وجود

... loading ...

وجود

چین کا خاموش ہتھیار نایاب ارضی معدنیات ۔۔امریکہ کا اقتصادی بحران

منگل 21 اکتوبر 2025 چین کا خاموش ہتھیار نایاب ارضی معدنیات ۔۔امریکہ کا اقتصادی بحران

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

زمین کی گہرائیوں میں چھپی چند نایاب معدنیات عالمی طاقت کا نیا پیمانہ بن چکی ہیں۔ چین نے صنعتی حکمت عملی کی پالیسیوں سے ان پر اجارہ داری قائم کی ہے۔” اعلان نمبر 62برائے 2025′ ‘ اس حکمت عملی کا اظہار ہے ۔یہ تجارتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک جیو اکنامک ہتھیار ہے جو ٹیکنالوجی، دفاع اور توانائی کے مستقبل کو متاثر کر سکتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس نازک شعبے میں کیا حکمت عملی اپنائیں گے تاکہ عالمی سپلائی چین کے خطرات کم ہوں۔ یہی فیصلہ بھی عالمی توازن بدل سکتاہے۔دنیا کی معاشی بساط پر کبھی کبھی ایسے خاموش مگر گہرے قدم اُٹھائے جاتے ہیں جو بندوقوں سے نہیں، مگر معیشتوں کو ہلا دیتے ہیں۔ چین کی وزارتِ تجارت کا”اعلان نمبر
62 بھی ایسا ہی ایک اعلان ہے جس نے امریکہ کے ساتھ جاری اقتصادی توازن کو چیلنج کر دیا ہے ۔ یہ محض ایک انتظامی اطلاع نہیں بلکہ ایک ایسا پیغام ہے جس کے مضمرات عالمی منڈیوں سے لے کر وائٹ ہاؤس تک گونج رہے ہیں۔
چین نے اس دستاویز میں نایاب معدنیات کی برآمدات پر نئی پابندیوں کی تفصیل دیتے ہوئے واضح کیا کہ اب ایسی مصنوعات جن میں اِن معدنیات کا معمولی حصہ بھی شامل ہو، اُن کی برآمد کے لیے چینی حکومت کی پیشگی منظوری لازمی ہوگی۔ یوں بیجنگ نے دنیا کو یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی گرفت محض پیداواری نہیں بلکہ حکمت عملی کی حیثیت بھی رکھتی ہے ۔یہ وہ معدنیات ہیں جنہیں دنیا rare earth elements کہتی ہے جیسے neodymium، dysprosium، terbium، cerium، lanthanum اور yttrium۔
چین نیوڈی میم، ڈس پروزیم، ٹربیئم، سیریئم، لینتھینم اور ایٹریئم جیسی نایاب ارضی معدنیات کی عالمی رسد پر قابض ہے ۔ ان کا استعمال اسمارٹ فونز، الیکٹرک گاڑیوں، سیٹلائٹ نظام، لڑاکا طیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی تک میں ہوتا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 60فیصد کانکنی اور 85فیصد پروسیسنگ صرف چین میں ہوتی ہے ۔ یہ اجارہ داری بیجنگ کو ایک ایسا اقتصادی ہتھیار دیتی ہے جس کی طاقت بندوقوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔یہ قدم اُس وقت اُٹھایا گیا جب امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات ایک بار پھر غیر یقینی کیفیت میں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں ایک بار پھر Make America Great Again کے نعرے کے ساتھ چین کے خلاف سخت مؤقف اختیار کر چکے ہیں۔ وہ چین پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ امریکی مصنوعات کے لیے غیر منصفانہ رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اور اپنی کرنسی کو مصنوعی طور پر کمزور رکھ کر برآمدات کو سستا بناتا ہے ۔ لیکن چین کا یہ نیا قدم دراصل ٹرمپ کو اُن کی پرانی چال یاد دلاتا ہے ۔ جب 2018میں انہوں نے چینی مصنوعات پر 360بلین ڈالر کے ٹیرف عائد کیے تھے ۔ اُس وقت چین نے خاموشی سے اپنی معدنی طاقت کو محفوظ رکھا تھا، مگر اب کی بار وہ اسے بطور پیغام استعمال کر رہا ہے ۔ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف تجارتی نہیں بلکہ جیو پولیٹیکل (geo-political)نوعیت کا ہے ، یعنی طاقت کے توازن میں ایک ذہین اور غیر عسکری وار۔ امریکہ کی دفاعی صنعت کو اگر ان نایاب معدنیات کی رسد میں معمولی بھی خلل آ جائے تو اس کے اثرات فوری طور پر F-35لڑاکا طیاروں، میزائل سسٹمز اور الیکٹرانک جنگی آلات پر پڑ سکتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے مغربی تجزیہ کار ”Trump’s strategic vulnerability” یعنی ”ٹرمپ کی اسٹریٹجک کمزوری” کہہ رہے ہیں۔
یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ امریکہ اپنی زمین میں موجود نایاب معدنیات کی کانکنی کو ماحولیاتی خدشات کے باعث محدود رکھتا ہے ۔ چین نے اس خلا کو بھر کر دنیا کے لیے ایک لازمی ذریعہ بننے کی پوزیشن حاصل کر لی ہے ۔ World Bankکے مطابق دنیا میں استعمال ہونے والی ہر 10میں سے 9ٹیکنالوجیز کسی نہ کسی درجے پر چینی نایاب معدنیات پر انحصار کرتی ہیں۔ یہی انحصار آج چین کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔ٹرمپ کے قریبی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ان کی انتخابی مہم پر بھی اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ امریکی عوام کے لیے مہنگائی، الیکٹرونکس کی قیمتوں میں اضافہ، اور دفاعی اخراجات کا بوجھ ایک نئی بحث چھیڑ دے گا۔ وہ شاید دوبارہ وہی تجارتی جارحانہ پالیسیاں اختیار کریں جن سے پہلے بھی عالمی منڈی میں ہلچل مچی تھی۔ مگر اب کی بار چین کا جواب نہ صرف تیز ہے بلکہ سوچی سمجھی معاشی حکمت عملی کے تحت ہے ۔
چین نے اس اعلان کے ساتھ ہی ایک اور خاموش مگر اہم قدم بھی اُٹھایا. نایاب معدنیات کی نئی رجسٹریشن پالیسی، جس کے تحت ہر کان کنی کمپنی کو اپنی پیداوار، ذخائر، اور خریداروں کی تفصیل حکومت کو دینا ہو گی۔ اس اقدام سے بیجنگ کو عالمی سطح پر سپلائی چین پر مکمل شفافیت اور کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ یوں یہ صرف برآمدات پر پابندی نہیں بلکہ عالمی اقتصادی اثرورسوخ کا ایک مربوط نظام ہے ۔امریکی معیشت اس وقت قرضوں کے تاریخی دباؤ میں ہے ۔ U.S. national debtاب 34.8 trillion dollars سے تجاوز کر چکا ہے ۔ ایسے میں اگر چین اپنی معدنی برآمدات محدود کرتا ہے تو امریکی معیشت پر اس کے اثرات دُگنے ہو سکتے ہیں۔ایک طرف پیداواری لاگت بڑھے گی اور دوسری طرف عالمی منڈی میں قیمتوں کا دباؤ۔ اس صورتحال میں ٹرمپ کے لیے سیاسی چیلنج دوہرا ہو جاتا ہے۔ عوامی سطح پر مہنگائی کا بوجھ اور عالمی سطح پر چین کے بڑھتے اثرات کا دباؤ۔دوسری طرف چین نے اپنی سفارت کاری کو بھی اس معاشی فیصلے سے جوڑ دیا ہے ۔ افریقی ممالک، لاطینی امریکا اور مشرقی ایشیا میں وہ ان ممالک کے ساتھ نئے معدنی معاہدے کر رہا ہے تاکہ طویل المدتی سپلائی لائن کو متنوع بنا سکے ۔ یوں وہ مغربی دباؤ سے بچتے ہوئے ایک متبادل تجارتی نیٹ ورک قائم کر رہا ہے جسے ماہرین “resource belt diplomacy” کا نام دے رہے ہیں۔
درحقیقت چین نے یہ باور کرا دیا ہے کہ مستقبل کی جنگیں بندوق سے نہیں بلکہ معدنیات سے لڑی جائیں گی۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں طاقت اُس کے ہاتھ ہوگی جو زمین کی تہوں کو سمجھتا ہو، نہ کہ آسمان کی بلندیوں کو۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی حکمت شاید پہلی بار معاشی حقیقت سے ٹکرا رہی ہے ۔اب عالمی منظرنامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے ممالک باہمی انحصار کو تسلیم کریں، نہ کہ اسے ہتھیار بنائیں۔ نایاب معدنیات پر چین کی گرفت اگر عالمی تعاون کے بجائے سیاسی دباؤ میں تبدیل ہو گئی تو اس کے اثرات صرف امریکہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری عالمی سپلائی چین کو ہلا دیں گے ۔ اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ اقتصادی مذاکرات کو جنگ کا نہیں، مفاہمت کا راستہ بنایا جائے ۔ چین اگر اپنے وسائل کے استعمال میں شفافیت بڑھائے اور امریکہ ماحولیاتی خدشات کے باوجود اپنی معدنی تحقیق میں سرمایہ کاری کرے ، تو ایک توازن ممکن ہے ۔ بصورتِ دیگر دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہو سکتی ہے جہاں معدنی طاقت، معاشی استحکام اور سیاسی خودمختاری ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہوں اور یہی وہ لمحہ ہے جس کے لیے عالمی برادری کو دانش مندی، مکالمہ اور اشتراکِ عمل کے راستے اپنانے ہوں گے تاکہ نایاب معدنیات انسانوں کی ترقی کا ذریعہ رہیں، ان کے درمیان تقسیم کا نہیں۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی فالس فلیگ آپریشنز کا دنیا بھر میں تماشا وجود منگل 21 اکتوبر 2025
بھارتی فالس فلیگ آپریشنز کا دنیا بھر میں تماشا

چین کا خاموش ہتھیار نایاب ارضی معدنیات ۔۔امریکہ کا اقتصادی بحران وجود منگل 21 اکتوبر 2025
چین کا خاموش ہتھیار نایاب ارضی معدنیات ۔۔امریکہ کا اقتصادی بحران

غزہ: زندگی کی آوازیں لوٹ آئی ہیں مگر کب تک؟ وجود پیر 20 اکتوبر 2025
غزہ: زندگی کی آوازیں لوٹ آئی ہیں مگر کب تک؟

بھارتی تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ سے امتیازی سلوک وجود پیر 20 اکتوبر 2025
بھارتی تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ سے امتیازی سلوک

بدلے کی آگ میں جلتا مودی خطے کے امن کے لیے خطرہ وجود پیر 20 اکتوبر 2025
بدلے کی آگ میں جلتا مودی خطے کے امن کے لیے خطرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر