وجود

... loading ...

وجود

خطے کا امن اور بھارت

اتوار 12 اکتوبر 2025 خطے کا امن اور بھارت

حمیداللہ بھٹی

پاکستان کی غیر محفوظ شمال مغربی سرحد نے مقتدرہ کے شہ دماغوں کوجھنجوڑ کر رکھ دیاہے ۔یہاں متحرک دہشت گردوں کے افغانستان میں محفوظ اڈے ہیں جہاں سے پاکستانی اہلکاروں کو نشانہ بنایاجاتا ہے ۔ایک سے زائد بار آگاہ کرنے کے باوجود افغانستان نے پاکستانی خدشات کاازالہ نہیں کیا۔ داعش،ٹی ٹی پی،بی ایل اے اور ای ٹی آئی ایم کے دہشت گرد مسلسل سرحد پار حملوں میں مصروف ہیں مگر افغان انتظامیہ نے اِن دہشت گردوں کوروکنے یا مذمت کرنے کی کبھی زحمت تک نہیں کی ۔حالانکہ اُنھیں معاشی پابندیوں،بینکاری نظام کی ناکامی، غربت ،بے روزگاری،موسمیاتی تبدیلیوں سمیت جن انسانی بحران کا سامناہے ،وہ ہمسایہ ممالک کے تعاون سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ بظاہر طالبان کی نظر صرف آمدن پر ہے وہ معدنیات سے دولت حاصل کرنے کے لیے کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں چاہے پاکستان کا بدترین دشمن بھارت ہی کیوں نہ ہو۔تعجب والی بات یہ ہے کہ پہلگام حملے کی توطالبان مذمت کرتے ہیں مگر پاکستانی اِداروں پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں ایسے الفاظ اداکرنے سے احتیاط کرتے ہیں ۔لہٰذا پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جائے چاہے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ ہی کیوں نہ بناناپڑے۔
امن کے بغیر ترقی کا عمل جاری نہیں رہ سکتا مگر بھارت کی ترجیح امن نہیں خطے کی بالادستی ہے جو امن کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ بھارت دنیا بھر سے اسلحے کے انبار جمع کر رہا ہے، تباہ کُن میزائل بناتا ہے۔ اگر وہ جوہری تجربات نہ کرتا توجنوبی ایشیا جوہری ہتھیاروں سے پاک رہتا جن وسائل سے غربت ،بھوک وافلاس دور اور روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکتے تھے، وہ ہتھیاروں کی خرید پر صرف ہورہے ہیں، پھر بھی بھارت خطے کی بالادست طاقت تو نہیں بن سکا، البتہ سارا خطہ محاذ آرائی کا مرکز بن چکا ہے۔ اب بھارت نے دہشت گردی کی سرپرستی شروع کردی ہے۔ افغانستان بارے دنیاکی تشویش بڑھ رہی ہے تو بھارت روابط بڑھانے لگا ہے جس سے ایسے خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ہمسایہ ممالک کے خلاف کارروائیوں میں بھارت اور افغان حکومتیں ایک ہیں۔
گیارہ ستمبر 2001کے دہشت گردانہ حملے میں تین سو امریکیوں کے ہلاک کا زمہ دار االقائدہ کو ٹھہرایاگیاجس کے اہم رہنما اسامہ بن لادن اُس وقت کے طالبان رہنمائوں کے پاس مقیم تھے۔ عدم حوالگی کی پاداش میںواقعہ کے ایک ماہ بعدہی امریکہ اور نیٹوافواج نے افغانستان پر فضائی حملے شروع کردیے اور طالبان کواقتدارسے بے دخل کر دیا۔ اِس دوران بھارت نے حملہ آور فوج کی ہر ممکن مدد کی۔ حامد کرزائی سے لے کر اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیوں کے اقتدار کو مضبوط تر بنایا،بعدازاں 2020میں طے پایا کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی لیکن بھارتی مکاری ختم نہ ہوئی ایک طرف امریکی قیادت میں لڑنے والی افواج کو انخلا سے باز رکھنے کی کوشش کرتا رہاتو ساتھ ہی بعد ازانخلا افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے کی تگ ودو کرتارہا ۔
پندرہ اگست 2021میں طالبان نے کابل سمیت ملک کے بڑے حصے کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا اِس دوران جنرل فیض حمید کی کابل جاکر چائے پینے کی تصویر منظرِ عام پر آئی جس نے بھارت کو چونکایااور وہ نئے سرے سے سازشوں میں مصروف ہوگیا۔ مالی مدد اورطالبان سے تعاون بڑھانے کی آڑ میں دہشت گردوں کی سرپرستی شروع کردی ۔رواں برس فروری میں امیر خان متقی سے دبئی میں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری ملے یہ 2021 کے بعد دونوں حکومتوں میں اعلیٰ سطح رابطہ تھا۔اِس ملاقات کے بعد بھارت نے افغانستان کی مالی امداد ایک ارب روپے کردی۔ ایسے حالات میں جب بائیس اپریل کے پہلگام حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی سولہ مئی کو طالبان حکومت کے نائب وزیرِ داخلہ ابراہیم صدر بھارتی دورے پر جاپہنچے جو نہ صرف ملا ہیبت اللہ کے معتمد ساتھی بلکہ ایرانی پاسداران ِانقلاب کے بھی قریب خیال کیے جاتے ہیں ۔اِس دورے کو دونوں حکومتوں نے خفیہ رکھا ۔بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے طالبان کے قائم مقام وزیرَ خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ٹیلی فون پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ اب ملا امیر خان متقی نواکتوبر سے بھارتی دورے پرہیں جو سولہ اکتوبر تک جاری رہے گا ۔سوال یہ ہے کہ جب دونوں ممالک کی سرحدیں نہیں ملتیں تجارتی مواقع بھی کم ہیں بھارت سے تجارت کے لیے افغانستان کو جو قریب ترین اور سہل راستہ ہے وہ پاکستان سے ہے ۔آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین کامیزبان پاکستان ہیں اور بھارت سے زیادہ افغانستان کے لیے تجاتی حوالے سے پاکستان اہم ہے ۔اِس کے باوجود ہمسایہ ملک کوچھوڑکر بھارت کو ترجیح دینے سے کسی سازش کی طرف اِشارہ ہوتاہے۔ صاف ظاہرہے ملاقاتوں میں جوکھچڑی پکائی جارہی ہے وہ دہشت گردی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی۔
افغان وزیرِ خارجہ کی بھارت آمد اِس بناپر بھی تشویشناک ہے کہ ماضی میں بھی دونوں ممالک پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آئی تو بھارت نے جھٹ اپنی خدمات پیش کردیں ۔اب ایک بار پھرپاک امریکہ تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے تو بھارتی کی فکرمندی یہ ہے کہ کہیں پاکستان جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہ کر لے ۔اسی لیے افغانستان سے مل کر پاک امریکہ اتحاد توڑ نے کے لیے سرگرم ہے۔ اِمکان ہے کہ بھارت تمام تر احتیاط بالائے طاق رکھتے ہوئے طالبان حکومت تسلیم کرنے پر نہایت سنجیدگی سے غور کررہا ہے جس کے اثرات صرف جنوبی ایشیاہی نہیں وسطی ایشیا پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ دہشت گردوں کو فنانسر کے ساتھ زیادہ محفوظ اڈے ملیں گے تووہ زیادہ وسیع پیمانے پر کارروائیاں کرسکیں گے ۔ممکن ہے بھارت کا خیال یہ ہو کہ اِس طرح خطے سے پاک امریکہ اثر ورسوخ کم کیاجا سکتا ہے مگر افغانستان کے حوالے سے روس،چین،ایران اور پاکستان کی سوچ ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ افغانستان کو ہر صورت دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکناہے ۔نئی ملاقاتوں سے افغان طالبان نہ صرف روس سے دور ہوں گے بلکہ چین سے بھی سفارتی کشیدگی کا جنم لینا بعیدا زقیاس نہیں جبکہ ایرانی قیادت پہلے ہی تشویش کا شکار ہے۔ لہٰذا بھارت کے لیے بہتر ہو گا کہ افغانستان سے مل کر خطے کا امن تہہ بالا کرنے کی منصوبہ بندی کی بجائے امن کے لیے کام کرے اور افغانستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کی بجائے حقیقی ترقی کے لیے معاشی وتجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرے لیکن جنونی بھارتی قیادت ایسا نہیں چاہتی اور دہشت گردی کی سرپرست کے طورپراپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہے تو افغانستان پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خطے اور دنیا کو بلیک میل کرنے کی روش پر گامزن ہے جس کا تدارک کرنا خطے کے ممالک کے ساتھ عالمی طاقتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
خطے کا امن اور بھارت وجود اتوار 12 اکتوبر 2025
خطے کا امن اور بھارت

بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت وجود هفته 11 اکتوبر 2025
پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت

مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی وجود هفته 11 اکتوبر 2025
مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی

بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر