وجود

... loading ...

وجود

بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

هفته 11 اکتوبر 2025 بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال دن بہ دن اس نہج پر پہنچتی جا رہی ہے جہاں بیمار عوام تو موجود ہیں مگر ان کا علاج کرنے والے مسیحا غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کا نام تو ہے مگر کام نہیں، عملہ کم ہے ، سہولیات ناپید ہیں اور جو دستیاب ہیں وہ اکثر اوقات پرائیویٹ کلینکس میں اپنی فیسیں بڑھانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں کروڑوں روپے کی لاگت سے ڈاکٹرز کو تعلیم دی جاتی ہے ، مگر وہ تربیت حاصل کرنے کے بعد اس سرزمین سے زیادہ یورپ، خلیج یا امریکہ کو اپنی پیشہ ورانہ منزل سمجھتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً 50سے 60فیصد تربیت یافتہ ڈاکٹر بیرونِ ملک جا رہے ہیں، جو ملک کے صحت کے نظام کے لیے نہایت خطرناک اشارہ ہے ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں سینیٹر انوشہ رحمٰن نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں تربیت حاصل کرنے والے ڈاکٹرز کی اکثریت ملک میں خدمات دینے کے بجائے غیر ملکی ملازمتوں کو ترجیح دے رہی ہے ۔ ان کے مطابق سب سے زیادہ پاکستانی ڈاکٹرز آئرلینڈ جا رہے ہیں، جہاں انہیں تقریباً 5000یورو ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے ۔ یہ اعداد و شمار محض افرادی ہجرت نہیں بلکہ پاکستان کے سماجی و معاشی نظام کے بگاڑ کی علامت ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں لاکھوں افراد علاج کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، وہاں سے مسیحاؤں کا یوں رخصت ہونا ایک قومی المیہ ہے ۔
سرکاری اسپتالوں میں روزانہ ہزاروں مریض علاج کے انتظار میں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، مگر اکثر انہیں نہ ڈاکٹر دستیاب ہوتا ہے ، نہ دوائیں، نہ سہولت۔ او پی ڈی کے اوقات میں اکثر ڈاکٹر یا تو غیر حاضر ہوتے ہیں یا مختصر وقت کے لیے آ کر پرائیویٹ کلینک کے بہانے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر شام میں اپنے کلینک پر ہزاروں روپے فیس وصول کرتے ہیں۔ غریب مریض جو دن بھر سرکاری اسپتالوں کے چکر کاٹ کر تھک جاتے ہیں، وہ آخرکار انہی ڈاکٹروں کے کلینک کا رخ کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ علاج وہیں ملے گا۔ یوں صحت ایک خدمت نہیں بلکہ کاروبار بن چکی ہے ۔فارماسوٹیکل کمپنیوں کا کردار بھی کسی حد تک اس زبوں حالی میں شامل ہے ۔ یہ کمپنیاں ڈاکٹروں کو کمیشن، تحائف اور بیرون ملک دوروں کی پیشکش کر کے مہنگی ادویات تجویز کرواتی ہیں۔ نتیجتاً مریض پر اضافی بوجھ پڑتا ہے ، جو پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ۔ ایک غریب مریض جب دوائی لینے کے لیے میڈیکل اسٹور پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک ہفتے کا کورس اس کی پوری تنخواہ کے برابر ہے ۔ اس معاشی ناانصافی کے باوجود، نظام میں کوئی شفافیت، احتساب یا اصلاح نظر نہیں آتی۔پاکستان میں طبی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو حکومت کی جانب سے سبسڈی، کم فیس، اور مفت تربیتی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ مگر جب وہ ڈاکٹر بن جاتے ہیں تو ملک کے عوام کی خدمت کے بجائے وہ غیر ملکی سہولتوں، بہتر تنخواہوں اور آرام دہ زندگیوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ ان کی اس ہجرت سے نہ صرف قومی وسائل کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ وہ عوام جو ان پر بھروسہ کرتے ہیں، مایوسی اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً 10,000 کے قریب نئے ڈاکٹر ملک میں تربیت حاصل کرتے ہیں، مگر ان میں سے نصف سے زیادہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔یہ صورتحال محض ڈاکٹرز کی ذاتی ترجیح نہیں بلکہ نظامی بدانتظامی کا نتیجہ بھی ہے ۔ ایک ڈاکٹر صرف اپنی ڈگری کے ساتھ نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ بھی معاشرے کا حصہ بنتا ہے ۔ اس کی تربیت میں قوم کے وسائل شامل ہوتے ہیں، اس لیے اس کی پہلی ترجیح اپنے عوام ہونی چاہیے ۔ مغرب جانے والے پاکستانی ڈاکٹرز وہاں کے سسٹم میں شامل ہو کر قابلِ قدر خدمات انجام دیتے ہیں، مگر اپنے ہی ملک میں ان کی کمی سے اسپتال ویران، وارڈز خالی اور مریض بے یار و مددگار رہ جاتے ہیں۔
یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ سرکاری ملازمت کرنے والے اکثر ڈاکٹر شام میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں۔ اس دوہری ذمہ داری نے نظام کی جڑیں ہلا دی ہیں۔ ایک طرف سرکاری اسپتال میں مریض ان کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں، دوسری طرف وہی ڈاکٹر شام کو اپنے کلینک میں انہی مریضوں کو مہنگی فیس پر دیکھتے ہیں۔ یہ اخلاقی اور قانونی دونوں لحاظ سے درست نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز کے لیے واضح اصول طے کرے کہ دورانِ ملازمت کسی قسم کی نجی پریکٹس کی اجازت نہ دی جائے ۔اسی طرح صحت کے شعبے میں شفافیت کے لیے فارماسوٹیکل کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے تعلقات کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے ۔ ہر ڈاکٹر کے نسخے کو ایک الیکٹرانک سسٹم سے جوڑا جائے تاکہ معلوم ہو کہ کس نے کس کمپنی کی دوا کیوں تجویز کی۔ اس طرح کمیشن کی بدعنوانی اور مفاداتی ٹکراؤ کو کم کیا جا سکتا ہے ۔
صحت عامہ کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اقدامات میں سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی بڑھانا، ڈاکٹرز کی مراعات میں اضافہ، اور دیہی علاقوں میں خدمات انجام دینے والوں کے لیے خصوصی انعامات شامل ہونے چاہئیں۔ اگر ایک ڈاکٹر کو ملک میں باعزت روزگار، محفوظ ماحول اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ بیرون ملک جانے کا ارادہ ترک کر سکتا ہے ۔مزید برآں، حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بیرون ملک جانے والے ڈاکٹرز کے لیے ایک مخصوص مدت کی پابندی عائد کی جائے ۔ مثال کے طور پر، جو ڈاکٹر سرکاری یونیورسٹی یا ادارے سے تعلیم حاصل کرے ، اسے کم از کم پانچ سال تک ملک میں خدمات دینے کی قانونی ذمہ داری ہونی چاہیے ۔ اگر وہ اس مدت سے پہلے بیرون ملک جانا چاہے تو اسے تربیت کی لاگت حکومت کو واپس کرنا پڑے ۔ اس طرح ایک نظم و ضبط اور قومی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گا۔
پاکستان میں صحت کی بدترین حالت کا ازالہ صرف پالیسی بیانات سے ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عملی اقدامات کیے جائیں۔ عوام کو سستی اور معیاری صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں، دیہی مراکز صحت کو فعال بنایا جائے ، اور بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔
آخر میں، یہ سمجھنا ہوگا کہ صحت کا نظام صرف ڈاکٹرز، ہسپتالوں یا دواؤں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہے . ایک ایسا عہد جس میں
ریاست اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت کو اولین ذمہ داری مانتی ہے ۔ اگر یہ عہد کمزور ہو جائے تو قوم کا اعتماد بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔ آج پاکستان کو اسی اعتماد کی بحالی کی ضرورت ہے ۔لہٰذا حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کرنے چاہئیں۔سرکاری ملازمت کے دوران پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کی جائے ۔تربیت یافتہ ڈاکٹرز کے لیے کم از کم پانچ سال ملکی خدمات لازم قرار دی جائیں۔ سرکاری اسپتالوں میں معیاری ادویات اور جدید آلات کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔ ڈاکٹرز کی تنخواہیں اور مراعات عالمی معیار کے مطابق بہتر کی جائیں تاکہ انہیں ہجرت پر مجبور نہ ہونا پڑے ۔فارماسوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ ڈاکٹروں کے مالی تعلقات پر شفاف نگرانی نظام قائم کیا جائے ۔ صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ عام آدمی کو علاج کی بنیادی سہولت مفت یا کم لاگت پر میسر ہو۔پاکستان کے صحت کے نظام کی بگڑتی نبض کو سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، ادارے ، اور خود ڈاکٹرز اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ علاج ایک پیشہ نہیں بلکہ عہدِ انسانیت ہے ۔ جب مسیحا اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے ، تو مریض صرف بستر پر نہیں، بلکہ امید کے تخت پر بھی مر جاتا ہے ۔
سرکاری ہسپتالوں کا معیار بین الاقوامی سطح کے مطابق کیا جائے . سیاستدان، بیورو کریٹس، اشرافیہ بھی سرکاری ہسپتالوں میں اپنا علاج کروائیں تاکہ ان کو بھی اس بات کا اندازہ ہو کہ غریبوں کو صحت عامہ کے کیسے مسائل درپیش ہیں. نجی پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی فیسوں علاج معالجہ پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے یہ صرف اشرافیہ کے لیے نہیں ہوں بلکہ انسانیت کی خدمت کے لیے ہوں۔مرنے کے بعد امیروں اور غریبوں کی قبر ایک جیسی ہوتی ہے تو پھر ہسپتالوں میں فرق کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت وجود هفته 11 اکتوبر 2025
پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت

مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی وجود هفته 11 اکتوبر 2025
مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی

بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا

ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر