... loading ...
ریاض احمدچودھری
منی پورمیں تشددواقعات، غیر قبائلی میتی لوگوں اور عیسائی قبائلی کوکی لوگوں کے درمیان جاری نسلی تصادم ہے۔ یہ نسلی فسادات بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں 3 مئی 2023ء کو شروع ہوئے جس میں اب تک کم از کم 98 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔اس واقع کا آغاز ضلع چورا چاند پور میں آل ٹرائبل اسٹوڈنٹ یونین منی پور (اے ٹی ایس یو ایم) کی طرف سے اکثریتی میتی کمیونٹی کو تحفظات دینے کے خلاف احتجاج کے لیے بلائے گئے “قبائلی یکجہتی مارچ” کے دوران ہوا۔ ان پر تشدد واقعات کو روکنے کے لیے آسام رائفلز اور ہندوستانی فوج کے اہلکاروں کو ریاست میں امن و امان کی بحالی کے لیے تعینات کیا گیا۔
ریاست کے میٹی لوگوں کو شبہ ہے کہ ریاست میں قبائلی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی “قدرتی پیدائش سے وضاحت نہیں کی جا سکتی”۔ وہ میانمار سے غیر قانونی امیگریشن کی شناخت کے لیے ریاست میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (NRC) کی درخواست کی درخواست کر رہے ہیں۔ کوکیوں کا کہنا ہے کہ غیر قانونی امیگریشن ایک بہانہ ہے جس کے تحت میتی کی آبادی قبائلی آبادی کو اپنی زمینوں سے بھگانا چاہتی ہے۔ جب کہ کوکی زمین کی ملکیت پر غلبہ رکھتے ہیں، میتیوں کا منی پور قانون ساز اسمبلی میں سیاسی طاقت پر غلبہ ہے جہاں وہ 60 میں سے 40 نشستوں پر قابض ہیں۔ زمین اور غیر قانونی امیگریشن کے تنازعات کئی دہائیوں سے موجود کشیدگی کی بنیادی جڑ رہے ہیں۔ تنازعات کے تجزیہ کار جیدیپ سائکیا کے مطابق، منی پور کی قبائلی آبادی کی تیزی سے عیسائیت نے ریاست میں دو گروہوں کے درمیان سماجی اور ثقافتی خلیج کو بڑھایا ہے۔منی پور کے وزیر اعلیٰ نے فسادات “دو برادریوں کے درمیان غلط فہمی” کی وجہ سے بھڑکائے گئے اور معمول کی بحالی کی اپیل کی۔ بنگلور کے میٹروپولیٹن آرچ بشپ پیٹر ماچاڈو نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ مسیحی برادری کو غیر محفوظ محسوس کیا جا رہا ہے اور مزید کہا کہ “سترہ گرجا گھروں کو یا تو توڑ پھوڑ، بے حرمتی یا ناپاک کیا گیا ہے۔بھارت کی شورش زدہ ریاست منی پور کے ضلع ٹینگنوپل میں کوکی قبائل سے تعلق رکھنے والے سولہ گائوں کے سربراہوں نے بھارت ـمیانمار سرحدپر باڑ لگانے کے بھارتی حکومت کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مکمل عدم تعاون کا اعلان کیا ہے۔
گائوں کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں زمینوں کے معاوضے یا مذاکرات کو اس وقت تک مسترد کر دیا جب تک کہ ان کے سیاسی مطالبات پورے نہیں کئے جاتے اور منی پور میں امن بحال نہیں ہو جاتا۔ یہ پیسوں کا نہیں بلکہ یہ ہمارے حقوق، ہماری زمین، اور ہماری بقا ء کا معاملہ ہے۔انہوں نے بھارتی حکومت کی طرف سے آزادانہ نقل وحرکت کو ختم کرنے اور باڑ لگانے کے لیے دبا ئو بڑھانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے سرحدی قبائل کی شناخت، نقل و حرکت اور آبائی زمینوں پر حملہ قرار دیا۔ کوکی زو اور یونائیٹڈ ناگا کونسل کے بار بار احتجاج اور اپیلوں کے باوجود حکومت نے اتفاق رائے کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا ہے۔سربراہان نے باڑ لگانے کے کام کو فوری طور پر روکنے اور متاثرہ دیہاتوں سے بھارتی افواج اور سازوسامان ہٹانے کا مطالبہ کیا تاکہ مزید تنازعات سے بچا جا سکے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ منی پور میں نسلی تشددکے نتیجے میں جو مئی 2023میں شروع ہوا تھا، 260سے زائد اموات ہوئیں اور 60ہزارسے زائد افراد بے گھر ہوئے جن میں زیادہ تر کا تعلق مسیحی قبیلے کوکی زوسے تھا۔ یہ تنازعہ وادی امپھال کے ہندو اکثریتی میتی قبائل اور پہاڑوں پر مقیم کوکی زو قبائل کے درمیان دیرینہ تنائوکی وجہ سے پیدا ہوا تھا جو میتیوں کی طرف سے درجہ فہرست قبائل کا درجہ دینے کے مطالبات کی وجہ سے شدت اختیار کر گیا۔ کوکی زوقبائل اپنے سیاسی اور زمینی حقوق متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر اس اقدام کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔ بھارتی حکومت ہندو اکثریتی میتی قبیلے کی حمایت کررہی ہے۔بی جے پی کے ایم ایل ایز کی جانب سے کوکی قبائل کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا مطالبہ کردیا گیا۔ایم ایل ایز نے مودی سرکار سے مسلح افواج (خصوصی اختیارات) ایکٹ،اے ایف ایس پی اے کے نفاذ پرنظرثانی کرنیکی بھی اپیل کی،منی پور میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کے 27 ایم ایل ایز نے قرارداد منظور کی۔قراردادمیں کوکی باشندوں کو سات دنوں کے اندرغیرقانونی تنظیم قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا،ایم ایل ایز نے منی پور کے کیس کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے حوالے کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
قرارداد کے مطابق زیادہ فورسزکااطلاق کیا جائے اورانہیں مارنے کے خصوصی اختیارات بھی دیے جائیں،سینئر کانگریس لیڈرجیرام رمیش نے ریاست منی پور کے بحران سے نمٹنے میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے کردار پر سوال اٹھایا۔مرکزی حکومت منی پور کے مسئلے پر بات نہیں کرنا چاہتی اور مکمل خاموش ہے،مودی سرکار نے ریاست منی پور میں حالیہ کشیدہ صورتحال پر مزید 5 ہزار فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ دیا۔
٭٭٭