وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج

اتوار 26 اکتوبر 2025 ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکہ کی تمام 50ریاستوں میں ‘نوکنگز’کے نام سے مظاہرے نیو یارک، بوسٹن، لاس اینجلس، شکاگو سمیت دیگر ریاستوں میں 2 ہزار 700 مظاہرے ، یہ حکومت ظالمانہ اور آمرانہ ہے ، مظاہرین، ریپبلکن رہنماؤں نے مظاہروں کو ‘ہیٹ امریکہ ریلیاں’قرار دے دیا۔امریکہ کی سڑکوں پر ایک بار پھر وہی منظر ابھرا جب لوگ جمہوری جذبے سے لبریز ہو کر سڑکوں پر نکلے ۔ نعروں میں گونج تھا ”No Kings” یعنی ”کوئی بادشاہ نہیں”۔ یہ نعرہ محض ایک احتجاجی جملہ نہیں بلکہ اس احساس کا اظہار تھا کہ جمہوری نظام میں اگر طاقت کا توازن بگڑ جائے تو عوامی اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے ۔ مظاہرین کا ماننا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے دوران ریاستی طاقت کو ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، اور یہی طرزِ عمل ان مظاہروں کا بنیادی سبب بنا۔ ان مظاہروں کا پس منظر اچانک نہیں بلکہ کئی برسوں پر محیط ہے ۔ مختلف رپورٹس کے مطابق احتجاج کی شدت میں اضافہ اس وقت ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی میں سختی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر چھاپے مارنے شروع کیے ۔لاس اینجلسسمیت کئی شہروں میں فیڈرل ایجنسیاں گھروں، دفاتر اور کمیونٹی سینٹرز میں داخل ہوئیں، اور متعدد غیر ملکیوں کو حراست میں لے لیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق صرف ایک ہفتے میں تقریباً 7,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ کارروائیاںآئی سی ای(امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ)کے اہلکاروں نے کیں، جنہوں نے عدالتوں، کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں تک چھاپے مارے ۔ اس سے نہ صرف خوف کی فضا پھیلی بلکہ عوام میں یہ احساس پیدا ہوا کہ حکومت طاقت کے غلط استعمال کی جانب بڑھ رہی ہے ۔
اسی دوران ایک اور پہلو نمایاں ہوا،جمہوری اداروں کی خودمختاری پر دباؤ۔ مظاہرین کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی عدلیہ کے فیصلوں کو بارہا نظرانداز کیا اور بعض مواقع پر ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں مداخلت کی۔ مثال کے طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹس نیشنل گارڈ کو لاس اینجلس میں مقامی انتظامیہ کی مرضی کے خلاف تعینات کیا گیا، جسے شہری حلقوں نے وفاقی زیادتی قرار دیا۔ اس واقعے نے احتجاج کو مزید شدت بخشی اور عوامی بحث میں یہ سوال گونجنے لگا کہ آیا ریاستی خودمختاری ختم ہو رہی ہے ؟
یہ مظاہرے صرف قانونی یا سیاسی نہیں بلکہ معاشرتی بھی تھے ۔ بہت سے امریکی شہریوں نے محسوس کیا کہ حکومت کی پالیسیاں نہ صرف امیگرینٹس بلکہ متوسط طبقے پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ Le Mondeایک مستند اور معروف فرانسیسی اخبار ہے، کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 1.8ملین افراد اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے ، جن میں اکثریت فیڈرل کنٹریکٹرز کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سماجی خدمات میں 20 فیصد تک کمی کی گئی جس سے غریب طبقات براہِ راست متاثر ہوئے ۔ عوام نے محسوس کیا کہ معیشت کے بوجھ تلے دبے معاشرے میں حکومت طاقت کی نمائش میں مصروف ہے ، عوامی فلاح پسِ پشت چلی گئی ہے ۔مظاہروں کا ایک اور محرک ٹرمپ کے طرزِ حکمرانی میں پایا جانے والا شخصی اقتدار تھا۔ ناقدین کے مطابق وہ ایک جمہوری صدر سے زیادہ خود کو ”قومی نجات دہندہ” کے طور پر پیش کر رہے تھے ۔ ان کے بیانات اور تقریریں، جن میں بارہا عدلیہ، میڈیا اور مخالفین کو ہدف بنایا گیا، امریکی عوام کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی بن گئیں۔ایسوی ایٹیڈ پریس کے مطابق جون 2025کے دوران صرف ایک ہفتے میں 14بڑے شہروں میں احتجاج ہوئے ، جن میںواشنگٹن،نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس، اور سان فرانسسکو نمایاں تھے۔ان مظاہروں کا مرکزی نعرہ” نو کنگز”تھا جو علامتی طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ امریکہ بادشاہت کے بجائے عوامی اقتدار کی بنیاد پر قائم ہوا۔ مظاہرین نے کہا کہ یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ حکمران عوام کے خادم ہوں، آقا نہیں۔پبلک براڈکاسٹنگ سروس نیوز آورکے مطابق یہ نعرہ14 جون 2025 کو ٹرمپ کی اناسی ویں سالگرہ کے موقع پرہونے والی ملٹری پریڈ کے ردِعمل میں مقبول ہوا۔ مظاہرین نے اسے بادشاہانہ نمائش قرار دیا جو عوامی احساسات سے مطابقت نہیں رکھتی۔اسی دن کامن کاز آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے بیان دیا کہ یہ مظاہرے نفرت نہیں بلکہ حب الوطنی کے مظاہرے ہیں، یہ عوام کا مطالبہ ہے کہ طاقت عوام کے تابع رہے نہ کہ کسی فرد کے ۔ یہ جملہ اس تحریک کی روح کو واضح کرتا ہے ۔
اس تحریک میں امیگرینٹس، مزدور تنظیمیں، نسلی اقلیتیں، طلبہ گروپس اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل تھیں۔ ان سب کا مشترکہ نکتہ یہ تھا کہ حکومت نے امریکی آئین کی روح یعنی مساوات، آزادیِ اظہار اور شہری آزادیوں کو محدود کیا ہے ۔ مظاہرین نے میڈیا کی آزادی پر قدغنوں اور صحافیوں کے خلاف بیانات کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد پریس کو دبانا جمہوری زوال کی علامت ہے ۔احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض مقامات پر تشدد بھی ہوا۔لاس اینجلس میں رات کے وقت کرفیو نافذ کیا گیا، جبکہ پورٹ لینڈ اور سیٹل میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں تقریباً 500افراد گرفتار ہوئے ۔ تاہم زیادہ تر مظاہرے پرامن رہے ۔گارجینکے مطابق یہ تحریک کسی پارٹی کے لیے نہیں بلکہ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے ہے ۔ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مظاہرے صرف کسی ایک پالیسی یا واقعے کے خلاف نہیں تھے بلکہ ایک مجموعی احساسِ بے اعتمادی کا اظہار تھے ۔ عوام نے محسوس کیا کہ اقتدار کی مرکزیت بڑھ رہی ہے ، شفافیت کم ہو رہی ہے ، اور قانون کی حکمرانی کمزور پڑ رہی ہے ۔ اسی احساس نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔ یہ بھی اہم ہے کہ
امریکی معیشت میں غیر یقینی صورتحال نے مظاہروں کی توانائی کو بڑھایا۔ مہنگائی کی شرح 6.1فیصد تک جا پہنچی، جبکہ 5.8فیصد بے روزگاری کی شرح ریکارڈ کی گئی۔ ان معاشی مشکلات نے متوسط طبقے کو مشتعل کیا جو پہلے ہی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے بحران سے گزر رہا تھا۔کچھ مظاہرین نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران میں جمہوری اداروں کی آزادی متاثر ہوئی، مثلاً وفاقی الیکشن کمیشن (ایف ای سی)اورمحکمہ انصاف کے کردار پر سیاسی اثرات بڑھ گئے ۔ ایسے میں عوامی اعتماد کو زک پہنچی، اور احتجاج ایک اخلاقی مزاحمت میں بدل گیا۔
اس ساری صورتحال کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ مظاہروں نے امریکی سماج کو ایک بار پھر اپنے آئینی نظریات کی یاد دلائی۔ “We the People” کا تصور، جو امریکی آئین کا ابتدائی جملہ ہے ، ان مظاہروں میں بار بار بلند کیا گیا۔ عوام نے اس بات پر زور دیا کہ اقتدار کا سرچشمہ صرف عوام ہیں، نہ کہ کوئی سیاسی شخصیت یا پارٹی۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ٹرمپ کے خلاف امریکی مظاہرے ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ ایک رویے کے خلاف تھے ۔ وہ رویہ جس میں شفافیت کی کمی، خودمختاری پر حملہ، اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف شامل تھا۔ ان مظاہروں نے ثابت کیا کہ اگر عوامی شعور بیدار ہو تو جمہوریت اپنی اصلاح خود کرتی ہے ۔اقدامات کے طور پر ضروری ہے کہ عوام سیاسی عمل میں فعال کردار ادا کریں، ووٹنگ کے حق کا استعمال یقینی بنائیں، شہری تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہوں اور حکومتی فیصلوں پر مسلسل نظر رکھیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو مضبوط بنائے ، امیگریشن پالیسی میں انسانی پہلو کو مقدم رکھے ، ریاستی خودمختاری کا احترام کرے ، اور آزاد میڈیا کو دبانے کے بجائے اس سے مکالمہ کرے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے امریکہ اپنے جمہوری تشخص کو برقرار رکھ سکتا ہے اور عوامی احتجاج کو عملی اصلاح میں بدل سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ وجود اتوار 26 اکتوبر 2025
''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ

مقبوضہ کشمیر، صحافیوں کے لیے خطرناک مقام وجود اتوار 26 اکتوبر 2025
مقبوضہ کشمیر، صحافیوں کے لیے خطرناک مقام

ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج وجود اتوار 26 اکتوبر 2025
ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج

کوئی بادشاہ نہیں ! وجود هفته 25 اکتوبر 2025
کوئی بادشاہ نہیں !

بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں وجود هفته 25 اکتوبر 2025
بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر