وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ کا نوبیل خواب چکناچور

منگل 14 اکتوبر 2025 ٹرمپ کا نوبیل خواب چکناچور

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

نوبیل انعام میں ٹرمپ کی ناکامی سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے سالوں بے مثال جدوجہد کرنی پڑتی ہے اس کے پس منظر میں نوبیل امن کا لالچ نہیں ہوتا ہے ۔یہ وقت ثابت کرتا ہے کہ کس نے امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ٹرمپ کے لیے تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
امن انعام خواہشات کا پابند نہیں ہے ۔دنیا کی سیاست میں نوبیل امن انعام محض ایک اعزاز نہیں بلکہ ایک علامت ہے ایسی علامت جو
عالمی ضمیر، انسانی وقار اور امن کے استحکام کی نمائندگی کرتی ہے ۔ 2025کے نوبیل امن انعام کا فیصلہ اسی علامتی طاقت کا مظہر ثابت ہوا
جب ناروے کی نوبیل کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ایوارڈ سے محروم رکھا۔ ان کی تمام تر مہم، بیانات اور امن کے
دعووں کے باوجود، کمیٹی نے واضح پیغام دیا کہ نوبیل کا معیار کسی سیاسی دباؤ، عوامی تاثر یا میڈیا مہم سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ صرف میرٹ،
استحکام اور دیرپا امن کے اصولوں پر قائم ہے ۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگیوں کا سلسلہ ہر سال 31 جنوری کو بند ہو جاتا ہے ، جبکہ 2025میں ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنی دوسری مدتِ صدارت کے لیے حلف اٹھا چکے تھے ۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ ان کے وہ حالیہ اقدامات، جنہیں وہ اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں، جیسے اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ
جنگ بندی یا وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا مچاڈو کی حمایت، اس سال کے نوبیل انعام کے دائرے میں شامل نہیں ہو سکے ۔ اس
حقیقت نے ٹرمپ کی امیدوں کو ابتدا ہی سے محدود کر دیا تھا، تاہم انہوں نے اپنی روایتی سیاسی حکمتِ عملی کے مطابق نوبیل انعام کے لیے
کھلے عام مہم چلائی، جسے مبصرین نے ان کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ قرار دیا۔ہنری جیکسن سوسائٹی سے وابستہ تجزیہ کار تھیئو زینو کے مطابق،
نوبیل امن انعام محض چند مہینوں کی سرگرمی یا کسی تازہ سیاسی معاہدے کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ برسوں کی تحقیق، تصدیق اور عالمی اثرات کے
گہرے جائزے کے بعد دیا جاتا ہے ۔ ان کے مطابق، نوبیل کمیٹی آخری لمحات میں کسی نئے معاہدے یا میڈیا مہم کی بنیاد پر اپنے فیصلے میں
تبدیلی نہیں کرتی۔ زینو نے یہ بھی کہا کہ نوبیل کمیٹی اپنی خودمختاری پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرتی، اور یہی وجہ ہے کہ کسی امیدوار کی جانب
سے ایوارڈ حاصل کرنے کی مہم یا تشہیر الٹا اثر ڈال سکتی ہے ۔
ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو موکھیفی ایشٹن نے اس فیصلے کو ایک محتاط اور سوچے سمجھے عالمی سیاسی توازن کا حصہ قرار دیا۔ ان
کے مطابق، نوبیل کمیٹی نے یہ فیصلہ نہ صرف اپنے معیار کی حفاظت کے لیے کیا بلکہ ایک ایسے پیغام کے طور پر بھی جس سے دنیا کے طاقتور
رہنما یہ سمجھ سکیں کہ امن انعام کسی طاقت، معاہدے یا بیانیے کی مرہونِ منت نہیں بلکہ یہ انسانیت کے مفاد میں پائیدار عمل کا اعتراف ہے ۔
انہوں نے کہا کہ نوبیل انعام کا نہ ملنا ٹرمپ کے لیے صرف ایک ذاتی ناکامی نہیں بلکہ ایک اخلاقی سبق بھی ہے کہ امن کو محض الفاظ یا وقتی
معاہدوں سے نہیں، بلکہ پائیدار انسانی بھروسے اور سماجی انصاف سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
نوبیل کمیٹی کے سربراہ یورگن واٹنے فرائیڈنس نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ فیصلہ الفریڈ نوبیل کی وصیت اور ان کے بنیادی اصولوں
کے عین مطابق کیا گیا۔ ان کے مطابق، کمیٹی ہر فیصلے میں میرٹ کو اولین حیثیت دیتی ہے ، نہ کہ کسی سیاسی یا سفارتی دباؤ کو۔ اس بیان نے
ٹرمپ کی اس دلیل کو بھی غیر مؤثر کر دیا کہ کمیٹی جانبداری سے کام لے رہی ہے ۔ ٹرمپ بارہا نوبیل نظام کو اشرافیہ نواز اور غیر منصفانہ قرار
دے چکے ہیں، خاص طور پر 2009 میں جب ان کے سیاسی حریف باراک اوباما کو صدر بننے کے فوراً بعد یہ اعزاز دیا گیا۔ اسی لمحے سے
ٹرمپ کے دل میں نوبیل انعام کے حصول کی خواہش ایک ذاتی جنون کی شکل اختیار کر گئی، جسے وہ اپنی عالمی ساکھ کے ساتھ جوڑتے آئے
ہیں۔تاہم 2025 کا نوبیل امن انعام وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا مچاڈو کے حصے میں آیا، جنہیں جمہوریت، آزادیِ اظہار، اور
آمریت سے جمہوری انتقالِ اقتدار کے لیے پُرامن جدوجہد پر سراہا گیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف وینزویلا بلکہ دنیا بھر میں جمہوری اقدار کے احیاء
کا مظہر سمجھا گیا۔ مچاڈو کی کامیابی اور ٹرمپ کی ناکامی کا تقابل عالمی سیاست کے لیے ایک علامتی پیغام بن گیا کہ نوبیل امن انعام طاقتوروں
کے لیے نہیں بلکہ اصولوں کے لیے دیا جاتا ہے ۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق، نوبیل کمیٹی نے اس برس ریکارڈ تعداد میں نامزدگیاں موصول کیں، لیکن حتمی انتخاب اُن شخصیات کے
لیے تھا جنہوں نے حقیقی معنوں میں امن، برداشت اور انسانی مساوات کے لیے عملی قربانیاں دی تھیں۔ کمیٹی کے ایک رکن کے بقول، نوبیل
کا مقصد دنیا کے ضمیر کو جگانا ہے ، نہ کہ سیاسی شہرت کی توثیق کرنا۔ اس جملے نے ایک بار پھر یہ طے کر دیا کہ کسی بھی رہنما کی ذاتی شہرت یا
میڈیا اثر نوبیل کے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک، ٹرمپ کے لیے یہ فیصلہ ان کی دوسری مدتِ صدارت
میں اشرافیہ اور عالمی اداروں کے ساتھ بڑھتی ہوئی خلیج کی علامت بھی ہے ۔ وہ بارہا یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ بین الاقوامی ادارے
امریکہ کے اندرونی مفادات کے مخالف ایجنڈے پر چلتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نوبیل انعام کا ادارہ ہمیشہ عالمی امن کے طویل مدتی
اثرات کو دیکھتا ہے ، نہ کہ کسی رہنما کی وقتی مقبولیت یا پالیسی تبدیلی کو۔یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر ٹرمپ کے حالیہ امن اقدامات خاص طور
پر مشرقِ وسطیٰ میں ممکنہ جنگ بندی مستقل اور پائیدار ثابت ہوئے تو 2026 کا نوبیل انعام ان کے لیے ایک نیا موقع بن سکتا ہے ۔ نوبیل
کمیٹی کسی فرد کو مستقل بنیادوں پر خارج نہیں کرتی؛ معیار صرف ایک ہے امن کی پائیداری۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں کئی رہنماؤں نے اپنے
سابقہ اقدامات کے بعد دوبارہ نامزدگی حاصل کی، بشرطیکہ ان کے فیصلوں نے انسانی فلاح پر مثبت اثر ڈالا ہو۔اگر اس ساری صورتِ حال
کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو نوبیل کمیٹی کا یہ فیصلہ ایک عالمی اصول کی یاددہانی ہے کہ طاقت یا دولت نہیں، بلکہ نیت، مستقل مزاجی اور
انسانی وقار ہی امن کی بنیاد ہیں۔ ٹرمپ جیسے طاقتور رہنماؤں کے لیے یہ لمحہِ غور ہے کہ امن کے میدان میں کامیابی ٹویٹس یا بیانات سے نہیں
بلکہ تحمل، اعتماد اور مسلسل سفارتی عمل سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اس فیصلے نے دنیا بھر کے سیاسی قائدین کو یہ پیغام دیا کہ نوبیل انعام کی
منزل اُن کے لیے نہیں جو امن کا نعرہ سیاسی فائدے کے لیے لگاتے ہیں، بلکہ اُن کے لیے ہے جو خطرات کے باوجود انصاف اور انسانیت
کے اصولوں پر قائم رہتے ہیں۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ نوبیل کمیٹی نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ امن کا تصور وقتی جذبات یا سیاسی دباؤ سے
نہیں جیتا جا سکتا۔ نوبیل امن انعام ایک مقدس امانت ہے جو صرف اُن ہاتھوں میں دی جاتی ہے جنہوں نے انسانیت کے لیے قربانی،
برداشت اور انصاف کا راستہ اپنایا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی عالمی امن کے خواہاں ہیں تو انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نوبیل جیتنے کا راستہ خود نوبیل کے
اصولوں سے ہو کر گزرتا ہے ، نہ کہ اُن کے خلاف۔ یہی دنیا کے ضمیر اور نوبیل روایت کا اصل پیغام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے پرعزم ! وجود منگل 14 اکتوبر 2025
پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے پرعزم !

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر وجود منگل 14 اکتوبر 2025
بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

ٹرمپ کا نوبیل خواب چکناچور وجود منگل 14 اکتوبر 2025
ٹرمپ کا نوبیل خواب چکناچور

پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات وجود پیر 13 اکتوبر 2025
پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات

اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ وجود پیر 13 اکتوبر 2025
اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر