وجود

... loading ...

وجود

راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی

جمعرات 13 نومبر 2025 راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بہار کی انتخابی فضا ایک بار پھر لفظوں کے تیروں سے گونج رہی ہے ۔ اسمبلی انتخابات قریب آتے ہی بھارتی سیاست میں الزامات، جوابی حملے اور حب الوطنی کے نعروں نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے ۔ بی جے پی رہنما رمیش بدھوری کے حالیہ بیان نے اس فضا میں خاصا اشتعال پیدا کیا ہے ، جب انہوں نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کی آواز کی بازگشت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق راہول گاندھی کے بیانات نہ صرف ملک کے نوجوانوں کے مواقع چھین رہے ہیں بلکہ سیاسی مفاد کے لیے غیر ملکی بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب راہول گاندھی نے بہار انتخابات کو ہریانہ کی طرز پر منظم کرنے کی بات کی تھی، جو بظاہر انتخابی اصلاحات اور انتظامی عمل کی مثال تھی مگر اسے بی جے پی نے قوم پرستی کے زاویے سے پیش کر کے سیاسی فضا کو مزید تقسیم کر دیا۔
راہول گاندھی کے خلاف پاکستان کی زبان بولنے کے الزامات نیا موضوع نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے بی جے پی کی انتخابی سیاست میں یہ حربہ مسلسل استعمال ہو رہا ہے ۔ یہ بیانیہ کہ کانگریس یا اس کے رہنما ملک دشمن سوچ رکھتے ہیں، عوامی ذہنوں میں ایک مستقل تاثر پیدا کر چکا ہے ۔ ماہرینِ سیاست کے مطابق، بی جے پی نے 2014 کے بعد سے انتخابی مہمات میں قومی سلامتی، مذہب، اور دشمن ملک کے خوف کو اپنے مرکزی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اس حکمتِ عملی کا مقصد نہ صرف ووٹر کو جذباتی سطح پر متحرک کرنا ہے بلکہ مخالف جماعتوں کو دفاعی پوزیشن میں لانا بھی ہے ۔راہول گاندھی نے پچھلے برسوں میں مسلسل یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بی جے پی حکومت روزگار، مہنگائی، زرعی بحران اور تعلیمی تنزلی جیسے بنیادی مسائل پر ناکام رہی ہے ۔ بہار کے حوالے سے ان کے بیانات کا اصل زور بھی اسی پہلو پر تھا کہ ریاست کو ترقیاتی منصوبوں اور وفاقی وسائل میں نظر انداز کیا گیا ہے ۔ مگر سیاسی ماحول اس قدر حساس بنایا جا چکا ہے کہ کسی بھی تنقید کو فوری طور پر ملک دشمنی سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ رمیش بدھوری جیسے رہنما بی جے پی کے اندر اس حکمتِ عملی کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں جو جارحانہ بیانات کے ذریعے مخالفین کو حب الوطنی کے ترازو میں تولنے لگتے ہیں۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ رمیش بدھوری اس سے قبل پارلیمنٹ میں بھی کئی بار متنازع جملے ادا کر چکے ہیں۔ ان کی تقاریر میں قوم پرستی کا عنصر جذباتی شدت کے ساتھ شامل رہتا ہے ، جو سامعین کو وقتی طور پر متاثر تو کرتا ہے مگر جمہوری گفتگو کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بدھوری جیسے رہنما دراصل بی جے پی کی مہم میں ”غصے کے نمائندے ” کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں تاکہ میڈیا کا رخ
پالیسی سے ہٹ کر حب الوطنی کی بحث کی طرف مڑ جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا کے نمایاں چینلز پر اکثر ایسے بیانات کئی دنوں تک
بحث کا مرکز بنے رہتے ہیں۔
بہار کی زمینی حقیقت البتہ مختلف ہے ۔ یہ ریاست آج بھی بھارت کی غریب ترین اکائیوں میں شمار ہوتی ہے ۔ ناخواندگی ، غربت اور نوجوان آبادی کا تناسب زائد ہے ۔ ایسے میں ووٹرز کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ روزگار کے مواقع کہاں ہیں، تعلیم کا معیار کیوں نہیں بڑھ سکا، صحت کی سہولیات کیوں محدود ہیں؟ مگر بدقسمتی سے انتخابی بیانیہ ان حقیقی مسائل سے دور جا چکا ہے ۔ سیاستدان اب ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ جذباتی نعروں کے سہارے عوام کو متوجہ کرتے ہیں۔راہول گاندھی کی موجودہ سیاست بھی ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے ۔ وہ ایک جانب بی جے پی کے منظم پروپیگنڈا کے مقابلے میں اپنی جماعت کو فعال اپوزیشن کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف خود پر لگنے والے پاکستان نواز الزامات کی صفائی میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر مبنی گفتگو کو آگے نہیں بڑھا پاتے ۔ بی جے پی کا یہ بیانیہ اس قدر مضبوطی سے عوامی شعور میں پیوست ہو چکا ہے کہ کسی بھی اختلاف کو فوراً دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
میڈیا کے کردار کا ذکر یہاں ناگزیر ہے ۔ بھارتی میڈیا، خاص طور پر ٹی وی چینلز، اب اکثر ریاستی بیانیے کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ راہول گاندھی کی کسی تقریر یا بیان کے چند گھنٹوں کے اندر پاکستانی ایجنڈا، غداری، یا فوج کی توہین جیسے الفاظ ٹی وی اسکرینوں پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس سے ایک طرف عوامی ذہنوں میں خوف اور شک پیدا ہوتا ہے ، تو دوسری جانب اختلافِ رائے کو غیر اخلاقی یا غیر قومی تصور کر لیا جاتا ہے ۔ صحافت کا یہ رجحان بھارت میں جمہوری اقدار کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے کیونکہ آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت کا توازن قائم نہیں رہ سکتا۔
انتخابات کے دوران بھارت کا منظرنامہ ایک ایسے ڈرامے میں بدل جاتا ہے جہاں جذباتی نعروں کی گونج میں عقل کی آواز دب جاتی ہے ۔ بی جے پی کے لیے یہ حکمتِ عملی وقتی طور پر کامیاب ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ ووٹر کے مذہبی اور قومی جذبات کو بیدار کر کے اپنی بنیاد کو مستحکم کر لیتی ہے ۔ مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ معاشرہ اندر سے منقسم ہوتا جا رہا ہے ۔ نفرت، بدگمانی، اور اقلیتوں کے خلاف تعصب جیسے عوامل اس سیاسی بیانیے کے سائے میں پنپ رہے ہیں۔راہول گاندھی کو اگر اس فضا میں مؤثر سیاست کرنی ہے تو انہیں جذبات کے جواب میں جذبات نہیں بلکہ اعداد و شواہد سے بات کرنی ہوگی۔ انہیں یہ دکھانا ہوگا کہ بھارت کی ترقی کا اصل راستہ روزگار کی فراہمی، زرعی اصلاحات، تعلیمی استحکام، اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں ہے ۔ عوام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ انتخابی نعروں کے بجائے حقیقی کارکردگی پر ووٹ دیں۔ سیاست میں محبت اور برداشت کی فضا قائم کیے بغیر کوئی جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔
اب بھارت کی سیاست کو ”پاکستان” کے سائے سے نکل کر اپنی زمین کے مسائل پر آنا ہوگا۔ بہار، جھارکھنڈ، اور اترپردیش جیسی ریاستوں کو ترقی، تعلیم، اور صحت کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، نہ کہ الزامات اور نعروں کی۔ اگر سیاسی جماعتیں واقعی عوام کی نمائندہ بننا چاہتی ہیں تو انہیں حب الوطنی کے دعووں سے زیادہ انسانی ترقی کے پیمانوں پر خود کو ثابت کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو بھارت کو تقسیم سے نکال کر اتحاد کی راہ پر ڈال سکتا ہے ۔
راہول گاندھی پر الزامات کی گونج وقتی ہو سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام ان نعروں سے مطمئن ہوں گے یا وہ اب ایک نئی سیاسی گفتگو کے متلاشی ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ عوامی شعور بڑھ رہا ہے ، اور شاید اب ووٹر یہ سمجھنے لگا ہے کہ سیاست محض نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے بدلی جاتی ہے ۔ اگر بی جے پی اور کانگریس دونوں اپنی پالیسیوں کو عوامی مفاد کے مطابق ڈھالیں، تو بھارت کا جمہوری مستقبل زیادہ روشن ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ اقدام ہے جو قوم پرستی کو نعروں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آئے گا، اور یہی سیاست کا اصل امتحان بھی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی وجود جمعرات 13 نومبر 2025
راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی

کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار وجود جمعرات 13 نومبر 2025
کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار

ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ وجود بدھ 12 نومبر 2025
ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ

27ویں ترمیم اور افواہیں وجود بدھ 12 نومبر 2025
27ویں ترمیم اور افواہیں

مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل وجود بدھ 12 نومبر 2025
مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر