... loading ...
محمد آصف
پاکستان آج ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ” کا نعرہ محض ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ ایک قومی
ضرورت بن چکا ہے ۔ وطن عزیز گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی انتشار، ذاتی مفادات، بداعتمادی، ادارہ جاتی کمزوری، اور اخلاقی انحطاط کے
بھنور میں پھنسا ہوا ہے ۔ ہر دور میں سیاست کو ریاست پر ترجیح دی گئی، اقتدار کو خدمت پر فوقیت ملی، اور قومی مفاد ذاتی مفادات کی بھینٹ
چڑھ گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے معاشی، سیاسی، سماجی، اور ادارہ جاتی ڈھانچے کمزور ہو چکے ہیں، عوام مایوسی کا شکار ہیں، اور نوجوان طبقہ
اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ ایسے میں یہ نعرہ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ” ایک بیداری کی پکار ہے جو ہمیں
یاد دلاتا ہے کہ اگر ریاست باقی نہیں رہے گی تو سیاست، مفادات اور اختلافات سب مٹ جائیں گے ۔
ریاست دراصل ایک اجتماعی امانت ہے جو قوم کے اتحاد، عدل، اور اعتماد پر قائم رہتی ہے ۔ جب سیاست اس امانت کو ذاتی مقاصد،
طاقت کے کھیل، اور انتقام کی بنیاد پر استعمال کرے تو ریاست کی جڑیں ہلنے لگتی ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ یہاں سیاستدانوں نے
ریاست سازی کی بجائے اقتدار سازی پر توجہ دی۔ پارلیمان، عدلیہ، اور انتظامیہ جیسے ادارے ، جو ریاست کے ستون ہیں، سیاسی مداخلتوں
کے باعث اپنی غیرجانبداری کھو بیٹھے ۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر خاندانی تسلط کو دوام دیتی رہیں، نظریاتی سیاست مفاداتی گروہ
بندیوں میں بدل گئی، اور عوامی خدمت کے وعدے محض انتخابی نعروں تک محدود رہ گئے ۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں یہ نعرہ جنم لیتا ہے کہ
پہلے ریاست کو بچایا جائے ، کیونکہ اگر ریاست کا وجود خطرے میں ہے تو سیاست کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔
”ریاست بچاؤ” کا مطلب سیاست کو ختم کرنا نہیں بلکہ سیاست کو درست سمت میں لانا ہے ۔ سیاست دراصل عوامی خدمت، عدل،
مساوات، اور اجتماعی فلاح کا ذریعہ ہے ، مگر جب یہی سیاست ذاتی مفادات، کرپشن، منافقت، اور نفرت کے زہر میں ڈوب جائے تو
ریاست کا وجود خطرے میں آ جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہی ہوتا رہا۔ یہاں سیاستدانوں نے قومی اداروں کو اپنی طاقت بڑھانے
کا ذریعہ بنایا، عوام کو نعروں میں الجھایا، اور ملک کو قرضوں، مہنگائی، اور بداعتمادی کے دلدل میں دھکیل دیا۔ جب ملک میں معیشت کمزور ہو،
ادارے غیر مؤثر ہوں، عدل ناپید ہو، اور عوام تقسیم در تقسیم ہوں تو دشمن طاقتوں کو ریاست کمزور کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ یہی وہ لمحہ ہے جب
ہمیں اجتماعی طور پر سمجھنا ہوگا کہ سیاست وقتی ہے ، مگر ریاست دائمی ہے ؛ اقتدار عارضی ہے ، مگر وطن ابدی ہے ۔
ریاست کی بقا کا دار و مدار انصاف، مساوات، اور قانون کی بالادستی پر ہے ۔ اگر سیاست قانون کے تابع نہیں بلکہ قانون سیاست کے
تابع بن جائے ، تو ریاست کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ آج پاکستان میں یہی صورتحال ہے ۔ آئین کی تشریح بھی سیاسی مفاد کے مطابق کی
جاتی ہے ، اداروں کی تعیناتیاں بھی وفاداری کی بنیاد پر ہوتی ہیں، اور انصاف کا نظام کمزور طبقے کے لیے اور طاقتور کے لیے الگ دکھائی دیتا
ہے ۔ ”ریاست بچاؤ” کا مطلب یہی ہے کہ سب کو آئین اور قانون کے تابع لایا جائے ، عدل کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے ، اور ذاتی
دشمنیوں اور انتقام کی سیاست کو دفن کر دیا جائے ۔ یہ پیغام ہے کہ اگر سیاست دان اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے تو تاریخ ان کے
نام کو عبرت کی مثال بنا دے گی۔ریاست کو بچانے کے لیے سب سے پہلے قومی اتفاق رائے ضروری ہے ۔ سیاسی جماعتوں، مذہبی
رہنماؤں، عدلیہ، فوج، میڈیا، اور عوام سب کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کس پاکستان میں جینا چاہتے ہیں ۔ایک ایسا پاکستان جہاں ہر فیصلہ
اصولوں، عدل، اور عوامی فلاح کے مطابق ہو، یا ایک ایسا پاکستان جہاں سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف بیانیے بناتے رہیں اور دشمن
قوتیں فائدہ اٹھاتی رہیں۔ قومی مفاہمت اور اجتماعی شعور کے بغیر ریاست کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔ سیاستدان اگر ملک کو اپنی انا اور اقتدار کی
جنگ سے نکالنے کے لیے ایک میز پر بیٹھ جائیں تو بہت سے بحران خود بخود حل ہو جائیں۔ یہی”ریاست بچاؤ” کی اصل روح ہے تقسیم
نہیں، اتحاد۔ نفرت نہیں، برداشت۔ ذاتی مفاد نہیں، قومی مفاد۔
ریاست کے استحکام کے لیے معیشت کی بحالی بھی ناگزیر ہے ۔ ایک کمزور معیشت کبھی مضبوط ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ بدقسمتی
سے ہماری سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ معیشت کو نعرہ تو بنایا مگر عملی اقدامات کبھی نہیں کیے ۔ غیر ملکی قرضوں پر انحصار، درآمدی معیشت، ٹیکس
نیٹ کی کمزوری، توانائی بحران، اور کرپشن نے ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔ اگر معیشت کمزور ہو تو تعلیم، صحت، دفاع، سب متاثر ہوتے ہیں۔ ”ریاست بچاؤ” کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم خود کفالت کی راہ اختیار کریں، قومی وسائل کو ایمانداری سے استعمال کریں، اور نوجوانوں کو
ہنر، تعلیم، اور مواقع فراہم کریں تاکہ وہ ریاست کے معمار بن سکیں نہ کہ مایوس شہری۔ ریاست کو بچانے کے لیے عوام کا کردار سب سے اہم
ہے ۔ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاستدان وہی کرتے ہیں جس کی اجازت عوام دیتے ہیں۔ اگر عوام خود شعور، دیانت، اور وطن دوستی کا مظاہرہ
کریں تو سیاست خود بخود درست سمت میں آ جائے گی۔ ووٹ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک امانت ہے ، ایک فیصلہ ہے کہ ہم کس سمت
جانا چاہتے ہیں۔ جب عوام ذات، برادری، اور وقتی فائدے سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں فیصلہ کریں گے تو ریاست مضبوط ہوگی یہی حقیقی
جمہوریت ہے ۔عوامی بیداری، قومی اتحاد، اور اجتماعی خدمت۔
”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ” کا پیغام ہمیں اپنی تاریخ سے بھی سیکھنا چاہیے ۔ ماضی میں جب بھی قومیں سیاسی انتشار میں الجھیں،
ان کی ریاستیں ٹوٹ گئیں۔ سقوطِ ڈھاکہ اس کی ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ جب سیاست ریاست پر غالب آ جائے تو انجام تباہی ہوتا ہے ۔
ہمیں دوبارہ وہ غلطی نہیں دہرانا چاہیے ۔ آج بھی اگر ہم نے عقل، شعور، اور تدبر سے کام نہ لیا تو خدانخواستہ تاریخ ایک اور المیہ لکھ سکتی ہے ۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں ۔ ذاتی مفاد نہیں، قومی سلامتی؛ اقتدار نہیں، استحکام؛ سیاست نہیں،
ریاست۔ ریاست کا بچاؤ کسی ایک طبقے ، جماعت یا ادارے کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ اگر ہم سب مل کر
ایمان، اتحاد، اور نظم کے اصولوں پر عمل کریں، تو کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ سیاست تبھی مقدس بنے گی جب وہ ریاست
کے تحفظ اور عوام کی خدمت کے لیے ہوگی۔ اگر سیاست کو اصلاح، امانت، اور عدل کی بنیاد پر استوار کر لیا جائے تو یہی سیاست ریاست کو
مضبوط بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔
آیئے اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں لہٰذا آج ہر پاکستانی کے دل سے یہ صدا اٹھنی چاہیے ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ”کیونکہ
ریاست باقی رہے گی تو سیاست بھی رہے گی، عوام بھی، آزادی بھی، اور پاکستان بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔