وجود

... loading ...

وجود

بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک

جمعرات 16 اکتوبر 2025 بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔
صحن چمن

ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں چودھری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بہت مشہور ہوا۔ ظہور الٰہی متحدہ اپوزیشن میں سر گرم تھے اور بھٹو صاحب کو یہ پسند نہ تھا۔پنجاب پولیس نے ظہور الہی پر 100 سے زائد مقدمات قائم کیئے ، جیسے آج کل تحریک انصاف کے عمران خان کے خلاف مقدمات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔ عدالتیں اس زمانے میں بھی تھیں ، اور چوہدری صاحب کو کہیں نہ کہیں ضمانت مل
جاتی تھی۔ گجرات کے تھانے دار کے ایک تھانے دار نے تو کمال کردیا۔ چوہدری صاحب کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج کردیا اور چوہدری صاحب کے ڈیرے پر بندھی ایک بھینس کو مال مسروقہ قرار دے کر قبضہ میں لے لیا۔ اس وقت عدالت میں چودھری صاحب نے طنزاً کہا تھا”میں سیاست میں آیا ہوں، بھینسوں کے باڑے میں نہیں”۔مقدمہ خارج ہو گیا، مگر یہ واقعہ آج بھی اس پنجاب پولیس کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔
90 کی دہائی میں شیخ رشید کسی طور پر قابو نہ آئے تو پیپلز پارٹی حکومت شیخ رشید کے خلاف کلاشنکوف لہرانے کا مقدمہ کا درج کیا،شیخ رشید تو اس کو کھلونا کلاشنکوف کہتے تھے ، لیکن پولیس نے ان کے گھر سے اصلی کلاشنکوف کی برآمدگی دکھا دی اور انسداد دہشت گردی کی
عدالت نے انھیں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنا دی۔میاں نواز شریف مشرف کے طیارے کے ہائی جیکنگ کیس میں سزائے موت
پانے کے بعد مرتے مرتے بچے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی مقدمات درج کیے گئے ۔جنہیں سن کر قانون بھی مسکرا اُٹھتا ہے ۔
ہمارے وزیر رانا ثنا اللہ پر تو منشیات فروشی کا پرچہ کٹ گیا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ پر سرکاری مکان پر قبضے کا الزام،بینظیر بھٹو پر جعلی کارڈ اور
گاڑی کا کیس،آصف زرداری پر موٹر سائیکل اور ہار چوری کا مقدمہ،اور عمران خان پر”ریڑھی سے ٹکرانے” اور”لاؤد اسپیکر استعمال
کرنے ” جیسے الزامات یہ سب واقعات محض قانونی کارروائیاں نہیں تھے ، پولیس کو وقت کے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔عدالتیں بعد میں ان کیسز کو جھوٹا قرار دیتی ہیں،مگر عوام کے ذہن میں پولیس کی ساکھ پر لگے سیاہ داغ باقی رہ جاتے ہیں۔ مریدکے میں ہونیوالے خونی واقعات میں زیادتی دونوں طرف سے ہوئی، پولیس انتظامیہ اور کرین پارٹی والوں کے تشدد کی ویڈیوہولناک ہیں، لال مسجد کے خونی واقعات ،ماڈل ٹاون کا سانحہ ،نو مئی کے واقعات ، اسلام آباد میں تحریک انصاف
کے احتجاج کو کچلنے کا واقعہ اس بات کا اظہار ہیں کہ اب سیاست میں پرامن احتجاج ایک خواب و خیال ہے ۔ہمارے نوجوانوں ، اور سادہ لوح دینی حمیت و غیرت پر سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننے والے کارکنوں کو اس بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے ۔ پرانے رویوں کی نئی شکل حالیہ دنوں میں مریدکے کا واقعہ اسی پرانی روایت کا نیا باب لگتا ہے ۔
تحریک لبیک کے مارچ کے دوران پیش آنے والے تصادم کے بعدپنجاب پولیس نے سعد رضوی پر الزام لگایاکہ انہوں نے پولیس
اہلکار پر پستول سے فائرنگ کی،جس کے نتیجے میں ایس ایچ او فیکٹری ایریا زخمی ہوئے اور بعد ازاں جان سے گئے ۔اسی ایف آئی آر میں
ان کے بھائی انس رضوی پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے رائفل سے فائرنگ کی۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک لبیک کے اجتماعات
ہمیشہ کیمروں، سوشل میڈیا اور ویڈیوز کی زد میں ہوتے ہیں۔کبھی کسی ویڈیو، تصویر یا رپورٹ میں ان رہنماؤں کے ہاتھوں میں اسلحہ دکھائی
نہیں دیا۔نہ کبھی ان پر کسی ایسے عمل کا الزام لگا جس میں ہتھیار استعمال ہوا ہو۔اس کے لیے ان کے جان نثار کم نہیں ہیں۔ یہ مقدمہ ایک بار
پھر سوال اٹھاتا ہے کہ کیا پنجاب پولیس نے ایک بار پھر حسبِ روایت سیاسی دباؤ میں کام کیا ہے ؟ عوام کے لیے پنجاب پولیس کے رویے کو
سمجھنا مشکل نہیں۔یہ وہ ادارہ ہے جو دہائیوں سے حکم کے تابع ہے ، قانون کے نہیں۔یہ ذہنیت اب اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ ہر واقعہ کے
بعد سب سے پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے :ایف آئی آر بنا دو چاہے وہ بھینس چوری کا الزام ہو یا پستول کی فائرنگ کا۔ایسے مقدمات نہ صرف
انصاف کے نظام کو مذاق بناتے ہیں بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی مجروح کرتے ہیں۔جب عوام دیکھتے ہیں کہ قانون طاقت کے تابع ہے ،تو وہ
انصاف کے دروازے پر دستک دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ پولیس اصلاحات نہیں، نیت درکار ہے ۔پاکستان میں پولیس ریفارمز پر کئی کمیشن بنے
، سفارشات آئیں، رپورٹس تیار ہوئیں مگر جب تک سیاسی قوتیں خود قانون کے تابع نہیں ہوتیں،پولیس کبھی غیر جانب دار نہیں بن سکتی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹے مقدمات کے ذمے دارافسران اور حکم دینے والے اہلکاروں کو قانونی جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے ۔ ایسے واقعات پر محکمانہ کارروائی نہیں، بلکہ عدالتی مثالیں قائم کی جائیں،تاکہ آئندہ کوئی افسر سیاسی حکم پر قانون کی توہین نہ کرے ۔چودھری ظہور الٰہی سے لے کر سعد رضوی تک پاکستان کی سیاست میں پولیس کا کردار ہمیشہ سوالیہ ہی رہے گا۔
مذاکرات کیوں ناکام ہوئے ؟یا دانستہ مذاکرات سے گریز کرکے آہنی ہاتھ سے کچلنے کا فیصلہ پہلے ہی سے طے تھا۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب پولیس کی ذہنیت نہیں بدلی۔یہ اب بھی طاقت کے سامنے سر جھکاتی ہے ،اور کمزور کے خلاف بہادری دکھاتی ہے ۔جب تک ریاست یہ تسلیم نہیں کرتی کہ انصاف صرف عدالتوں میں نہیں بلکہ عملی طور پر قائم ہونا چاہیے ،تب تک ایسے مضحکہ خیز مقدمات ہماری تاریخ کا حصہ بنتے رہیں گے اور ہر نیا واقعہ، پرانی شرمندگی کا تسلسل ثابت ہوگا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک

دُکھ ہے ۔۔۔ وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
دُکھ ہے ۔۔۔

بھارتی و افغانی، باہم شیروشکر وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
بھارتی و افغانی، باہم شیروشکر

پاکستان میں معاشی بحران:وجوہات، اثرات اور حل وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
پاکستان میں معاشی بحران:وجوہات، اثرات اور حل

آپ کی پہچان آپ کا دماغ ہے! وجود بدھ 15 اکتوبر 2025
آپ کی پہچان آپ کا دماغ ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر