... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے ہمارے نظام صحت کا پول کھول دیا ہے، ان کاکہنا ہے کہ ملک میں ہیلتھ کیئر نہیں بلکہ سک کیئر سسٹم ہے یہ محض ایک طنزیہ جملہ نہیں بلکہ ہمارے نظامِ صحت کا چہرہ آئینے میں دکھا دیتا ہے۔ یہ وہ اعترافِ جرم ہے جو کسی اپوزیشن لیڈر نے نہیں بلکہ خود حکومتی وزیر نے کیا ہے سوال یہ ہے کہ اگر یہ سک کیئر سسٹم ہے تو اسے بنایا کس نے؟ اور درست کرے گا کون؟ہمارے ہسپتالوں میں علاج کے بجائے اذیت ملتی ہے ڈاکٹر وقت پر نہیں آتے دوائیں نایاب اور سہولتیں خواب بن چکی ہیں ۔بڑے شہروں کے چند ہسپتالوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں عوام بنیادی طبی سہولتوں سے محروم ہیں حکمرانوں کے لیے بیرونِ ملک علاج آسان ہے مگر عام آدمی کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں داخلہ بھی مشکل یہی دوہرا معیار ہمارے صحت کے نظام کی بنیادیں ہلا چکا ہے ایک طرف غریب کے بچے ویکسین نہ ملنے سے مر جاتے ہیں دوسری طرف اربوں روپے کی مشینری زنگ کھا رہی ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر صحت کا یہ اعتراف دراصل ایک سوال ہے کہ اگر نظام بیمار ہے تو اسے صحت مند کرنے کا علاج کہاں سے شروع ہوگا؟کیا صرف بیانات سے علاج ممکن ہے؟جب تک ایمانداری، احتساب اور خدمت کا جذبہ صحت کے شعبے میں واپس نہیں آتا تب تک ہر وزیر یہ کہتے رہیں گے کہ یہ ہیلتھ نہیں سک کیئر سسٹم ہے اور عوام یہ سوچتے رہیں گے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟
یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہمارے پورے نظامِ صحت کی بدنما تصویر صاف دکھائی دیتی ہے ہمارے ہسپتالوں میں علاج کے بجائے اذیت ملتی ہے غریب مریض بستر سے زیادہ فرش پر لیٹے نظر آتے ہیں دوائیں غائب ہیں، عملہ لاپرواہ اور انتظامیہ بے حس جہاں ڈاکٹر مسیحا بننے کے بجائے وقت گزارنے پر مجبور ہیں وہاں عوام کے لیے علاج ایک خواب بن چکا ہے وفاقی وزیر صحت خود کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا آبادی والا ملک بننے جا رہا ہے مگر کیا ہم نے ہسپتال، ڈاکٹر، نرسز اور ادویات اسی رفتار سے بڑھائی ہیں؟تو اسکا جواب ہے نہیں! مزید المیہ یہ ہے کہ انہی وزیر صحت کے بقول کراچی سے گلگت تک سیوریج کا پانی استعمال ہو رہا ہے سوچنے کی بات ہے کہ جب پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں تو بیماریوں کے علاج کا کیا حال ہوگا؟آلودہ پانی ہیپاٹائٹس، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور درجنوں بیماریوں کو جنم دے رہا ہے اور ہمارے ہسپتال ان ہی بیماریوں سے بھرے پڑے ہیں یہ کیسا نظام ہے جہاں آبادی اور بیماریاں رکنے کا نام نہیں لے رہی اگر دیکھا جائے تو وفاقی وزیر کا اعتراف دراصل سوال ہے اگر نظام بیمار ہے تو علاج کہاں سے شروع ہوگا؟کیا بیانات سے دوائی بنے گی؟ پاکستان میں صحت کا شعبہ ہمیشہ سے ایک دردناک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہو چکے ہیں مگر علاج معالجے کی سہولتیں اب بھی پچھلی صدی کے معیار پر کھڑی ہیں صحت کے حوالہ سے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سرکاری و نجی ہسپتالوں کی تعداد تقریباً 13 سو سے زائد ہے جن میں بڑے تدریسی اسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز، تحصیل ہیڈکوارٹرز اور دیہی مراکز صحت شامل ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہسپتال24 کروڑ آبادی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں؟ افسوس کہ جواب نفی میں ہے دیہی علاقوں میں اکثر مراکز صحت بند پڑے ہیں وہاں ڈاکٹر تو درکنار، بنیادی دوائیاں بھی دستیاب نہیں شہری علاقوں میں صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن وہاں بھی مریضوں کا رش، بستر کی کمی، پرانے آلات اور نااہلی کا رونا ہر روز سننے کو ملتا ہے بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں داخلے کے لیے سفارش، ٹوکن اور کبھی کبھار خوش قسمتی درکار ہوتی ہے گنگا رام، میو، پمز، جناح اور سول جیسے ہسپتال انسانیت کی آخری امید ضرور ہیں مگر ان کی حالت کسی جنگ زدہ ملک کے شفاخانوں سے مختلف نہیں دوسری طرف نجی ہسپتالوں نے علاج کو کاروبار بنا لیا ہے، فیسوں کے ایسے نرخ مقرر ہیں جو ایک عام شہری کی دسترس سے باہر ہیں آپریشن، سی سیکشن، یا ڈینگی کا علاج غریب آدمی کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ علاج اب صرف ان کا حق رہ گیا ہے جن کے پاس دولت ہے باقی عوام کے لیے دعا ہی واحد سہارا ہے حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات کوئی نہ لا سکا ۔اگر ہم اپنے بجٹ کا صرف دو فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد بھی صحت کے شعبے کو دے دیں تو بہتری ممکن ہے۔ دیہی مراکز صحت کو فعال بنانا ڈاکٹروں کو وہاں تعینات رکھنا اور ہر ضلع میں جدید تشخیصی مراکز قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔پاکستان کے عوام ٹیکس دیتے ہیں امید رکھتے ہیں کہ انہیں علاج کے وقت ذلت نہ اٹھانی پڑے مگر بدقسمتی سے آج بھی سڑک کنارے، بینچ پر یاہسپتال کے فرش پر دم توڑنے والے مریض ہمارے نظامِ صحت کے منہ پر تمانچہ ہیں ۔اس لیے حکمران ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی بچانے والے منصوبوں پر بھی توجہ دیں یونکہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے شہری صحت مند نہ ہوں۔ اوپر گنگا رام ہسپتال کا ذکر آیا ہے تو اس حوالہ سے عرض ہے کہ لاہور میںگنگا رام ہسپتال اپنی تاریخی اہمیت اور عوامی خدمت کی بدولت ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے، برسوں سے یہ ہسپتال غریب اور نادار مریضوں کے علاج کے لیے امید کی کرن سمجھا جاتا رہا ہے مگر آج اس عظیم ادارے کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہوتا ہے گنگا رام ہسپتال جو وزیرِ صحت اور سیکریٹری صحت کے دفاتر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے ۔صفائی ستھرائی کے معاملے میں شدید غفلت کا شکار ہے ہسپتال کے اردگرد اور اندرگندگی کے ڈھیر ، تعفن زدہ فضا اور کچرے سے اٹے راستے انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ حیرت ہے کہ جہاں سے روز وزیر، سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ افسران گزرتے ہیں، وہاں یہ منظر ہے تو باقی صوبے کا کیا حال ہوگا ؟یہ صرف صفائی کا مسئلہ نہیں بلکہ غفلت اور عدم احساسِ ذمہ داری کی داستان ہے مریض علاج کی امید میں آتے ہیں مگر گندگی، مکھیاں اور بدبو ان کے دکھوں میں اضافہ کر دیتی ہیں ۔کیا صحت کے ذمہ داروں کو معلوم نہیں کہ ہسپتال میں صفائی ہی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کی پہلی شرط ہوتی ہے؟
افسوس کا مقام یہ ہے کہ صفائی مہموں کے بڑے بڑے نعرے لگانے والے ادارے عملی میدان میں کہیں دکھائی نہیں دیتے حالانکہ ایک صاف ستھرا ہسپتال نہ صرف مریضوں کی صحت بہتر کرتا ہے بلکہ حکومت کی نیک نامی کا باعث بھی بنتا ہے اگر گنگا رام جیسا ادارہ بھی گندگی کے ڈھیر تلے دب جائے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نظامِ صحت صرف کاغذوں پر زندہ ہے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے ہسپتال صرف عمارتیں رہیں گے یا شفا خانے بھی بن پائیں گے اگر واقعی ہیلتھ کیئر سسٹم قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے عوام کو پینے کا صاف پانی، دیانت دار انتظامیہ اور عملی اصلاحات دینا ہوں گی ورنہ آنے والے سالوں میں تاریخ یہی لکھے گی کہ پاکستان میں ہیلتھ کیئر نہیں سک کیئر سسٹم تھا اور قوم خاموش تماشائی تھی!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔