وجود

... loading ...

وجود

آفتاب احمد خانزادہ

بدھ 29 اکتوبر 2025 آفتاب احمد خانزادہ

اونچ نیچ
۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

۔۔۔
انیسویں صدی کے جرمن تاریخ دان لیو پولڈوان رینکے نے اپنی تصنیف میں ماضی کو طاقت کی تاریخ قراردیا۔ طاقت بنیادی طورپر وہی قوت محرکہ ہے جس کی بات چارلس ڈارون اور کارل مارکس نے کی۔ ایک نے اس کو حیاتیا ت میں جبکہ دوسرے نے اس کو معاشیات میں کارفرمار دیکھا ۔ نطشے کہتا ہے فرد ہمیشہ طاقت کا طلب گار ہوتاہے۔ ہر دور نے طاقت کی سیاست کے مضمرات دیکھے ہیں۔”اقتدار کی ہوس”ٹیکی ٹس لکھتا ہے تمام جذبوں سے زیادہ شدید ہے یہ ایک ایسی بھوک ہے جس کی تسکین کبھی نہیں ہوتی۔ انصاف طاقتور کی صوابدید ہے ۔کمزور ریاستیں،جارحیت کو دعو ت دیتی ہیں۔ یہ اصول اگر چہ انتہائی مکروہ ہے لیکن دنیا کے واقعات کو اکثر و بیشتر اسی نے جنم دیا ہے۔
یہ تصور کہ طاقت کو انصاف پر فوقیت حاصل ہے یورپ کے بہت سے مفکر ین کو پسند نہ آیا ان سب کا اصرار تھا کہ انسانی افعال چاہے سیاسی ہوں ،طا قت نہیں بلکہ اخلاقیات کے زیر اثر ہونے چاہئیں۔ ان سب نے طاقت کی برتری کی مذمت کی انہوں نے کہا طاقت، اختیار بدعنوانی کا پیش خیمہ ہے اور مطلق اختیارمطلق بدعنوانی کو جنم دیتا ہے۔ طاقت ایک زہر ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ یہ زہر مسو لینی، ہٹلر، اسٹالن اور ماضی قریب کے دیگرآمروں کی زندگیوں نے اگلا اور لاکھوں انسانوں کو سنگدلی سے موت کی وادی میں اُتار دیا ۔ ہمارا ماضی اور حال بھی طاقت کی تاریخ ہے۔ ہم نے بھی طاقت کی طلب گاری کی خواہش مندی کے ہاتھوں بہت زخم اٹھائے ہیں۔ آج ہم جن عذابوں سے دوچار ہیں ان کے خالق و ہی طاقت کے طلبگا رہی ہیں ۔ طاقت کی خواہش مندی ایک ذہنی بیماری ہے ۔یہ بیماری احساس محرومی یا کمتری سے جنم لیتی ہے ۔ اس بیماری میں مبتلا انسان انتہائی خطرناک اور زہریلا ہوجاتا ہے جبکہ نارمل آدمی طاقت (اختیارات) اپنی ذات میں جمع کرنے کے بجائے اس کی تقسیم پر یقین رکھتاہے ۔کیونکہ طاقت (اختیارات ) کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں اور فرد عوام کا ہی ایک جزہے ۔جب عوام طاقتور ہوتے ہیں تو ملک اور اس کے تمام ادارے خو د بخود طاقت ور ہوجاتے ہیں اور جب عوام کمزور اور لاغر ہوتے ہیں تو بظاہر طاقتور نظر آنے والی ریاست اور اس کے ادارے حقیقتاًانتہائی کمزور ہوتے ہیں ۔
دنیا میں ایک اور طاقت بھی ہے جس نے آج خود کو تلوار اور طاقت سے زیادہ موثر ثابت کیا ہے۔ انجیل کہتی ہے ابتداء میں صرف کلام تھا۔ رو م نے پہلے یور پ کو تلوار سے فتح کیا لیکن پھر زیادہ وسعت سے حضر ت عیسیٰ کے کلام کے ذریعے ۔ حضرت محمد ۖ ، حضرت عیسیٰ السلام ، لوتھر ، مارکس کے پاس کوئی لشکر نہیں تھا ،کوئی خزانہ نہیں تھا۔ لیکن ان کے لفظوں (نظریات ) نے تاریخ بدل کر رکھ دی ۔ آج (حال ) لفظوں (نظریات) کی طاقت کی صدی ہے ۔ لفظوں (نظریات) کی طاقت نے آج وہ کچھ کر دکھا یا ہے جسے ماضی میں طاقت نے برباد کر ڈالا تھا۔ اسی طاقت کی وجہ سے انسان نے اپنی تباہ شدہ زندگیوں میں ایسی بے زبان شجاعت کا ظہور دیکھا ہے جو تشدد کرنے والی شیطانیت کو غارت گر ،تشدد کو اور بے مقصد اوچھے پن کو اپنی خاموشی سے للکارتی ہے ۔
سقراط نے کہا ہے ایسی زندگی جس کا جائز ہ نہیں لیا گیا رہنے کے قابل نہیںہوتی ۔دنیا بھر میں نئی صبح کاآغاز ہوچکا ہے۔ نفرت ، تعصب ، دوسروں کو کم ترسمجھنے کی تمام دیواریں گرادی گئیں ہیں۔انسان اپنے تلخ ماضی کو بھلا کر محبت کے اجالے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھ رہا ہے۔ انسانوں کے اصل دشمن، جہالت ، بیماریوں ، نفرتوں ، تعصب ، انتہاپسندی ، رجعت اور قدامت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے ، جبکہ دوسری طرف جہالت، نفرتوں ، تعصب کی خواہش ، رجعت و قدامت پرستی کے مردوں کو دفن کر نے کے بجائے ہم اسے زندہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ آئیں ہم مل جل کر ایسے مستقبل کی تعمیر کریں جو ہمارے ارفع خوابوں جیسا عظیم ہو۔آئیے Terentius (قبل مسیح کے مشہور ڈرامہ نگار ، کے الفاظ سے استفادہ کرتے ہیں ”آدمی ، انسان ہونے کے ناطے جو کچھ انسانیت کو درپیش ہے اس سے پہلو تہی نہیں کر سکتا ”۔ یادداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہوجاتا ہے قید کے اس کوٹھری کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی ۔ کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے جس طرح آدمی خوابوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح وہ امید کے بغیر بھی نہیں ر ہ سکتا۔ اگر خواب ماضی کی یاد دلاتے ہیں تو امید مستقبل کو طلب کرتی ہے ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مستقبل ماضی کے مستر د کرنے کی بنیاد پر بنے گا ۔یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے موزوں نہیں، ماضی کا مقابل مستقبل نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتاہے۔ مستقبل کا مقابل ماضی نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتا ہے۔ بلاشبہ ہم ماضی کو بھلانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ کیا انسان کے لیے یہ فطری نہیں کہ جو کچھ اس کو دکھ پہنچا ئے یااسے شرمندہ کرے وہ اس کو دبائے ۔ تاریخ ہر عہد کے ذہن کی عکاسی و نمائندگی کرتی ہے۔ آج دنیا میں یہی دونوں طاقتیں یعنی تلوار اور الفاظ ( نظریات) ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہیں ۔دنیا کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ا س جنگ کا سامنا ہے۔ نپو لین کے ہاتھوں یورپ کی بڑی طاقتوں میں سے صرف انگلستان تباہی سے بچ سکا۔ سمندر جو نپولین کے لیے ایک معمہ ہوتا تھا اس کے اور انگلستان کے درمیان حائل تھا۔ انگلستان کو سمندر نے بچا لیا۔ سمندر سے ملے ہوئے تحفظ نے انگلستان کو عظیم اور دشمن سے بے نیاز بنا دیا۔ نپولین کی مہم جوئی کے آغاز ہی میں نیلسن نے جنگ نیل میں نپولین کا بحری بیڑہ تباہ کر دیا تھا۔ 21 اکتوبر1805 کو نیلسن نے ایک اوربحری تصادم میں اسپین کے جنوبی ساحل کے قریب اور کیپ ٹر یفلگر کے سامنے فرانس اور اسپین کے مشترکہ بحری بیڑے کو تباہی سے د و چار کیا۔ اس بحری جنگ سے کچھ دیر پہلے نیلسن نے اپنے بحری بیڑے کے عملہ کو مشہور پیغام دیا تھا کہ ” انگلستان توقع کرتاہے کہ ہر شخص اپنا فرض ادا کر یگا ”۔
نیلسن کا وہی مشہور پیغام آج پاکستانیوں کے لیے ہے کہ ”پاکستان توقع کر تا ہے کہ ہر شخص اپنا فرض ادا کریگا ” ۔ اور وہ طاقت کے بجائے الفاظ (نظریات ) کی طاقت پر یقین رکھنے والوں کا ساتھ دے گا ۔کیونکہ طاقت اور الفاظ (نظریات ) کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
آفتاب احمد خانزادہ وجود بدھ 29 اکتوبر 2025
آفتاب احمد خانزادہ

بھارتی ووٹر لسٹوں سے مسلمانوں کا اخراج وجود بدھ 29 اکتوبر 2025
بھارتی ووٹر لسٹوں سے مسلمانوں کا اخراج

آزادی، عدل ، انسانی وقار کی جنگ اور27اکتوبر وجود منگل 28 اکتوبر 2025
آزادی، عدل ، انسانی وقار کی جنگ اور27اکتوبر

مودی حکومت کی سفارتی لاپرواہی وجود منگل 28 اکتوبر 2025
مودی حکومت کی سفارتی لاپرواہی

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں پوٹس نہ ہو! وجود منگل 28 اکتوبر 2025
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں پوٹس نہ ہو!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر