... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ملک گیرجاری مظاہروں نے ثابت کردیاہے کہ دنیا کے لیے بادشاہ کی طرح احکامات صادر کرنے والے صدرٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکی عوام ناخوش ہیں۔ حالانکہ رواں برس بیس جنوری کو جب انھوں نے صدارتی منصب سنبھال کرکام شروع کیا تو مقبولیت کے حوالہ سے طاقتورترین صدرقرارپائے لیکن دس ماہ کی حکومت میں کئی ایسے غیر مقبول فیصلے کیے جو مقبولیت کم کرنے کاباعث بنے ہیں ۔ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کی توقع بھی پوری نہیں ہوئی نہ ہی کچھ ایسا کیاہے جو حاصل مقبولیت قائم رکھے یا مزید اضافے کا سبب بنے ۔انھوں نے اقتدار کے دس ماہ کے دوران ثابت کردیا ہے کہ مشاورت پر یقین نہیں رکھتے اور خود سروخود پسند شخص کی طرح مسائل حل کرتے ہیں۔ منتخب صدرہونے کے باوجودسوچ آمرانہ ہے۔ وہ اپنے دعوئوں کے برعکس ایساکچھ نیا نہیں کرنا چاہتے جو دنیا میں امن کے قیام میں مدد گار ہو۔ اِسی ڈگر نے آج اِس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ امن کے نوبل انعام کے حریص کی کسی بات کو بھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا ۔دنیاکے اکثر ممالک اُنھیں خوش کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں مگر کیونکہ امریکی عوام کو ایسی کوئی مجبوری درپیش نہیں کہ وہ بے جاتشکرکرتے پھریں، اسی لیے امریکہ کے طول وعرض میں مخالفانہ مظاہرے جاری ہیں جن میں لاکھوں افراد کی شرکت ثابت کرتی ہے کہ ٹرمپ مقبولیت کھوتے جارہے ہیں اور شاید دوسری مدت صدارت میں امریکی تاریخ کے غیر مقبول ترین صدر ہونے کا اعزاز حاصل کرکے رُخصت ہوں۔
رائٹرزاور اپسوس کے تازہ سروے نے ٹرمپ پالیسیوں بارے عوامی رائے اجاگرکی ہے ۔اِس چھ روزہ سروے میں 80 فیصد ڈیمو کریٹس اور41 فیصدریپبلکنز نے فلسطینی ریاست کے حق میں رائے دی جبکہ مجموعی طورپر59فیصد امریکییوں کی آزاد فلسطینی ریاست کوحمایت حاصل رہی۔ مزیدیہ کہ غزہ پر ٹرمپ کا موقف عوامی رائے سے ہم آہنگ قرارنہیں پایا۔ سات اکتوبر2023کو حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری سے تعمیرات مکمل طورتباہ کردیں۔ اِس وحشیانہ ردِ عمل کو صدرکی طرف سے اسرائیل کا حق دفاع قرار دینابھی امریکیوں کوپسندنہیں جس کے نتیجے میں ملک بھرمیں اضطرابی کیفیت ہے جس کے پیش نظر کہہ سکتے ہیں کہ اگر ملک گیر یہ مظاہرے کسی سیاسی تحریک میں تبدیل ہوتے ہیں تو امریکی سیاست کا رُخ تبدیل ہو سکتاہے۔
امریکہ جس تاریخی ہلچل سے گزررہا ہے اِس کی وجہ عوامی پسندکے منافی ایسی پالیسیاں ہیں جو عوام کو کوئی بادشاہ نہیں جیسا نعرہ لگانے پر مجبورکرتی ہیں ۔عوام کاخیال ہے کہ ٹرمپ حاصل اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کااحترام نہیں کرتے بلکہ توقع رکھتے ہیں کہ ادارے اور عوام اُن کے احمقانہ فیصلے تسلیم کریں۔ اُن کے خیال میں وہ کبھی غلط ہوہی نہیں سکتے۔ اختلاف ِ رائے برداشت کرنے سے گریزکرتے اورتعمیری تنقید کابھی بُرامناتے ہیں ۔ایسے ہی رویے نے عوام کوسوچنے پر مجبورکیا ہے کہ صدر کو بادشاہ کی طرح لامحدوداختیارات دینے سے جمہوری توازن غیر ہموارہو سکتا ہے۔ اُن کے خیال میں عدلیہ پر دبائو نہ صرف انصاف کاحصول مشکل بنارہاہے بلکہ آزاد اِداروں پر دبائواختیارات کی مرکزیت کاموجب ہونے کے ساتھ اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرسکتا ہے۔
درآمدات پر محصولات ،تارکین کے متعلق قوانین میں تبدیلیاں ایسے فیصلے ہیں جن سے مہنگائی بڑھی ہے اورملک مختلف شعبوں کے لیے درکارماہرین کی قلت کاشکارہونے لگا ہے ۔ماحولیاتی معاہدوں سے علیحدگی نے امریکی غیر سنجیدگی بے نقاب کی ہے جس سے ماحولیاتی کارکن شدیدغم وغصے میں ہیں ۔زیادہ کام کو مزدوروں کے حقوق سے اہم تصور کرنا اور اقلیتوں کے متعلق ٹرمپ کا جارحارنہ رویہ امریکی معاشرت میں تقسیم کوبڑھاوادے رہاہے ۔اسی لیے احتجاجی مظاہر ے کسی ایک طبقے تک محدودنہیں بلکہ تمام طبقات کوکچھ اِس طرح بیدار کر دیا ہے جس کی ماضی میں کم ہی نظیر ملتی ہے۔
امریکی عوام نہ صرف جمہوریت کے بارے میں حساس ہیں بلکہ تارکینِ وطن کے متعلق بھی فراخ دل ہیں۔ نسلی امتیاز کو ملکی سلامتی سے ہم آہنگ خیال نہیں کرتے لیکن ٹرمپ کا خیال ہے کہ صدر منتخب کرنے کے بعد عوام کی ذمہ داری ختم ہوچکی ۔لہٰذاوہ اب ہر قسم کے فیصلوں میں آزاد ہیں۔عوام کے خیال میں یہ سوچ درست نہیں عوامی بے چینی نے ثابت کردیا ہے کہ صدر منتخب کرنے کے بعدبھی عوام معاشرتی اقدار کے تحفظ سے الگ نہیں اور آزاد معاشرت کے لیے پُرعزم ہیں ۔احتجاجی مظاہروں میںاگر انسانی حقوق کی تنظیمیں فعال ہیں تواساتذہ، ماحولیاتی کارکن،طلبہ اور مزدوربھی اولیں صفوں میں نمایاں ہیں۔ ملک کادانشور طبقہ اضطراب کا شکاراور صحافی بھی غیر مطمئن ہیں جس کا عکس اُن کی تحریروں سے جھلکتاہے۔ امریکہ کے بڑے شہروں نیویارک،واشنگٹن،کیلیفورنیا سے لیکر بوسٹن تک لگے بینروں میں جو یکساں نُکتہ ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بادشاہ نہیں اور نہ ہی جمہوریت برائے فروخت ہے لیکن صدرٹرمپ ایسے مظاہروں کو دشمن عناصر کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اُن کے حامیوں کے خیال میں غیر ملکی اثرات کا نتیجہ ہے یہ رویہ یا طرزِ عمل غیرسنجیدگی ظاہرکرتا ہے ۔سچ یہ ہے کہ عوامی ردِ عمل کی وجہ حاکمانہ طرزِ عمل اوراختلافِ رائے کی گنجائش ختم کرناہے ۔اسی بناپر ماہرین کے خیال میں مظاہروں کو زیادہ دیرنظر اندازکرنے سے ایک طاقتور سیاسی تحریک کا ظہورممکن ہے مگر ٹرمپ اور اُن کے رفقاکی طرف سے ایسا کوئی اِشارہ نہیں ملتا کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کاارادہ رکھتے ہیں۔
چندماہ قبل تک صدرٹرمپ کے حامی خاصے پُرجوش تھے لیکن مظاہروں کی حالیہ لہر نے اُن کے جوش اور جذبات کوٹھنڈا کردیا ہے اور وہ بھی اب حکومتی خوبیوں اور خامیوں پربات کرنے اورسُننے لگے ہیں۔ صدرکی پالیسیوں کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل ثابت کرتا ہے کہ صدارتی انتخاب کے بعد بھی عوام امورِ مملکت پر نظررکھتے ہیں۔عوامی بیداری کی حالیہ لہر اسی کی عکاس ہے کہ عوام کے خیال میں جمہوریت کی مضبوطی ہی قومی سلامتی کی کلیدہے ۔عوام کو آزادی سلب کرنے کاعمل پسند نہیں جو بھی ایسا کرے گا ،وہ عوامی محاسبے کا شکار ہوگا۔ اپنے حقوق اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے مظاہرین حکومتی دبائو کا سامنا کر نے کے لیے پُرعزم ہیں ۔خود سراور خود پسندصدرہونے کے باوجودعوام اب بھی ماضی کی طرح کاجمہوری اصولوں پر قائم ایسا امریکی معاشرہ برقرار رکھناچاہتے ہیں جواقتدارکی مرکزیت سے دورہواور جس میں اختیارات کی ایسی تقسیم ہوجو وسائل کی منصفاتقسیم کویقینی بنائے اوراظہارِ رائے پر کسی قسم کی قدغن نہ لگائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔