وجود

... loading ...

وجود

دکھ روتے ہیں!

بدھ 05 نومبر 2025 دکھ روتے ہیں!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بار، Keanu Reevesنے کہا: ”درد شکل بدل دیتا ہے، لیکن یہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کو دکھ دیتی ہے یا توڑ دیتی ہے، آپ اس پر قابو نہیں پا سکتے، لیکن آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آپ جس چیز سے پیار کرتے ہیں اس کے لیے لڑیں، کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ انسانوں کے مذہب، زبان، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھر کے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیاگیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نا بود کر دیاتھا Auschwitzکے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اس کا خاندان نیست و نابود کر دیاگیا تھا وہ بے گھراور بے وطن تھا ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش ذدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ”آخر کیوں، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے تو اس وقت کہاں تھا جب انہوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیاتھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا اس وقت اس کی عمر 17سال تھی او وہ سترہ بر س کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا اس نے کہاتھا ”تم سب جو گذرے جارہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگر کہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی”۔ محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لعنت ایجاد کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمارے دکھ در د کی شدت موجودہ الفاظوں سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں موجود لفظوں کی چیخوں سے زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ لفظوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 25 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو25 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں آئیں ۔ ذراتاریخ کے اندر سفر کرتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگا ہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مر دہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھو نڈ تی تھیں اور آہ و بکا کررہی تھیں۔ بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفو ظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کا لنگا کے میدان سے آج بھی آہ و بکا کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں ۔آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غرباؤں کی بستیوں میں گھوم کر دیکھ لیں۔ ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ،ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ،ان کے گر ئیے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ان منظروں اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں یہ جو دکھ ہوتے ہیں ۔یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ اس کی جان نہ نکل جائے۔
آئیں ہم اپنے دکھوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہیں (١) پہلا گروپ۔ اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیر دار، سردار، پیر شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں، سرداری، پیری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔ اس لیے انہیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انہیں ذلیل کرتے رہو اورانہیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔ دوسرا گروپ۔جس میں صنعت کار، تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار، بلڈرز اور کاروباری حضرات
شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خو شبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ان کا سب کچھ صرف اور صرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے، احساس، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے۔ان کا مذہب، ایمان، دین سب پیسہ ہے (٣) تیسر ا گروپ۔اس گروپ میں علمائ، مشائخ اور ملاشامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمہ دار یہ ہی ہیں ۔یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائد ہ اٹھا سکتے تھے اٹھارہے ہیں ،ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ (٤) چوتھا گروپ۔ جس میں سیاست دان، بیورو کریٹس، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں ۔ شیطان اگر دنیامیں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کاروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کاایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا تے رہو اور اپنے اقتدار کے سو رج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 25 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری وجود بدھ 05 نومبر 2025
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری

سوڈان کاالمیہ وجود بدھ 05 نومبر 2025
سوڈان کاالمیہ

دکھ روتے ہیں! وجود بدھ 05 نومبر 2025
دکھ روتے ہیں!

پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ وجود منگل 04 نومبر 2025
پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ

پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب وجود منگل 04 نومبر 2025
پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر