے لیے ہمیشہ محبت کا اظہار کیا ،وہ کہا کرتے تھے ”میرا بچپن پشاور کی گلیوں میں گزرا وہ مٹی آج بھی میری روح میں بسی ہوئی ہے۔ کاش ہم ان کے ان جذبات کی لاج رکھتے اور ان کے آبائی گھر کو ویسی ہی عزت دیتے ،جیسی ان کی شخصیت حقدار ہے۔ آج اگر ہم واقعی دلیپ کمار کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو یہ محض تعریفی تقریروں سے ممکن نہیں بلکہ ان کے گھر کو بحال کر کے اسے ثقافتی ورثے کے طور پر محفوظ کر کے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ فن، محبت اور تہذیب کبھی مرتے نہیں۔قصہ خوانی بازار میں وہ مکان آج بھی کھڑا ہے مگر وہ دلیپ کمار کی فلموں کی طرح جیتا جاگتا نہیں ۔وہ خاموش ہے جیسے اپنے مکین کی واپسی کا منتظر ہو۔


متعلقہ خبریں


مضامین
علامہ اقبال اور جدید سیاسی نظام وجود جمعه 14 نومبر 2025
علامہ اقبال اور جدید سیاسی نظام

ظہران ممدانی: دہلی کے بے گھر بچوں کے خواب سے نیویارک تک وجود جمعه 14 نومبر 2025
ظہران ممدانی: دہلی کے بے گھر بچوں کے خواب سے نیویارک تک

دنیا کشمیریوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام وجود جمعه 14 نومبر 2025
دنیا کشمیریوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام

دلیپ کمارکا خستہ گھر وجود جمعه 14 نومبر 2025
دلیپ کمارکا خستہ گھر

راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی وجود جمعرات 13 نومبر 2025
راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر