... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بہار کی انتخابی فضا ایک بار پھر لفظوں کے تیروں سے گونج رہی ہے ۔ اسمبلی انتخابات قریب آتے ہی بھارتی سیاست میں الزامات، جوابی حملے اور حب الوطنی کے نعروں نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے ۔ بی جے پی رہنما رمیش بدھوری کے حالیہ بیان نے اس فضا میں خاصا اشتعال پیدا کیا ہے ، جب انہوں نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کی آواز کی بازگشت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق راہول گاندھی کے بیانات نہ صرف ملک کے نوجوانوں کے مواقع چھین رہے ہیں بلکہ سیاسی مفاد کے لیے غیر ملکی بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب راہول گاندھی نے بہار انتخابات کو ہریانہ کی طرز پر منظم کرنے کی بات کی تھی، جو بظاہر انتخابی اصلاحات اور انتظامی عمل کی مثال تھی مگر اسے بی جے پی نے قوم پرستی کے زاویے سے پیش کر کے سیاسی فضا کو مزید تقسیم کر دیا۔
راہول گاندھی کے خلاف پاکستان کی زبان بولنے کے الزامات نیا موضوع نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے بی جے پی کی انتخابی سیاست میں یہ حربہ مسلسل استعمال ہو رہا ہے ۔ یہ بیانیہ کہ کانگریس یا اس کے رہنما ملک دشمن سوچ رکھتے ہیں، عوامی ذہنوں میں ایک مستقل تاثر پیدا کر چکا ہے ۔ ماہرینِ سیاست کے مطابق، بی جے پی نے 2014 کے بعد سے انتخابی مہمات میں قومی سلامتی، مذہب، اور دشمن ملک کے خوف کو اپنے مرکزی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اس حکمتِ عملی کا مقصد نہ صرف ووٹر کو جذباتی سطح پر متحرک کرنا ہے بلکہ مخالف جماعتوں کو دفاعی پوزیشن میں لانا بھی ہے ۔راہول گاندھی نے پچھلے برسوں میں مسلسل یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بی جے پی حکومت روزگار، مہنگائی، زرعی بحران اور تعلیمی تنزلی جیسے بنیادی مسائل پر ناکام رہی ہے ۔ بہار کے حوالے سے ان کے بیانات کا اصل زور بھی اسی پہلو پر تھا کہ ریاست کو ترقیاتی منصوبوں اور وفاقی وسائل میں نظر انداز کیا گیا ہے ۔ مگر سیاسی ماحول اس قدر حساس بنایا جا چکا ہے کہ کسی بھی تنقید کو فوری طور پر ملک دشمنی سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ رمیش بدھوری جیسے رہنما بی جے پی کے اندر اس حکمتِ عملی کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں جو جارحانہ بیانات کے ذریعے مخالفین کو حب الوطنی کے ترازو میں تولنے لگتے ہیں۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ رمیش بدھوری اس سے قبل پارلیمنٹ میں بھی کئی بار متنازع جملے ادا کر چکے ہیں۔ ان کی تقاریر میں قوم پرستی کا عنصر جذباتی شدت کے ساتھ شامل رہتا ہے ، جو سامعین کو وقتی طور پر متاثر تو کرتا ہے مگر جمہوری گفتگو کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بدھوری جیسے رہنما دراصل بی جے پی کی مہم میں ”غصے کے نمائندے ” کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں تاکہ میڈیا کا رخ
پالیسی سے ہٹ کر حب الوطنی کی بحث کی طرف مڑ جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا کے نمایاں چینلز پر اکثر ایسے بیانات کئی دنوں تک
بحث کا مرکز بنے رہتے ہیں۔
بہار کی زمینی حقیقت البتہ مختلف ہے ۔ یہ ریاست آج بھی بھارت کی غریب ترین اکائیوں میں شمار ہوتی ہے ۔ ناخواندگی ، غربت اور نوجوان آبادی کا تناسب زائد ہے ۔ ایسے میں ووٹرز کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ روزگار کے مواقع کہاں ہیں، تعلیم کا معیار کیوں نہیں بڑھ سکا، صحت کی سہولیات کیوں محدود ہیں؟ مگر بدقسمتی سے انتخابی بیانیہ ان حقیقی مسائل سے دور جا چکا ہے ۔ سیاستدان اب ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ جذباتی نعروں کے سہارے عوام کو متوجہ کرتے ہیں۔راہول گاندھی کی موجودہ سیاست بھی ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے ۔ وہ ایک جانب بی جے پی کے منظم پروپیگنڈا کے مقابلے میں اپنی جماعت کو فعال اپوزیشن کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف خود پر لگنے والے پاکستان نواز الزامات کی صفائی میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر مبنی گفتگو کو آگے نہیں بڑھا پاتے ۔ بی جے پی کا یہ بیانیہ اس قدر مضبوطی سے عوامی شعور میں پیوست ہو چکا ہے کہ کسی بھی اختلاف کو فوراً دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
میڈیا کے کردار کا ذکر یہاں ناگزیر ہے ۔ بھارتی میڈیا، خاص طور پر ٹی وی چینلز، اب اکثر ریاستی بیانیے کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ راہول گاندھی کی کسی تقریر یا بیان کے چند گھنٹوں کے اندر پاکستانی ایجنڈا، غداری، یا فوج کی توہین جیسے الفاظ ٹی وی اسکرینوں پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس سے ایک طرف عوامی ذہنوں میں خوف اور شک پیدا ہوتا ہے ، تو دوسری جانب اختلافِ رائے کو غیر اخلاقی یا غیر قومی تصور کر لیا جاتا ہے ۔ صحافت کا یہ رجحان بھارت میں جمہوری اقدار کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے کیونکہ آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت کا توازن قائم نہیں رہ سکتا۔
انتخابات کے دوران بھارت کا منظرنامہ ایک ایسے ڈرامے میں بدل جاتا ہے جہاں جذباتی نعروں کی گونج میں عقل کی آواز دب جاتی ہے ۔ بی جے پی کے لیے یہ حکمتِ عملی وقتی طور پر کامیاب ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ ووٹر کے مذہبی اور قومی جذبات کو بیدار کر کے اپنی بنیاد کو مستحکم کر لیتی ہے ۔ مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ معاشرہ اندر سے منقسم ہوتا جا رہا ہے ۔ نفرت، بدگمانی، اور اقلیتوں کے خلاف تعصب جیسے عوامل اس سیاسی بیانیے کے سائے میں پنپ رہے ہیں۔راہول گاندھی کو اگر اس فضا میں مؤثر سیاست کرنی ہے تو انہیں جذبات کے جواب میں جذبات نہیں بلکہ اعداد و شواہد سے بات کرنی ہوگی۔ انہیں یہ دکھانا ہوگا کہ بھارت کی ترقی کا اصل راستہ روزگار کی فراہمی، زرعی اصلاحات، تعلیمی استحکام، اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں ہے ۔ عوام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ انتخابی نعروں کے بجائے حقیقی کارکردگی پر ووٹ دیں۔ سیاست میں محبت اور برداشت کی فضا قائم کیے بغیر کوئی جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔
اب بھارت کی سیاست کو ”پاکستان” کے سائے سے نکل کر اپنی زمین کے مسائل پر آنا ہوگا۔ بہار، جھارکھنڈ، اور اترپردیش جیسی ریاستوں کو ترقی، تعلیم، اور صحت کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، نہ کہ الزامات اور نعروں کی۔ اگر سیاسی جماعتیں واقعی عوام کی نمائندہ بننا چاہتی ہیں تو انہیں حب الوطنی کے دعووں سے زیادہ انسانی ترقی کے پیمانوں پر خود کو ثابت کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو بھارت کو تقسیم سے نکال کر اتحاد کی راہ پر ڈال سکتا ہے ۔
راہول گاندھی پر الزامات کی گونج وقتی ہو سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام ان نعروں سے مطمئن ہوں گے یا وہ اب ایک نئی سیاسی گفتگو کے متلاشی ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ عوامی شعور بڑھ رہا ہے ، اور شاید اب ووٹر یہ سمجھنے لگا ہے کہ سیاست محض نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے بدلی جاتی ہے ۔ اگر بی جے پی اور کانگریس دونوں اپنی پالیسیوں کو عوامی مفاد کے مطابق ڈھالیں، تو بھارت کا جمہوری مستقبل زیادہ روشن ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ اقدام ہے جو قوم پرستی کو نعروں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آئے گا، اور یہی سیاست کا اصل امتحان بھی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔