... loading ...
حمیداللہ بھٹی
زہران ممدانی کی جیت ایسے ہی ہے جیسے پتھر یلی چٹانوں سے نرم ونازک پودے کا اُگنا یاجوہڑ سے کنول جیسے خوبصورت پھول کا کھلنا،
انھوں نے دنیاوی طاقتوں کو پچھاڑ ا ہے جو ایک منفرداور اہم واقعہ ہے۔ البتہ تمام حربے ناکام ہونے پر شہرکے نسل پرست اور دولت مند
پریشان ہیں کیونکہ یہودیوں کے گڑھ میں مسلمان میئر کی جیت بدلتے منظر نامے کی طرف اشارہ ہے یوں تو رائے عامہ کے جائزوں سے
واضح ہوگیاتھا کہ نیویارک کے لیے نسل و مذہب کی بجائے اہلیت وصلاحیت مقدم ہے۔ نیزشہری دائیں بازو کی سیاست کوناپسندکرتے ہیں
اِس کے باوجود شہرکے ارب پتیوں نے ہمت نہ ہاری اور تاریخ کا دھارادولت سے بدلنے کی کوشش کی ممدانی کو شکست دینے کے لیے
لاکھوں ڈالر کے عطیات دیے گئے مگر کامیابی کوناکامی میں نہ بدل سکے اور ممدانی 49.6ووٹ لیکر نیویارک کے میئر منتخب ہوگئے جبکہ اُن کے
مدِ مقابل آزادامیدوار اینڈریوکوموصرف 41,7فیصد ووٹ لے سکے ریپبلکن امیدوار کرٹس سلواکے حاصل کردہ ووٹوں کاتذکرہ کیا کرنا وہ
شرمناک شکست سے دوچارہوئے ۔
نیوریارک میئر کے انتخابات کئی وجوہات کی بناپر اہم ہیں اول یہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہرہے دوم یہاں تارکینِ
وطن کی بڑی تعداد ہے سوم اِس شہر میں ارب پتی انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں چہارم تعلیم و روزگار کے وسیع مواقع ہونے کے باوجود
رہائشی سہولتوں کی کمی ہے پنجم یہ شہر ملک کے سیاسی منظر نامے کا تعین کرتا ہے۔اسی تناظرمیں صدرٹرمپ کی کامیابی کی طرح عام خیال یہ تھا کہ
اُن کا حمایت یافتہ امیدوار باآسانی میئر منتخب ہوجائے گا مگر ممدانی کے عوامی منشورنے رائے عامہ کی توجہ حاصل کرلی اور پھر اسرائیل کے
سفاک وزیرِ اعظم نیتن یاہوکی گرفتاری کے عندیے نے انھیں مقبولِ عام بنادیا جب رائے عامہ کے جائزوں میں ممدانی کوتمام امیدواروں
سے مقبول ظاہر کی جانے لگا تو طاقت کے مراکز میں جیسے بھونچال سا آگیاشہر کے ارب پتی بھاری عطیات کے ساتھ آگے بڑھے تاکہ
سابق گورنر اینڈریوکومو کے لیے عوامی حمایت حاصل کی جا سکے لیکن بات بننے کی بجائے بگڑتی چلی گئی اور ممدانی کا درمیانے طبقے کے مسائل
حل کرنے کا بیانیہ حاوی ہوتا چلا گیا ممدانی نے جب کہاکہ شہر میں دفاتر اور گھروں کے کرائے منجمد کردوں گا شہریوں کو مفت سفری سہولتیں
دینے کے ساتھ چائلڈ کیئر کے دائرہ کارکو بھی وسعت دی جائے گی توممدانی کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی مگر سابق گورنراینڈریوکومواور ریپبلکن
امیدوار کرٹس سلوانے ایساکوئی وعدہ نہ کیاوہ اپنی تصوراتی دنیا میں گم رہے یہ لاعلمی تھی ، لاپرواہی یازہنی پس ماندگی؟شکست کا ایک زوردار
تھپٹر کی صورت بنی۔
صدرٹرمپ نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے محصولات بڑھائے اور نئی منڈیاں حاصل کیںلیکن محصولات سے ملک میں
مہنگائی کے عفریت کو نئی طاقت ملی اِس عفریت سے آجکل ہر امریکی پریشان ہے ایک ایسا شہر جہاں غیر ملکیوں کی بڑی تعدادہے جو رہائش
اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل سے دوچار ہیں انھوں نے تبدیلی لانے اور ممدانی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے کیونکہ ممدانی نے عوام کی نبض
پر ہاتھ رکھا امیر طبقے پرٹیکس بڑھانے اور غریب اور متوسط طبقات کے لیے مراعات کا اعلان کیا توعام شہری متوجہ ہوتے گئے شہر کے امراو
روسا کی رقوم ایشیائی نسل کے امیدوارکی کامیابی روک نہ سکیں اقلیتی النسل کی حمایت سے نہ صرف 1969 کے بعد انتخابات میں سب سے
زیادہ ٹرن آئوٹ رہابلکہ نیویارک جسے تارکینِ وطن کا شہر کہا جاتا ہے سے صدرٹرمپ اور ایلون مسک کی مخالفت بھی بے اثر رہی۔
زہران ممدانی کی جیت نے امریکہ میں نئی تاریخ رقم کی ہے بلاشبہ اِس جیت سے ٹرمپ کا سر نیچا ہوا ہے ممدانی نے نیویارک کے پہلے
مسلم میئر کا اعزازحاصل کیا ہے اِس 34سالہ شخص نے عزم و ہمت اور جہد مسلسل سے ناممکن کو ممکن بناد یا ہے لندن کے میئر محمد صادق سے
ناخوش ٹرمپ کو اپنے ہی ملک کے سب سے بڑے شہر نے وہ صدمہ دیا ہے جس سے نہ صرف دائیں اور بائیں بازوکی کشاکش میں اضافہ
ہوسکتا ہے بلکہ ڈیموکریٹس کی مقبولیت میں اضافہ میں اضافہ ہوگایہ ایک ایسا غیرمعمولی واقعہ ہے کہ دنیا کے دوبڑے شہروں نے مسلمانوں
کے امن ،محبت ،رواداری اور بھائی چارے پر اعتمادکیا ہے اب میئر لندن کی طرح میئر نیویارک کوبھی شاید صدرٹرمپ ہدفِ تنقید بناتے
پھریں لیکن سرمایہ ،اہمیت اور عالمی شہرت کے حامل شہر سے کامیابی حاصل کرنا، ایلون مسک کے سوشل میڈیااورتبصروں کو ناکام بنانا ممدانی کا
وہ کارنامہ ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا ایشیائی نژاد غیر پیدائشی امریکی شہری 34سالہ ممدانی نے نیوریارک شہر میںوہ کامیابی حاصل کی ہے جسے صرف پبلکن ہی نہیں روسا بھی کبھی بھول نہ پائیں گے یہ عوامی طاقت کی دولت اور اختیار دونوں کوشکست ہے۔
تاریخی اور عوامی کامیابی کے بعد کیا زہران ممدانی اپنے اقتدار کی مدت سکون اور کامیابی سے گزارپائیں گے ؟اِس حوالے سے ہاں میں
جواب دیناغلط ہوگابلکہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ قدم قدم پر چیلنجز کا سامنا کرناپڑے گا کیونکہ اُن کے مخالفین سیاسی قوت کے ساتھ انتہائی
دولت مند ہیں جدید زرائع ابلاغ کے مالک ہیں صدر ٹرمپ پہلے ہی وفاقی حکومت سے نیویارک کوملنے والی اربوں ڈالرز کی فنڈنگ روکنے
کاعندیہ دے چکے فی الوقت ممدانی کوکامیاب ہونے سے روکا نہیں جاسکا صدرٹرمپ نے پالیسی یوٹرن لیتے ہوئے نئے میئر کے ساتھ
تعاون کا اعلان کیا ہے لیکن لیکن اِس کامیابی کووہ آسانی سے قبول کرنے پر وہ آمادہ نظر نہیں آتے کیونکہ نیویارک کی ایک اپنی اہمیت ہے
اِس شہر میں امریکہ کی سب سے بڑی پولیس نفری ہے اِس کاسالانہ بجٹ 115ارب ڈالر ہے اسی شہر میں اقوامِ متحدہ کاہیڈ کوارٹر ہے یہ شہر
اسٹاک مارکیٹ سمیت دولت کے ارتکاز کا عالمی مرکزہے اِس لیے ڈیموکریٹس کی دیگر کامیابیوں سے زیادہ اہم میئر کی یہ کامیابی ہے۔
ایسے حالات میں جب دنیا میں دائیں بازوکے نظریات رکھنے والی شخصیات اور جماعتیں تقویت پکڑرہی ہیں نیویارک جیسے عالمی اہمیت
کے شہر سے ایک متوسط طبقے کے روشن خیال امیدوار کا اقلیتی ووٹروں کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرناخاصا غیر معمولی ہے اُن کی حمایت
میں سیاہ فام ،ہسپانوی اور ایشیائی ووٹریکجادکھائی دیے جس سے اینڈریوکومواور کرٹس سلوا کی حمایت محدودہوئی ماہرین کے خیال میں یہ نتیجہ
نیویارک کی بدلتی سیاسی اورسماجی ساخت کا عکاس اور نسلی بنیادپر ووٹروں کے رجحانات کی بے چینی کوظاہر کرتی ہے نیویارک کے انتخابات
میں سفید فام اکثریت نے آزاد امیدوار اینڈریوکومو کوترجیح دی لیکن رپبلکن امیدوار کرٹس سلوا کو تمام نسلوں سے حمایت کمزورہوناٹرمپ کی
پالیسیوں پر عدمِ اعتماد ہے زہران ممدانی نے ایک منفرد تاریخ رقم توکردی ہے لیکن شہرکے امیروں کی اکثریت ممدانی کی کامیابی کے بعد بھی اُن کے سوشلسٹ خیالات سے کتنی خائف ہے؟ یہ جاننے کے لیے کچھ انتظارکرنامناسب ہوگا۔
٭٭٭