وجود

... loading ...

وجود

پاک افغان مذاکرات

جمعرات 30 اکتوبر 2025 پاک افغان مذاکرات

حمیداللہ بھٹی

دوست ممالک پاک افغان قیادت کو اکٹھاتوبٹھاسکتے ہیں لیکن اپنے مسائل کو دونوں ممالک نے خود ہی حل کرناہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قطراورترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے دونوں ممالک کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے، جس سے مستقبل کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوتاہے۔ کیونکہ مذاکرات سے حل طلب مسائل جوں کے توں ہیں جس کی بناپر ایسے خیال کوتقویت ملتی ہے کہ دونوں طرف بداعتمادی کی فضاہے۔ یہ صورتحال خطے کے امن کے لیے ہرگز مثبت پیش رفت نہیں۔ قطرکی میزبانی میں مذاکرات کے پہلے دور میں سیز فائر جاری رکھنے پر اتفاق سے امن کی کچھ امیدبندھی مگر ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والے بے نتیجہ مذاکرات نے مزید توقعات کی جگہ نہیں چھوڑی۔ اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ امن کے حوالے سے اب یقین سے کہناازحد مشکل ہے۔
پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان رجیم کی طرف سے دہشت گردی کی سرپرستی نامنظورہے۔ اِس لیے اُنھیں ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنا ہوں گے مگر اِس کے برعکس طالبان کا موقف غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کرہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں نہ تو اپنے ملک اور عوام کے مسائل کا کچھ احساس ہے اور نہ ہی وہ ہمسایہ ممالک کی بداعتمادی دورکرنے میں سنجیدہ ہیں۔ وہ بظاہر کسی اور ہی ایجنڈے پر عمل پیرالگتے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔ بلکہ افغانستان اورخطے کے استحکام سے متصادم ہے۔ اسی لیے طالبان کے متعلق خدشات میں اضافہ ہورہاہے۔ مذاکرات میں مزید پیش رفت طالبان کے رویے پر منحصر ہے۔ اگر دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھتے ہیں توپاکستان کو خود کارروائی کرنے کا جوازملے گا جس سے افغانستان مزید غیر مستحکم اور غیر یقینی صورتحال کاشکارہوسکتاہے۔
پاکستان کا مطالبہ ہے کہ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلاتفریق اور قابل تصدیق کارروائی کی جائے تاکہ اچھے ہمسایوں اور بھائی بندی پر مبنی تعلقات کو فروغ ملے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مزید لچک دکھاناممکن نہیں رہے گا کیونکہ چار عشروں سے زائد لاکھوں افغانوں کی میزبانی ،افغانوں کو آزادی وخود مختاری دلانے اورتجارتی مراعات دینے کے باوجود طالبان کاپاکستان مخالف عناصر سے گٹھ جوڑ ناقابلِ فہم ہے ۔اسی گٹھ جوڑ نے آج دونوں ممالک کو اِس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ مذہبی وثقافتی رشتوں کے باوجود ہتھیار اُٹھانے کی نوبت آئی جس کی زیادہ ذمہ دار افغان رجیم ہے جونہ توافغان عوام کی حقیقی نمائندہ ہے اورنہ ہی ملک پر مکمل رَٹ رکھتی ہے۔
افغان طالبان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کااعتماد ہر حوالے سے اُن کے لیے اہم ہے ۔یہ پاکستان ہی ہے جو افغانستان کے منجمد اربوں ڈالر واپس کرنے کا دنیا سے مطالبہ کرتا ہے ۔پاکستان کی حدود اور بندرگاہیں افغانستان کے لیے تجارتی حوالے سے ناگزیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی رٹ بھی پاکستان کی مدد سے بہترہو سکتی ہے۔ لیکن دولت کی ہوس نے اُن کی حدِ نظراِس حدتک کم کردی ہے کہ بھارت کے سوادنیا میں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔اسی لیے پاکستان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کی عملداری کے حصوں اورسرحدکو متنازع بنانے کی حماقت کرنے والے افغان یہ بھول جاتے ہیں کہ جوہری پاکستان اِس وقت مسلم اُمہ کی امید ہے ،جسے مقاماتِ مقدسہ کے دفاع کی سعادت بھی حاصل ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کیا جاتامگراِس کی بجائے مسائل پیداکیے جا رہے ہیں اسی لیے ہونے والی دراندازی روکنے کے لیے پاکستان اپنے حفاظتی دستوں کوتحرک میں لانے پر مجبورہواہے۔ مزید افسوسناک امریہ ہے کہ اب بھی طالبان زمینی حقائق کے ادراک سے قاصرہیں ۔
افغان رجیم بضد ہے کہ اُس کی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہورہی اور نہ ہی اُس کی حدودمیں علیحدگی پسند دہشت گردوںیا شدت پسند گروہوں کے ٹھکانے ہیں۔ مگرپاکستان سرحد پار سے ہونے والی دراندازی کے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرچکا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بی ایل اے جیسے علیحدگی پسندوں اور ٹی ٹی پی و داعش جیسے شدت پسندوں کوبھارت کی سرپرستی اور طالبان کی سہولت کاری حاصل ہے مگر قطر مذاکرات میں جب پاکستان نے ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے تقاضاکیا کہ آپ دس ارب روپے دے دیں تو ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحدوں سے دور منتقل کردیتے ہیں جس سے طالبان کی ٹی ٹی پی سے تعاون و ہمدردی بے نقاب ہوگئی۔ مزیدچونکانے کاباعث بھارت سے ایک ارب ڈالر کی امداد لیکر دریائے چترال پر ڈیم بنا کر پاکستان کاپانی روکنے کا فیصلہ کرناہے۔ قبل ازیں ملا امیر متقی اپنے دہلی دورے کے دوران جموں وکشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملا قرار دے چکے ۔مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف بھارتی پراکسی ہیں ۔
یہ صیغہ راز میں نہیں رہاکہ حالیہ پاک افغان جھڑپوں کے دوران اسلحہ و گولہ بارود کے بھارتی ماہرین افغانستان آئے جو روس اور امریکہ کا چھوڑا گیا اسلحہ دوبارہ قابلِ استعمال بنانے میں طالبان کی مددکرتے رہے سوال یہ ہے کہ جنونی بھارتی حکومت جو اسلام اور مسلمانوں کا دنیا سے نام و نشان مٹاناچاہتی ہے، وہ کیوں طالبان پرمہربان ہے؟اِس کا جواب یہ ہے کہ افغانستان کا امن و استحکام یا خوشحالی نہیں بھارت کے پیشِ نظر پاکستان سے نفرت ہے اور دوہمسایہ اسلامی ممالک کو لڑا نابھی اسلام دشمنی ہی ہے جوطالبان سمجھ نہیں پا رہے اور بھارت کا آلہ کار بن کرپاکستان سے اُلجھ رہے ہیں۔ حالانکہ اِس کی اُن میں سکت نہیں ہے ۔بھارت کو افغانوں سے پیار نہیں، اگر ہوتاتو افغان مہاجرین کوپاکستان سے اپنی سرزمین پر منتقل کرلیتا لیکن دولت کی ہوس میں طالبان سمجھ نہیں پا رہے اور پاک افغان عوام کولڑا کر احسان فراموشی پر اُترآئے ہیں۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں سے دونوں ممالک کی عوام میں کدورت ونفرت کی جوخلیج طالبان حماقتوں سے پیدا ہوئی ہے اگر آج وہ اپنی سرزمین ہمسایوںکے خلاف استعمال نہ ہونے دیں تو دونوں ممالک کے تعلقات بہترہوجائیں۔
اسلامی ممالک میں برسرِ پیکار شدت پسند تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،اگر ہوتا تو خلاف ہتھیار اُٹھاکر اسلامی ممالک کوکمزورنہ کرتیں۔ یہ شدت پسند گروہ محض مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیتے ہیں۔ طالبان بھی ایسی ہی قسم ہیں اسی لیے پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں ہمرکاب ہیں۔ قطر،سعودی عرب اور ترکیہ کی کوششوں سے بات چیت کا عمل خوش آئند اور باعثِ اطمنان سہی مگر جب تک طالبان قیات پاکستان مخالف ایجنڈاترک نہیں کرتی تب تک دونوں ممالک میں خوشگواراور برادرانہ تعلقات کا خواب دیکھنامناسب نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق

سیاست نہیں، ریاست بچاؤ قومی بقا کا پیغام وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
سیاست نہیں، ریاست بچاؤ قومی بقا کا پیغام

پاک افغان مذاکرات وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
پاک افغان مذاکرات

آزادی تحریکیں،بھارت کے لیے خطرہ وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
آزادی تحریکیں،بھارت کے لیے خطرہ

آفتاب احمد خانزادہ وجود بدھ 29 اکتوبر 2025
آفتاب احمد خانزادہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر