وجود

... loading ...

وجود

کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار

جمعرات 13 نومبر 2025 کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار

ریاض احمدچودھری

بھارت کے زیر قبضہ غیرقانونی طورپر جموں وکشمیرمیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2025تک 3.61 لاکھ سے زائدتعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان رجسٹرڈ تھے جس سے علاقے میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی ہوتی ہیں۔ وادی کشمیر میں 2.08لاکھ بے روزگار رجسٹرڈ ہیں جبکہ جموں خطے میں 1.52لاکھ رجسٹرڈ ہیں۔ ضلع اسلام آباد 32,298بے روزگاروں کے ساتھ سر فہرست ہے جبکہ پلوامہ میں671 28، کٹھوعہ میں26798، سرینگرمیں23826 اور کولگام میں 21446 تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوان رجسٹرڈ ہیں۔ بے روزگاروں کی سب سے کم تعداد کشتواڑمیں 8,870 اور ریاسی میں 12,376ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کل رجسٹرڈ نوجوانوں میں سے 2,33,845مرد اور 1,27,301خواتین ہیں۔دفعہ 370کی منسوخی کے بعدترقی اورخوشحالی کے بھارتی حکومت کے بلندو بانگ دعوئوں کے باوجود مقبوضہ جموں وکشمیر میں بے روزگاری کی شرح بھارت کی کسی بھی ریاست سے سب سے زیادہ ہے۔
ضلع اسلام آباد 32,298 بے روزگاروں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ پلوامہ میں671 28، کٹھوعہ میں 26798، سرینگر میں 23826 اور کولگام میں 21446 تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان رجسٹرڈ ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے معاشی ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بے روزگاری کی شرح 18.3فیصد تک بڑھ گئی ہے جو کہ بھارت کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے۔ ایمپلائمنٹ ڈائر یکٹر نثار احمد وانی کا کہنا ہے کہ 2023کی آخری سہ ماہی میں بے روزگار گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس کی تعداد میں 10ہزار کا اضافہ ہوا تھا۔ تعلیم اور پبلک ایڈمنسٹریشن جیسے شعبوں میں تین لاکھ سے زائد خالی آسامیاں ہونے کے باوجود بے روزگاری کا مسئلہ برقرار ہے ، اہل امیدوار ایک طویل عرصے سے ان خالی آسامیوں کے انتظار میں ہیں۔مقبوضہ علاقے کے محکمہ داخلہ میں 1ہزار 3سو 35،صحت اور طبی تعلیم میں 415، محکمہ پانی میں 314جبکہ محکمہ بجلی میں 292اسامیاں خالی بتائی جا رہی ہیں۔ یہ آسامیاں عرصہ دراز سے خالی ہیں جسکی وجہ سے علاقے میں بے روز گاری سنگین شکل اختیار کر رہی ہے۔باٹنی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے مقصود احمد گنائی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان اپنی بقا کے لیے سڑکوں پر جوس بیچنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں کئی دہائیوں کی بدامنی کی وجہ سے معاشی بحران مزید بڑھ گیا ہے، جہاں تیس سال سے زائد عرصے سے بھارت کے غیر قانونی تسلط کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی ایک نئی داستان رقم ہو رہی ہے۔مودی سرکار نے 2019ء میں آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے عوام پر زندگی تنگ کردی،اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بیروزگاری عروج پرہے مگرمودی سرکارکی جانب سے لگائی گئی پابندیاں جاری ہیں،بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہر آنے والے دن غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔مستند اعدادوشمار کے مطابق اس وقت خط غربت 49 فیصدکی خطرناک حد کو چھو رہی ہے،مقبوضہ وادی کے عوام غربت کے باعث خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔حالیہ سروے کیمطابق مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 23.09 فیصد بے روزگاری ہے جس میں ہرروز اضافہ ہو رہا ہے۔بڑی ہوئی بیروزگاری کے باعث مودی سرکار کیخلاف ایک عرصے سے مقبوضہ وادی کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ریاست میں مقبوضہ کشمیر میں ذرائع روزگار گھٹ گئے ہیں کیونکہ ریاست میں آبادی کا توازن بگاڑنے کیلئے غیر مقامی افراد کو لایا جارہاہے جو روزگار،کاروبار میں چھا رہے ہیں ریاستی سپورٹ کے باعث مقبوضہ کشمیر میں بے روز گار نوجوانوں کی تعداد میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا 10لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں جو ذہنی دباؤکے باعث منشیات کے عادی یا خودکشی کر رہے ہیں۔غیر قانونی طورپر زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں پہلے سے غربت کا شکار کشمیری عوام کے گرد معاشی شکنجہ مزید کسنے کیلئے بھارتی قابض حکام نے بجلی کے نرخوں میں 15فیصد اضافے کی منظوری دی ہے، جس سے تقریبا 10 لاکھ صارفین پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی منظوری جوائنٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن نے دی ہے۔ ابتدائی طور پرٹیرف میں 30فیصد اضافے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ بعدازاں 15فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔مقامی طور پر وافرمقدار میںبجلی کی پیداوارکے باوجود جموں وکشمیر میں بجلی کی قلت پائی جاتی ہے کیونکہ بجلی کا بیشتر حصہ بھارت منتقل کیا جاتا ہے جس سے مقامی لوگوں کو بجلی کی بار بار بندش اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موسم سرما کے مہینوں میں صورتحال بدترہو جاتی ہے جب بجلی کی طلب عروج پر ہوتی ہے جس سے خطے کے توانائی کے وسائل کے انتظام کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔قابض حکام کا کہنا ہے کہ دریائے چناب میں جو بڑے بڑے پن بجلی منصوبوں کا منبع ہے، پانی کی سطح میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے جس سے بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ یہ دریا 16ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بگلیہار پن بجلی منصوبے کے ایک عہدیدارنے بتایاکہ پانی کی سطح کم ہونے سے ہماری بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔گرمیوں میں ہم پوری صلاحیت کے ساتھ 900میگاواٹ پیدا کرتے ہیں لیکن سردیوں میں پیداوار تقریبا نصف رہ جاتی ہے۔یہ کمی خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسائل کا باعث ہے۔ مقامی طور پر پیدا ہونے والی بجلی شمالی بھارت کو منتقل ہونے کی وجہ سے اکثر بجلی کی غیراعلانیہ کٹوتی ہوتی رہتی ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی وجود جمعرات 13 نومبر 2025
راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی

کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار وجود جمعرات 13 نومبر 2025
کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار

ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ وجود بدھ 12 نومبر 2025
ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ

27ویں ترمیم اور افواہیں وجود بدھ 12 نومبر 2025
27ویں ترمیم اور افواہیں

مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل وجود بدھ 12 نومبر 2025
مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر