وجود

... loading ...

وجود

آزادی، عدل ، انسانی وقار کی جنگ اور27اکتوبر

منگل 28 اکتوبر 2025 آزادی، عدل ، انسانی وقار کی جنگ اور27اکتوبر

محمد آصف

27 اکتوبر کا دن تاریخِ کشمیر میں ظلم و جبر، استحصال اور انسانی ضمیر کی شکست کا دن ہے ۔ یہ وہ سیاہ دن ہے جب 1947ء میں بھارت نے فوجی طاقت کے ذریعے جموں و کشمیر پر ناجائز قبضہ کر کے ایک ایسی طویل داستان کا آغاز کیا جو آج بھی لہو میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ یہ دن صرف کشمیری عوام کے زخموں کو تازہ نہیں کرتا بلکہ دنیا کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتیں واقعی انصاف، جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہیں، تو پھر سات دہائیوں سے جاری اس ظلم کے سامنے خاموش کیوں ہیں؟ 27 اکتوبر اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد، ایک مسلم اکثریتی ریاست کے عوام کی خواہشات کو روندتے ہوئے بھارت نے طاقت کے زور پر کشمیر پر قبضہ کیا۔ برطانوی استعمار کے جاتے ہی کشمیری عوام نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق مانگا، لیکن بھارتی فوجوں نے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتر کر ظلم و تشدد کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ الحاقِ کشمیر کا جو دعویٰ بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کے نام پر کیا، وہ نہ صرف غیر قانونی تھا بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے بھی خلاف تھا۔
اقوامِ متحدہ نے 1948ء میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا، مگر بھارت نے کبھی ان قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔ آج 77 سال گزرنے کے باوجود وہ وعدے جو عالمی برادری نے کشمیریوں سے کیے تھے ، ادھورے ہیں، اور ظلم کی سیاہ رات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کشمیر کی وادی، جو کبھی جنت نظیر کہلاتی تھی، اب آگ اور خون میں نہلا دی گئی ہے ۔ ہر گلی، ہر بستی، ہر پہاڑ، ہر ندی ظلم کی کہانیاں سناتا ہے ۔ وہاں کے ماؤں کے آنسو، بہنوں کی فریادیں، اور بچوں کی معصوم آنکھوں کا خوف انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ بھارتی فوج کے مظالم نے انسانی حقوق کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ ہزاروں نوجوان لاپتہ کر دیے گئے ، سینکڑوں خواتین کی عصمت دری ہوئی، اور درجنوں بستیاں راکھ بنا دی گئیں۔ پیلٹ گنز سے نوجوانوں کی بینائی چھینی گئی، تعلیمی ادارے بند کیے گئے ، اور ہر احتجاج کو بغاوت قرار دے کر خون میں ڈبو دیا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک، دراصل دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا چکا ہے جہاں ہر کشمیری قیدی ہے ۔
5 اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے آئین کی دفعات 370 اور 35-A کو ختم کر کے ظلم کی ایک نئی شکل اختیار کی۔ اس اقدام کے ذریعے بھارت نے نہ صرف کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی بلکہ کشمیریوں کی شناخت اور ان کے وجود کو مٹانے کی کوشش کی۔ وادی کو مکمل فوجی محاصرے میں لے لیا گیا، انٹرنیٹ، میڈیا، رابطے کے تمام ذرائع بند کر دیے گئے ، اور کشمیری عوام کو ان کی سرزمین پر اجنبی بنا دیا گیا۔ ہزاروں سیاسی رہنما گرفتار کیے گئے ، صحافیوں کو خاموش کر دیا گیا، اور نوجوانوں کو اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا۔ یہ سب اس لیے کہ وہ آزادی کا لفظ بولنے کی جسارت کرتے ہیں۔ بھارت نے دنیا کے سامنے ترقی، امن، اور جمہوریت کے نعروں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ، مگر کشمیر میں اس کا اصل چہرہ جابرانہ، فسطائی اور غیر انسانی ہے ۔ کشمیر کی جنگ بندوقوں کی جنگ نہیں بلکہ یہ ایک اصولی جنگ ہے آزادی، عدل، اور انسانی وقار کی جنگ۔ کشمیری عوام نے ہمیشہ اس حقیقت کو زندہ رکھا ہے کہ غلامی کبھی دائمی نہیں ہو سکتی۔ ان کے بزرگوں نے اپنے خون سے تاریخ لکھی، ان کے نوجوانوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر دنیا کو بتایا کہ ظلم کے سامنے سر جھکانا ان کے ایمان کے خلاف ہے ۔ کشمیر کے شہداء کی قربانیاں محض سیاسی تحریک نہیں بلکہ ایک روحانی جدوجہد ہیں جو ایمان، عزم اور صبر کی بنیاد پر کھڑی ہے ۔ کشمیر کی سرزمین پر ہر شہید کا خون یہ اعلان کرتا ہے کہ آزادی کی صبح ضرور طلوع ہوگی، چاہے ظلم کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو۔
پاکستان ہمیشہ سے کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا ہے ۔ 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ کے طور پر منانا صرف ایک رسمی عمل نہیں بلکہ یہ تجدیدِ عہد ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام اپنے کشمیری بھائیوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔ پاکستان کا مؤقف واضح اور اصولی ہے کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کے رائے شماری کے ذریعے ہونا چاہیے ، جیسا کہ اقوامِ متحدہ نے طے کیا تھا۔ پاکستانی عوام ہر سال سیاہ پرچم، ریلیوں، جلسوں، اور احتجاجوں کے ذریعے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کوئی علاقائی تنازع نہیں بلکہ انسانی وقار اور انصاف کا مسئلہ ہے ۔
عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دوغلی پالیسی ترک کرے ۔ جو طاقتیں یوکرین، فلسطین اور دوسرے علاقوں کے لیے انصاف کا نعرہ بلند کرتی ہیں، انہیں کشمیر کے خون آلود منظر نامے کو بھی دیکھنا چاہیے ۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہونا عالمی ضمیر کی ناکامی ہے ۔ اگر دنیا واقعی انسانی حقوق کی علمبردار ہے تو اسے بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خودارادیت دے ، فوجی محاصرہ ختم کرے ، اور ظلم و جبر کا سلسلہ بند کرے ۔
آج کا کشمیری نوجوان دنیا سے مایوس نہیں، وہ جانتا ہے کہ اس کی جنگ برحق ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ طاقتور اقوام کی خاموشی وقتی ہے ، لیکن تاریخ ہمیشہ مظلوموں کے حق میں فیصلہ کرتی ہے ۔ اس نوجوان کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہے ، اور اس کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے ہم کیا چاہتے ؟ آزادی! یہ نعرہ صرف احتجاج نہیں، بلکہ یہ اس عہد کی علامت ہے کہ عدل اور وقار کے بغیر زندگی بے معنی ہے ۔27 اکتوبر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ آزادی محض ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ یہ انسانی وقار، عدل اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم کے مقابلے میں خاموشی بھی جرم ہے ۔ کشمیر کی آزادی صرف کشمیریوں کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزادی ہے ۔ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا، جنوبی ایشیا میں امن ایک خواب ہی رہے گا۔ دنیا کے طاقتور اداروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بندوقوں سے قوموں کے حوصلے نہیں توڑے جا سکتے ، اور ظلم کے سائے میں ہمیشہ کے لیے حق کو دبایا نہیں جا سکتا۔
کشمیر کی وادیوں میں بہنے والی ہر ہوا، ہر چشمہ، ہر فضا آج بھی ایک ہی پیغام دے رہی ہے کہ انسانیت کا مستقبل صرف عدل اور آزادی میں ہے ۔ 27 اکتوبر کا یومِ سیاہ ہمیں عہدِ وفا، صبر اور استقامت کا پیغام دیتا ہے ۔ کشمیری قوم اپنی منزل کے قریب ہے ، اور وہ دن دور نہیں جب ظلم کے بادل چھٹ جائیں گے ، اور سری نگر کی فضاؤں میں آزادی کا پرچم لہرا کر یہ اعلان کیا جائے گا۔”یہ وادی خون سے نسلوں کی قربانی سے آزاد ہوئی ہے” ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
آزادی، عدل ، انسانی وقار کی جنگ اور27اکتوبر وجود منگل 28 اکتوبر 2025
آزادی، عدل ، انسانی وقار کی جنگ اور27اکتوبر

مودی حکومت کی سفارتی لاپرواہی وجود منگل 28 اکتوبر 2025
مودی حکومت کی سفارتی لاپرواہی

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں پوٹس نہ ہو! وجود منگل 28 اکتوبر 2025
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں پوٹس نہ ہو!

بیمار لوگ بیمار نظام صحت وجود پیر 27 اکتوبر 2025
بیمار لوگ بیمار نظام صحت

پاکستان کا سیاسی مستقبل وجود پیر 27 اکتوبر 2025
پاکستان کا سیاسی مستقبل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر