... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت کے زیر قبضہ غیرقانونی طورپر جموں وکشمیرمیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2025تک 3.61 لاکھ سے زائدتعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان رجسٹرڈ تھے جس سے علاقے میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی ہوتی ہیں۔ وادی کشمیر میں 2.08لاکھ بے روزگار رجسٹرڈ ہیں جبکہ جموں خطے میں 1.52لاکھ رجسٹرڈ ہیں۔ ضلع اسلام آباد 32,298بے روزگاروں کے ساتھ سر فہرست ہے جبکہ پلوامہ میں671 28، کٹھوعہ میں26798، سرینگرمیں23826 اور کولگام میں 21446 تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوان رجسٹرڈ ہیں۔ بے روزگاروں کی سب سے کم تعداد کشتواڑمیں 8,870 اور ریاسی میں 12,376ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کل رجسٹرڈ نوجوانوں میں سے 2,33,845مرد اور 1,27,301خواتین ہیں۔دفعہ 370کی منسوخی کے بعدترقی اورخوشحالی کے بھارتی حکومت کے بلندو بانگ دعوئوں کے باوجود مقبوضہ جموں وکشمیر میں بے روزگاری کی شرح بھارت کی کسی بھی ریاست سے سب سے زیادہ ہے۔
ضلع اسلام آباد 32,298 بے روزگاروں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ پلوامہ میں671 28، کٹھوعہ میں 26798، سرینگر میں 23826 اور کولگام میں 21446 تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان رجسٹرڈ ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے معاشی ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بے روزگاری کی شرح 18.3فیصد تک بڑھ گئی ہے جو کہ بھارت کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے۔ ایمپلائمنٹ ڈائر یکٹر نثار احمد وانی کا کہنا ہے کہ 2023کی آخری سہ ماہی میں بے روزگار گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس کی تعداد میں 10ہزار کا اضافہ ہوا تھا۔ تعلیم اور پبلک ایڈمنسٹریشن جیسے شعبوں میں تین لاکھ سے زائد خالی آسامیاں ہونے کے باوجود بے روزگاری کا مسئلہ برقرار ہے ، اہل امیدوار ایک طویل عرصے سے ان خالی آسامیوں کے انتظار میں ہیں۔مقبوضہ علاقے کے محکمہ داخلہ میں 1ہزار 3سو 35،صحت اور طبی تعلیم میں 415، محکمہ پانی میں 314جبکہ محکمہ بجلی میں 292اسامیاں خالی بتائی جا رہی ہیں۔ یہ آسامیاں عرصہ دراز سے خالی ہیں جسکی وجہ سے علاقے میں بے روز گاری سنگین شکل اختیار کر رہی ہے۔باٹنی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے مقصود احمد گنائی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان اپنی بقا کے لیے سڑکوں پر جوس بیچنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں کئی دہائیوں کی بدامنی کی وجہ سے معاشی بحران مزید بڑھ گیا ہے، جہاں تیس سال سے زائد عرصے سے بھارت کے غیر قانونی تسلط کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی ایک نئی داستان رقم ہو رہی ہے۔مودی سرکار نے 2019ء میں آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے عوام پر زندگی تنگ کردی،اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بیروزگاری عروج پرہے مگرمودی سرکارکی جانب سے لگائی گئی پابندیاں جاری ہیں،بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہر آنے والے دن غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔مستند اعدادوشمار کے مطابق اس وقت خط غربت 49 فیصدکی خطرناک حد کو چھو رہی ہے،مقبوضہ وادی کے عوام غربت کے باعث خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔حالیہ سروے کیمطابق مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 23.09 فیصد بے روزگاری ہے جس میں ہرروز اضافہ ہو رہا ہے۔بڑی ہوئی بیروزگاری کے باعث مودی سرکار کیخلاف ایک عرصے سے مقبوضہ وادی کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ریاست میں مقبوضہ کشمیر میں ذرائع روزگار گھٹ گئے ہیں کیونکہ ریاست میں آبادی کا توازن بگاڑنے کیلئے غیر مقامی افراد کو لایا جارہاہے جو روزگار،کاروبار میں چھا رہے ہیں ریاستی سپورٹ کے باعث مقبوضہ کشمیر میں بے روز گار نوجوانوں کی تعداد میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا 10لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں جو ذہنی دباؤکے باعث منشیات کے عادی یا خودکشی کر رہے ہیں۔غیر قانونی طورپر زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں پہلے سے غربت کا شکار کشمیری عوام کے گرد معاشی شکنجہ مزید کسنے کیلئے بھارتی قابض حکام نے بجلی کے نرخوں میں 15فیصد اضافے کی منظوری دی ہے، جس سے تقریبا 10 لاکھ صارفین پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی منظوری جوائنٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن نے دی ہے۔ ابتدائی طور پرٹیرف میں 30فیصد اضافے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ بعدازاں 15فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔مقامی طور پر وافرمقدار میںبجلی کی پیداوارکے باوجود جموں وکشمیر میں بجلی کی قلت پائی جاتی ہے کیونکہ بجلی کا بیشتر حصہ بھارت منتقل کیا جاتا ہے جس سے مقامی لوگوں کو بجلی کی بار بار بندش اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موسم سرما کے مہینوں میں صورتحال بدترہو جاتی ہے جب بجلی کی طلب عروج پر ہوتی ہے جس سے خطے کے توانائی کے وسائل کے انتظام کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔قابض حکام کا کہنا ہے کہ دریائے چناب میں جو بڑے بڑے پن بجلی منصوبوں کا منبع ہے، پانی کی سطح میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے جس سے بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ یہ دریا 16ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بگلیہار پن بجلی منصوبے کے ایک عہدیدارنے بتایاکہ پانی کی سطح کم ہونے سے ہماری بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔گرمیوں میں ہم پوری صلاحیت کے ساتھ 900میگاواٹ پیدا کرتے ہیں لیکن سردیوں میں پیداوار تقریبا نصف رہ جاتی ہے۔یہ کمی خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسائل کا باعث ہے۔ مقامی طور پر پیدا ہونے والی بجلی شمالی بھارت کو منتقل ہونے کی وجہ سے اکثر بجلی کی غیراعلانیہ کٹوتی ہوتی رہتی ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔