... loading ...
محمد آصف
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس کی بنیاد عوامی رائے اور شفاف انتخابی عمل پر قائم ہے ۔جمہوریت کی روح عوام کے حقِ رائے دہی سے جڑی ہے ، لیکن جب انتخابی عمل میں شفافیت، غیرجانبداری اور عوامی اعتماد متاثر ہو جائے تو پورا نظام کمزور ہو جاتا ہے ۔ پاکستان میں قومی انتخابات کئی دہائیوں سے منعقد ہوتے آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے اکثر انتخابات پر دھاندلی، بدانتظامی، سیاسی دباؤ اور ادارہ جاتی کمزوریوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ان حالات نے نہ صرف عوام کے اعتماد کو متزلزل کیا ہے بلکہ سیاسی عدم استحکام کو بھی جنم دیا ہے ۔ اس پس منظر میں یہ بات واضح ہے کہ قومی انتخابات کے عمل میں بنیادی اصلاحات کی فوری اور سنجیدہ ضرورت ہے تاکہ جمہوری نظام کو مستحکم کیا جا سکے اور عوامی نمائندگی حقیقی معنوں میں ممکن ہو۔
پاکستان کے انتخابی عمل میں سب سے بڑی خامی شفافیت کی کمی ہے ۔ انتخابات کے نتائج اکثر متنازع رہتے ہیں اور ہارنے والی جماعت دھاندلی کے الزامات عائد کرتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا جذبہ کمزور ہوتا ہے اور سیاسی کشمکش بڑھتی ہے ۔ماضی میں 1977ئ، 1990ئ، 2002ئ، 2013ء 2018اور حتیٰ کہ 2024ء کے انتخابات بھی تنازعات کی زد میں آئے ۔ ان حالات نے یہ ثابت کیا ہے کہ محض انتخابی کمیشن کی موجودگی کافی نہیں بلکہ اس کے ڈھانچے ، طریقہ کار اور اختیارات میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں تاکہ اس ادارے کو حقیقی معنوں میں خود مختار اور قابلِ اعتماد بنایا جا سکے ۔ انتخابی عمل میں دھاندلی روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ پاکستان میں اب بھی بیشتر حلقوں میں ووٹ گنتی اور نتائج کی ترسیل روایتی طریقوں سے ہوتی ہے ،جس سے بے ضابطگیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (EVMs) اور بایومیٹرک تصدیق کا نظام استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن پاکستان میں اس پر سیاسی اختلافات کے باعث خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اگر پاکستان الیکٹرانک ووٹنگ اور بائیومیٹرک سسٹم کو شفاف طریقے سے اپنائے تو دھاندلی کے امکانات نہایت کم ہو سکتے ہیں اور نتائج پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ نظام کو مرحلہ وار متعارف کرایا جائے اور اس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کیا جائے ۔
پاکستان کے انتخابی نظام میں ایک اور بڑی کمی ووٹر لسٹوں کی درستگی اور بروقت اپ ڈیٹ نہ ہونا ہے ۔ لاکھوں ووٹرز کے نام یا تو فہرستوں میں شامل نہیں ہوتے یا غلط درج ہوتے ہیں، جس سے بڑی تعداد میں عوام اپنے حقِ رائے دہی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ نادرا کے ساتھ مل کر ہر ووٹر کی تفصیلات کو اپ ڈیٹ کرے اور بروقت درستگی یقینی بنائے تاکہ کوئی شہری ووٹ کے حق سے محروم نہ رہے ۔ اسی طرح ووٹ ڈالنے کے عمل کو زیادہ آسان اور سہل بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس میں حصہ لے سکیں۔ انتخابی مہم کے حوالے سے بھی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے دوران دولت کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے ، جس سے شفافیت بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ بڑے سرمایہ دار اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اپنے وسائل کے بل بوتے پر انتخابی عمل پر حاوی ہو جاتے ہیں، جبکہ متوسط اور نچلے طبقے کے امیدوار میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ انتخابی اخراجات پر مؤثر پابندی اور ان پر سخت نگرانی شفافیت کو بڑھا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ، انتخابی مہم میں منفی پروپیگنڈے اور مخالفین کے خلاف نفرت انگیز بیانات کے بجائے پالیسیوں اور عوامی مسائل پر توجہ دینے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔
ایک اور اہم پہلو خواتین اور محروم طبقات کی نمائندگی ہے ۔ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے عمل میں خواتین کی شمولیت بعض علاقوں میں اب بھی محدود ہے ۔ کئی دیہی اور قدامت پسند علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جاتا ہے جو آئین اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے ۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جانے چاہییں تاکہ ہر شہری کو بلا خوف و جبر اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ اسی طرح اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے بھی انتخابی عمل کو مزید سہل اور قابلِ رسائی بنایا جانا چاہیے ۔ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اتفاقِ رائے کی کمی ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کے مطابق انتخابی قوانین اور طریقہ کار پر مؤقف اختیار کرتی ہے ۔جب تک تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہیں دیتیں،
اصلاحات ممکن نہیں ہو سکتیں۔ انتخابی اصلاحات کے لیے ایک جامع چارٹر تشکیل دینا چاہیے جسے تمام جماعتیں قبول کریں اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے ۔
عدلیہ اور دیگر اداروں کا کردار بھی انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں اہم ہے ۔ انتخابات کے دوران شکایات اور تنازعات کو جلد اور غیر جانبدارانہ طور پر حل کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے ۔ اگر انتخابی تنازعات برسوں تک عدالتوں میں لٹکے رہیں تو جمہوری عمل کمزور ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ایک تیز اور مؤثر انتخابی عدالتی نظام قائم کیا جانا چاہیے جو جلد فیصلے کرے ۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی شفاف انتخابات کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میڈیا کو انتخابی عمل کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنی چاہیے اور عوام کو درست معلومات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ باشعور فیصلے کر سکیں۔ سول سوسائٹی اور انتخابی مبصرین کی شمولیت بھی اس عمل کو شفاف بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔
پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت محض سیاسی نعرہ نہیں بلکہ جمہوریت کے بقا کی بنیادی شرط ہے ۔ جب تک عوام کو یقین نہ ہو کہ ان کا ووٹ صحیح معنوں میںان کے نمائندے کو منتخب کرتا ہے ، تب تک سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ ایک شفاف،
منصفانہ اور جدید انتخابی نظام ہی پاکستان کو ایک مضبوط جمہوری ریاست بنانے کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ اگر بروقت اور سنجیدہ اصلاحات کی جائیں تو نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے جہاں جمہوریت واقعی عوام کی امنگوں
کی ترجمان ہے ۔
٭٭٭