... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
کہا جاتا ہے کہ 6چھ نومبر کے دن جموں شہر کے مختلف علاقوں میں اعلانات ہوئے کہ مسلمان پاکستان جانے کے لیے تیار رہیں،انھیں یقین دلایا گیا کہ بسیں اور ٹرک انھیں محفوظ سرحد پار لے جائیں گے۔اعلان سن کر جموں کے مسلمان گھرانوں نے اللہ کا شکر ادا کیا،قرآن پاک کے نسخے سینے سے لگائے،ماوں نے بچوں اور نوجوانوں نے بزرگوں کے ہاتھ تھامے اور قافلے چل پڑے۔ان سب کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی، دلوں میں امنگ تھی کہ اب وہ اپنی منزل مقصود ”پاکستان”، پہنچ جائیں گے۔کسی نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ یہ قافلے دراصل موت کے سفر پر روانہ ہونے لگے ہیں۔جموں کی سڑکو ں پر جب یہ قافلے پہنچے تو ان پر موت برسنے لگی۔جموں کی زمین ایک لمحے میں لال ہو نے لگی۔مہا راجہ ہری سنگھ کی فوج،بھارتی قابض فوج، آر ایس ایس اور ہندو دہشت گرد تنظیموں نے مسلمانوں کے نہتے قافلوں پرسیدھی بندوقیں تان لیںاور اندھادھند گولیوں برسانا شروع کردیں۔ عورتیں چیختی رہ گئیں،کچھ مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے گولیوں کی بارش میں گرنے لگیں تو کچھ ماوں کی گود میں ان کے بچوں کے لاشے ٹھنڈے پڑنے لگے،بچے،بزرگ اندھی گولیوں کا نشانہ بننے لگے،جموں کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں۔ لڑکیاں عزت بچانے کی خاطردریائے توی میں کود گئیں۔
برطانوی اخبار”دی ٹائمز”لندن میں 10 اگست 1948کو ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ اس سانحہ میں 2 لاکھ 37ہزار سے زائد مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ یہ تاریخ کا وہ خونی باب ہے جو نہ کسی نصاب میں شامل ہوا اور نہ کسی عالمی ضمیر نے اس کا درد محسوس کیا۔ سانحہ میں جولوگ خوش قسمتی سے بچ گئے وہ اپنے خونی رشتوں کو کھوچکے تھے،وہ خالی ہاتھ پاکستان پہنچے، ان کے جسم سلامت توتھے مگر روحیںشدید زخمی تھیں۔
آج ایک نئی صبح میں جب ہم یومِ شہدائے جموں مناتے ہیںتو ماضی کا زخم یاد دہانی کے طور پر تازہ ہوجاتا ہے ۔ بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں جن کے ذریعے ”شہدائے جموں” کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مہاراجہ ہری سنگھ کی فورسز، بھارتی فوجیوں اور ہندو انتہا پسند تنظیموں کے غنڈوں نے جموں کے مختلف علاقوں میں لاکھوں کشمیریوں کا اس وقت قتل کیا تھا جب وہ نومبر 1947 کے پہلے ہفتے میں پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ پوسٹر کل جماعتی حریت کانفرنس، جموں و کشمیر پیپلز ریزسٹنس پارٹی، جموں و کشمیر سٹوڈنٹس اینڈ یوتھ فورم، جموں کشمیر ڈیموکریٹک موومنٹ اور جموں فریڈم فائٹرز نے سری نگر اور جموں کے مختلف علاقوں میں دیواروں، کھمبوں، ستونوں وغیرہ پر چسپاں کیے ہیں۔ پوسٹرز میں لکھا گیا کہ کشمیری شہداء کی قربانیوں کو ہرگز رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور ان کے مشن کو ہر قیمت پر اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔یہ پوسٹرز محض الفاظ اور کاغذ نہیں بلکہ یہ زندہ تاریخ کی علامت ہیں، وہی تاریخ جو کئی دہائیوں تک خاموش رہی آج نئی نسل کے سامنے فخر و غم کا ملا جلا پیغام رکھتی ہے۔یہ ہمیں بتاتی ہے کہ شہداء کی یاد محض روایتی رسم نہیں بلکہ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جو اقوام عالم سے انصاف اور شناخت کا تقاضا کرتی ہے۔افسوس کہ دنیا نے اس دردناک سانحہ کو کبھی اقوامِ عالم کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ انسانیت کے نام پر چیخنے والے ادارے خاموش رہے۔ مغربی مبصرین نے اسے محض ایک”فرقہ وارانہ تصادم” کہہ کر ٹال دیاحالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔
6نومبر کا دن محض ایک یادگار تاریخ نہیں بلکہ قوم کے شعور کی آزمائش ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کا وجود چند دستخطوں سے نہیں بلکہ قربانیوں کے سمندر سے نکلا ہے۔ہمیں یہ دن اس عہد کے ساتھ منانا چاہیے کہ جب تک مقبوضہ کشمیر کا ہر گوشہ آزاد نہیں ہوتا، جب تک ہر شہید کے لہو کا حساب نہیں ہوتا، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔شہدائے جموں کی روحیں آج بھی پکارکر یہ کہتی ہیں کہ”ہم زندہ ہیں کیونکہ ہمارا خون پاکستان کی بنیادوں میں شامل ہے۔”وہ وقت ضرور آئے گا جب جموں کے ان شہیدوں کا لہو انصاف مانگے گااور کشمیر کی فضاؤں میں پھر وہی نعرہ گونجے گا”پاکستان کا مطلب کیا؟۔ لا الٰہٰ الا اللہ۔”یوم شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ”کشمیر۔ خوابوں کی تعبیر” ریلیز کیا گیا ہے جسے سوشل میڈیا پربے حد پسند کیا جارہا ہے۔
٭٭٭