... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
زمین کی گہرائیوں میں چھپی چند نایاب معدنیات عالمی طاقت کا نیا پیمانہ بن چکی ہیں۔ چین نے صنعتی حکمت عملی کی پالیسیوں سے ان پر اجارہ داری قائم کی ہے۔” اعلان نمبر 62برائے 2025′ ‘ اس حکمت عملی کا اظہار ہے ۔یہ تجارتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک جیو اکنامک ہتھیار ہے جو ٹیکنالوجی، دفاع اور توانائی کے مستقبل کو متاثر کر سکتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس نازک شعبے میں کیا حکمت عملی اپنائیں گے تاکہ عالمی سپلائی چین کے خطرات کم ہوں۔ یہی فیصلہ بھی عالمی توازن بدل سکتاہے۔دنیا کی معاشی بساط پر کبھی کبھی ایسے خاموش مگر گہرے قدم اُٹھائے جاتے ہیں جو بندوقوں سے نہیں، مگر معیشتوں کو ہلا دیتے ہیں۔ چین کی وزارتِ تجارت کا”اعلان نمبر
62 بھی ایسا ہی ایک اعلان ہے جس نے امریکہ کے ساتھ جاری اقتصادی توازن کو چیلنج کر دیا ہے ۔ یہ محض ایک انتظامی اطلاع نہیں بلکہ ایک ایسا پیغام ہے جس کے مضمرات عالمی منڈیوں سے لے کر وائٹ ہاؤس تک گونج رہے ہیں۔
چین نے اس دستاویز میں نایاب معدنیات کی برآمدات پر نئی پابندیوں کی تفصیل دیتے ہوئے واضح کیا کہ اب ایسی مصنوعات جن میں اِن معدنیات کا معمولی حصہ بھی شامل ہو، اُن کی برآمد کے لیے چینی حکومت کی پیشگی منظوری لازمی ہوگی۔ یوں بیجنگ نے دنیا کو یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی گرفت محض پیداواری نہیں بلکہ حکمت عملی کی حیثیت بھی رکھتی ہے ۔یہ وہ معدنیات ہیں جنہیں دنیا rare earth elements کہتی ہے جیسے neodymium، dysprosium، terbium، cerium، lanthanum اور yttrium۔
چین نیوڈی میم، ڈس پروزیم، ٹربیئم، سیریئم، لینتھینم اور ایٹریئم جیسی نایاب ارضی معدنیات کی عالمی رسد پر قابض ہے ۔ ان کا استعمال اسمارٹ فونز، الیکٹرک گاڑیوں، سیٹلائٹ نظام، لڑاکا طیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی تک میں ہوتا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 60فیصد کانکنی اور 85فیصد پروسیسنگ صرف چین میں ہوتی ہے ۔ یہ اجارہ داری بیجنگ کو ایک ایسا اقتصادی ہتھیار دیتی ہے جس کی طاقت بندوقوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔یہ قدم اُس وقت اُٹھایا گیا جب امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات ایک بار پھر غیر یقینی کیفیت میں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں ایک بار پھر Make America Great Again کے نعرے کے ساتھ چین کے خلاف سخت مؤقف اختیار کر چکے ہیں۔ وہ چین پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ امریکی مصنوعات کے لیے غیر منصفانہ رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اور اپنی کرنسی کو مصنوعی طور پر کمزور رکھ کر برآمدات کو سستا بناتا ہے ۔ لیکن چین کا یہ نیا قدم دراصل ٹرمپ کو اُن کی پرانی چال یاد دلاتا ہے ۔ جب 2018میں انہوں نے چینی مصنوعات پر 360بلین ڈالر کے ٹیرف عائد کیے تھے ۔ اُس وقت چین نے خاموشی سے اپنی معدنی طاقت کو محفوظ رکھا تھا، مگر اب کی بار وہ اسے بطور پیغام استعمال کر رہا ہے ۔ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف تجارتی نہیں بلکہ جیو پولیٹیکل (geo-political)نوعیت کا ہے ، یعنی طاقت کے توازن میں ایک ذہین اور غیر عسکری وار۔ امریکہ کی دفاعی صنعت کو اگر ان نایاب معدنیات کی رسد میں معمولی بھی خلل آ جائے تو اس کے اثرات فوری طور پر F-35لڑاکا طیاروں، میزائل سسٹمز اور الیکٹرانک جنگی آلات پر پڑ سکتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے مغربی تجزیہ کار ”Trump’s strategic vulnerability” یعنی ”ٹرمپ کی اسٹریٹجک کمزوری” کہہ رہے ہیں۔
یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ امریکہ اپنی زمین میں موجود نایاب معدنیات کی کانکنی کو ماحولیاتی خدشات کے باعث محدود رکھتا ہے ۔ چین نے اس خلا کو بھر کر دنیا کے لیے ایک لازمی ذریعہ بننے کی پوزیشن حاصل کر لی ہے ۔ World Bankکے مطابق دنیا میں استعمال ہونے والی ہر 10میں سے 9ٹیکنالوجیز کسی نہ کسی درجے پر چینی نایاب معدنیات پر انحصار کرتی ہیں۔ یہی انحصار آج چین کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔ٹرمپ کے قریبی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ان کی انتخابی مہم پر بھی اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ امریکی عوام کے لیے مہنگائی، الیکٹرونکس کی قیمتوں میں اضافہ، اور دفاعی اخراجات کا بوجھ ایک نئی بحث چھیڑ دے گا۔ وہ شاید دوبارہ وہی تجارتی جارحانہ پالیسیاں اختیار کریں جن سے پہلے بھی عالمی منڈی میں ہلچل مچی تھی۔ مگر اب کی بار چین کا جواب نہ صرف تیز ہے بلکہ سوچی سمجھی معاشی حکمت عملی کے تحت ہے ۔
چین نے اس اعلان کے ساتھ ہی ایک اور خاموش مگر اہم قدم بھی اُٹھایا. نایاب معدنیات کی نئی رجسٹریشن پالیسی، جس کے تحت ہر کان کنی کمپنی کو اپنی پیداوار، ذخائر، اور خریداروں کی تفصیل حکومت کو دینا ہو گی۔ اس اقدام سے بیجنگ کو عالمی سطح پر سپلائی چین پر مکمل شفافیت اور کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ یوں یہ صرف برآمدات پر پابندی نہیں بلکہ عالمی اقتصادی اثرورسوخ کا ایک مربوط نظام ہے ۔امریکی معیشت اس وقت قرضوں کے تاریخی دباؤ میں ہے ۔ U.S. national debtاب 34.8 trillion dollars سے تجاوز کر چکا ہے ۔ ایسے میں اگر چین اپنی معدنی برآمدات محدود کرتا ہے تو امریکی معیشت پر اس کے اثرات دُگنے ہو سکتے ہیں۔ایک طرف پیداواری لاگت بڑھے گی اور دوسری طرف عالمی منڈی میں قیمتوں کا دباؤ۔ اس صورتحال میں ٹرمپ کے لیے سیاسی چیلنج دوہرا ہو جاتا ہے۔ عوامی سطح پر مہنگائی کا بوجھ اور عالمی سطح پر چین کے بڑھتے اثرات کا دباؤ۔دوسری طرف چین نے اپنی سفارت کاری کو بھی اس معاشی فیصلے سے جوڑ دیا ہے ۔ افریقی ممالک، لاطینی امریکا اور مشرقی ایشیا میں وہ ان ممالک کے ساتھ نئے معدنی معاہدے کر رہا ہے تاکہ طویل المدتی سپلائی لائن کو متنوع بنا سکے ۔ یوں وہ مغربی دباؤ سے بچتے ہوئے ایک متبادل تجارتی نیٹ ورک قائم کر رہا ہے جسے ماہرین “resource belt diplomacy” کا نام دے رہے ہیں۔
درحقیقت چین نے یہ باور کرا دیا ہے کہ مستقبل کی جنگیں بندوق سے نہیں بلکہ معدنیات سے لڑی جائیں گی۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں طاقت اُس کے ہاتھ ہوگی جو زمین کی تہوں کو سمجھتا ہو، نہ کہ آسمان کی بلندیوں کو۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی حکمت شاید پہلی بار معاشی حقیقت سے ٹکرا رہی ہے ۔اب عالمی منظرنامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے ممالک باہمی انحصار کو تسلیم کریں، نہ کہ اسے ہتھیار بنائیں۔ نایاب معدنیات پر چین کی گرفت اگر عالمی تعاون کے بجائے سیاسی دباؤ میں تبدیل ہو گئی تو اس کے اثرات صرف امریکہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری عالمی سپلائی چین کو ہلا دیں گے ۔ اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ اقتصادی مذاکرات کو جنگ کا نہیں، مفاہمت کا راستہ بنایا جائے ۔ چین اگر اپنے وسائل کے استعمال میں شفافیت بڑھائے اور امریکہ ماحولیاتی خدشات کے باوجود اپنی معدنی تحقیق میں سرمایہ کاری کرے ، تو ایک توازن ممکن ہے ۔ بصورتِ دیگر دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہو سکتی ہے جہاں معدنی طاقت، معاشی استحکام اور سیاسی خودمختاری ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہوں اور یہی وہ لمحہ ہے جس کے لیے عالمی برادری کو دانش مندی، مکالمہ اور اشتراکِ عمل کے راستے اپنانے ہوں گے تاکہ نایاب معدنیات انسانوں کی ترقی کا ذریعہ رہیں، ان کے درمیان تقسیم کا نہیں۔
٭٭٭٭