وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ

منگل 04 نومبر 2025 پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

جس لمحے کسی قوم کا پرچم خلا کی وسعتوں میں لہرانے لگے ، اس لمحے تاریخ ایک نئے باب کا آغاز لکھتی ہے ۔ پاکستان کے لیے وہ لمحہ تب آیا جب اسپارکو نے چین کے خلائی مرکز سے پہلا ”ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ” HS-1خلا میں روانہ کیا۔ یہ صرف ایک تکنیکی پیشرفت نہیں بلکہ خود اعتمادی، سائنسی بیداری اور قومی وقار کا اظہار ہے ۔ صدیوں سے زمینی حدود میں الجھا ہوا انسان جب اپنے علم اور تخلیقی قوت سے فلک کی سرحدوں تک جا پہنچتا ہے تو اس کی قومیں بھی خوابوں کی نئی تعبیر لکھتی ہیں۔ ”ویژن 2047” کے تحت لانچ ہونے والا یہ سیٹلائٹ دراصل اس پیغام کا اعلان ہے کہ پاکستان اب زمین کا مشاہد بن کر نہیں، بلکہ خلا کا محقق بن کر اُبھرا ہے ۔جب کسی قوم کا خواب زمین کی سرحدوں سے نکل کر خلا کی وسعتوں میں جا پہنچے تو یہ صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ اس کے فکری ارتقاء اور ترقی یافتہ مستقبل کا اعلان بھی ہوتا ہے ۔ پاکستان کے لیے 19 اکتوبر 2025 کا دن اسی نوعیت کا تاریخی موڑ بن گیا، جب سپارکو نے چین کے تعاون سے اپنا پہلا ”ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ” HS-1خلا میں بھیجا۔ یہ مشن چین کے شمال مغربی علاقے ”جیوکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر” سے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا اور اسے پاکستان کے ”ویژن 2047” کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ یہ منصوبہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں بلکہ ایک ایسے خواب کی عملی تعبیر ہے جس کا آغاز 1961 میں اُس وقت ہوا تھا جب پاکستان نے خلائی تحقیق کے لیے سپارکو کی بنیاد رکھی تھی۔ہائپرا سپیکٹرل سیٹلائٹ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جو زمین کی سطح کی ہر پرت کا تجزیہ سینکڑوں اسپیکٹرل بینڈز میں کرتی ہے ۔ اس کے ذریعے کسی علاقے کی مٹی، فصل، پانی، معدنی وسائل اور ماحولیاتی تغیرات کا غیر معمولی درستی کے ساتھ مشاہدہ ممکن ہوتا ہے ۔ ”HS-1” سیٹلائٹ میں نصب سینسر زمین سے واپس آنے والی روشنی کے مختلف طول موج (wavelengths) کو اس باریکی سے ریکارڈ کرتے ہیں کہ انسانی آنکھ سے پوشیدہ فرق بھی نمایاں ہو جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کھیت میں بیماری پھیلنے سے پہلے ہی فصل کے رنگ میں معمولی تبدیلی کا سراغ لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح پانی کے ذخائر میں آلودگی یا سمندری پودوں کی کیفیت کا مشاہدہ بھی اس ٹیکنالوجی سے ممکن ہے ۔ یہ صلاحیت پاکستان کے لیے زراعت، ماحولیاتی تحفظ، قدرتی وسائل کے درست استعمال، اور شہری منصوبہ بندی میں انقلاب برپا کر سکتی ہے ۔
اسپارکو کے مطابق ”HS-1”سیٹلائٹ پاکستان کے خلائی پروگرام میں وہ مرحلہ ہے جہاں سے مقامی ڈیٹا کی خود مختار فراہمی ممکن ہوگی۔ اب تک ملک کو زمین کے مشاہدے کے لیے غیر ملکی سیٹلائٹس پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اس سے نہ صرف معلومات تک رسائی محدود تھی بلکہ سلامتی کے کئی پہلوؤں پر بھی اثرات مرتب ہوتے تھے ۔ اب یہ سیٹلائٹ پاکستان کو اپنے موسمیاتی پیٹرنز، زمینی ساخت اور زرعی پیداوار کے متعلق براہ راست ڈیٹا فراہم کرے گا۔ ماہرین کے مطابق اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشگی آگاہی میں بھی مدد ملے گی، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے نہایت اہم ہے جہاں 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ماحولیاتی خطرات کی سنگینی کو واضح کیا۔
یہ لانچ چین اور پاکستان کے دیرینہ سائنسی تعاون کا عملی مظہر بھی ہے ۔ چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (CNSA) کے اشتراک سے کی جانے والی یہ لانچ نہ صرف دوستی کی علامت ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں خلائی تحقیق کے نئے امکانات کو بھی روشن کرتی ہے ۔ چین نے اس سے قبل بھی پاکستان کے مواصلاتی سیٹلائٹ ”پاک سیٹ-1 آر” کو 2011 میں لانچ کرنے میں مدد دی تھی، مگر ”HS-1”پہلی مرتبہ ایسا منصوبہ ہے جو جدید ”ہائپر ا سپیکٹرل امیجنگ” ٹیکنالوجی سے لیس ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی دنیا میں صرف چند ممالک کے پاس موجود ہے جن میں امریکہ، چین، فرانس، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔ پاکستان اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے ، جو اپنی زمین کا سائنسی و تکنیکی سطح پر تجزیہ خود کر سکتے ہیں۔
”ویژن 2047” کے تحت پاکستان نے جو حکمتِ عملی مرتب کی ہے ، اس کا مقصد ملک کو اگلی دو دہائیوں میں خود کفیل سائنسی طاقت میں تبدیل کرنا ہے ۔ اس ویژن کے اہم نکات میں قومی خلائی پالیسی، مصنوعی ذہانت، ری موٹ سینسنگ، موسمیاتی تحقیق، اور دفاعی ٹیکنالوجی کا امتزاج شامل ہے ۔ ”HS-1”ان تمام ستونوں کو مضبوط بنانے والا پہلا قدم ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہ سیٹلائٹ 600 کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں گردش کرے گا اور روزانہ پاکستان کے مختلف حصوں کی سینکڑوں تصاویر لے گا۔ اس کے ذریعے زمین کی سطح کے مختلف حصوں سے حاصل شدہ معلومات کو ایک ڈیجیٹل نقشے کی صورت میں ترتیب دیا جائے گا، جو پالیسی سازی اور سائنسی تحقیق میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔
زراعت پاکستان کی معیشت کا ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ اندازہ ہے کہ ملک کی کل آبادی کا 38٪ براہ راست اسی شعبے سے وابستہ ہے ۔ مگر بدلتے موسمی حالات، پانی کی قلت اور غیر مستحکم زرعی پالیسیوں نے کسانوں کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ”HS-1” کی مدد سے فصلوں کی افزائش، آبپاشی کے نظام، اور زمین کی زرخیزی کے بارے میں حقیقی وقت ڈیٹا حاصل کیا جا سکے گا۔ اس ڈیٹا سے حکومت بہتر زرعی پالیسیاں بنا سکے گی، جبکہ کسانوں کو بروقت معلومات ملنے سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو گا۔اسی طرح قدرتی آفات کی پیشگوئی میں بھی یہ سیٹلائٹ ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے ۔ ہائپر سپیکٹرل امیجنگ کی مدد سے زمین کی پرتوں میں ہونے والی معمولی تبدیلیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جس سے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب یا خشک سالی جیسے خطرات کا قبل از وقت اندازہ لگایا جا سکے گا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں پہاڑی تودے گرنے اور دریاؤں کی سطح میں اچانک اضافے جیسے واقعات کی نگرانی ”HS-1”سے زیادہ مؤثر طریقے سے ممکن ہوگی۔
اس سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل ہونے والا ڈیٹا ماحولیاتی پالیسیوں میں بھی بنیادی کردار ادا کرے گا۔ صنعتی آلودگی، جنگلات کے خاتمے اور شہری پھیلاؤ کے اثرات کا درست اندازہ صرف خلائی تصویروں سے لگایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان میں جنگلات کی تیزی سے ختم ہوتی ہوئی شرح ایک سنگین ماحولیاتی المیہ بنتی جا رہی ہے ۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً 27,000 ہیکٹر جنگلات صفحئہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، جو زمینی توازن، ماحولیاتی تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے لیے شدید خطرہ ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اُن ممالک میں شامل
ہے جہاں جنگلات کا رقبہ کل زمینی علاقے کے محض 5.1% کے قریب رہ گیا ہے ، جب کہ عالمی اوسط تقریباً 31٪ ہے ۔ یہ تشویشناک صورتِ حال نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے بلکہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ، بارشوں کے نظام میں بگاڑ، زمین کے کٹاؤ اور حیوانی و نباتاتی زندگی کے خاتمے جیسے مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ملک کے کئی علاقے تیزی سے بنجر ہو رہے ہیں اور مقامی آبادی کو پانی کی قلت، زرعی زرخیزی میں کمی اور موسمیاتی تغیرات کے منفی اثرات کا سامنا ہے ۔ جنگلات کی کٹائی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں انسانی لالچ، غیر قانونی لکڑی کا کاروبار، زمینوں کی رہائشی و صنعتی تبدیلی، اور آگ لگنے کے واقعات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر فوری سطح پر قومی سطح پر جنگلات کے تحفظ، شجرکاری کے فروغ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے چند دہائیوں میں پاکستان کا ماحولیاتی نقشہ ناقابلِ واپسی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے ۔
”HS-1”ان تبدیلیوں کی مسلسل نگرانی کر کے حکومت کو علاقوں کی نشاندہی میں مدد دے گا جہاں فوری اقدامات درکار ہوں۔یہ منصوبہ پاکستان کے نوجوان سائنس دانوں اور انجینئرز کے لیے بھی ایک محرک قوت بن سکتا ہے ۔ سپارکو کی قیادت نے واضح کیا ہے کہ ملک میں خلائی علوم کے فروغ کے لیے نئے تحقیقی مراکز اور تربیتی پروگرام شروع کیے جائیں گے ۔ تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت، ریموٹ سینسنگ، اور ڈیٹا تجزیہ سے متعلق کورسز متعارف کرانے کا منصوبہ ہے تاکہ ”ویژن 2047” صرف ایک حکومتی دستاویز نہ رہے بلکہ قومی جذبے کی صورت اختیار کر لے ۔
تاہم اس عظیم پیشرفت کے ساتھ چند چیلنجز بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ اور تکنیکی خودمختاری کا ہے ۔ پاکستان کو اس شعبے میں چین پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنی اندرونی سائنسی بنیاد مضبوط کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ خلائی ڈیٹا کے سیکیورٹی پہلو بھی اہم ہیں کیونکہ ہائپرا سپیکٹرل ڈیٹا حساس نوعیت کا ہوتا ہے اور اس کا غلط استعمال ممکن ہے ۔ اس لیے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر ضابطے (regulations) مرتب کرنا ناگزیر ہیں۔
اب جبکہ ”HS-1” پاکستان کے مدار میں گردش کر رہا ہے ، تو ضروری ہے کہ اس کے ثمرات صرف اعداد و شمار تک محدود نہ رہیں بلکہ عوامی فلاح میں ڈھل جائیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو چاہیئے کہ وہ حاصل شدہ معلومات کو زرعی، ماحولیاتی، شہری اور تعلیمی شعبوں میں عملی منصوبہ بندی سے جوڑے ۔ کسانوں کے لیے موبائل ایپس، یونیورسٹیوں کے لیے تحقیقی ڈیٹا بیس، اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے فوری معلوماتی نظام تشکیل دیا جائے تاکہ یہ ٹیکنالوجی براہ راست عوامی زندگی میں اثر انداز ہو۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ محض ایک سیٹلائٹ لانچ نہیں بلکہ اپنی علمی خودمختاری کی بازیافت ہے ۔ جب ایک ترقی پذیر ملک اپنی زمین، فضا اور ماحول کی نگرانی کے لیے خود ساختہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے لگتا ہے تو یہ اس کے فکری عزم کی دلیل ہوتا ہے ۔”HS-1” دراصل اس اعتماد کی علامت ہے کہ ہم علم، تعاون اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ روشنی ہے جو نہ صرف آسمان میں چمک رہی ہے بلکہ پاکستان کے نوجوان ذہنوں میں امید کا نیا چراغ روشن کر رہی ہے ، اور یہی وہ سمت ہے جسے ”ویژن 2047” نے نشان زد کیا ہے ایک خود مختار، سائنسی اور مضبوط پاکستان کی سمت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ وجود منگل 04 نومبر 2025
پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ

پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب وجود منگل 04 نومبر 2025
پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب

چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی وجود منگل 04 نومبر 2025
چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی

بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان وجود پیر 03 نومبر 2025
بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان

مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں وجود پیر 03 نومبر 2025
مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر