... loading ...
محمد آصف
پاکستان میں انسانی حقوق کا تصور آئینِ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں شامل ہے ۔ آئین کے مطابق ہر شہری کو برابری، عزت، تحفظ اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے زمینی حقیقت اس آئینی وعدے سے بہت مختلف ہے۔ ملک میں مختلف طبقے ، مذہبی اقلیتیں، خواتین اور خاص طور پر خواجہ سرا برادری (Transgender Community) وہ گروہ ہیں جو معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی استحصال کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مضمون پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے خاص طور پر خواجہ سرا برادری کے حقوق، ان کے چیلنجز، ریاستی اقدامات، اور سماجی رویّوں کا تجزیہ پیش کرتا ہے ۔
انسانی حقوق کا قانونی و اخلاقی تصور
انسانی حقوق وہ آفاقی اصول ہیں جو ہر انسان کو صرف انسان ہونے کے ناتے حاصل ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا 1948ء کا ”عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق”کہتا ہے کہ ہر شخص کو آزادی، برابری، اور تحفظ کا حق حاصل ہے ، چاہے وہ کسی بھی نسل، جنس، مذہب، یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔پاکستان نے بھی اس اعلامیے پر دستخط کر رکھے ہیں اور آئینِ پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 8 تا 28 میں شہری آزادیوں اور حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ۔ لیکن ان حقوق کا حقیقی نفاذ سماجی شعور اور ادارہ جاتی عملداری کے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی عمومی صورتحال
پاکستان میں انسانی حقوق کے میدان میں کئی چیلنجز موجود ہیں۔ غربت، تعلیم کی کمی، عدالتی نظام کی سستی، پولیس کی کرپشن، اور سیاسی عدم استحکام نے بنیادی انسانی آزادیوں کو محدود کر رکھا ہے ۔ شہری آزادی، اظہارِ رائے ، مذہبی آزادی، اور صنفی برابری کے حوالے سے ملک کو عالمی سطح پر متعدد تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ خواتین پر تشدد، مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیاز، جبری تبدیلیِ مذہب، اور بچوں کے استحصال جیسے مسائل عام ہیں۔ ان تمام مظالم میں وہ طبقہ جو سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے ، وہ”خواجہ سرا” ہیں۔
خواجہ سرا کمیونٹی کی تاریخی حیثیت
برصغیر کی تاریخ میں خواجہ سرا صرف ایک سماجی اقلیت نہیں بلکہ ایک اہم ثقافتی ادارہ تھے ۔ مغلیہ دور میں یہ درباری، گلوکار، اور محافظ کے طور پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ لیکن برطانوی نوآبادیاتی قانون”Criminal Tribes Act 1871” نے انہیں”جرائم پیشہ طبقہ” قرار دے کر معاشرتی دھارے سے کاٹ دیا۔ یہ بدنامی اور نفرت آج تک ختم نہیں ہو سکی۔ آزادی کے بعد بھی ریاستی اور سماجی رویے میں ان کے لیے قبولیت پیدا نہ ہو سکی۔
موجودہ معاشرتی تصویر
پاکستان میں خواجہ سرا آج بھی شدید امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ انہیں گھروں، تعلیمی اداروں، دفاتر، اور حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بیشتر خواجہ سرا اپنے خاندانوں سے بے دخل کر دیے جاتے ہیں، اور سڑکوں پر یا گروہی کمیونٹیوں میں پناہ لیتے ہیں۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے اکثر کو بھیک مانگنے ، شادیوں اور میلوں میں ناچ گانے ، یا جنسی استحصال جیسے پیشوں کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے ۔ یہ ان کا انتخاب نہیں، بلکہ مجبوری کا راستہ ہے جو معاشرتی نفرت نے ان پر مسلط کیا ہے ۔
ریاستی سطح پر پیش رفت اور قوانین
پاکستان نے 2018ء میں ایک تاریخی قانون منظور کیا: (Protection of Rights) Act 2018 Transgender Persons ۔ اس قانون نے پہلی بار خواجہ سرا افراد کو باضابطہ طور پر شناخت، وراثت، تعلیم، روزگار، صحت، اور جائیداد کے مساوی حقوق فراہم کیے ۔ اس قانون کے تحت خواجہ سرا اپنی جنس خود شناخت کر سکتے ہیں، اور قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر قانونی دستاویزات پر اپنی شناخت درج کروا سکتے ہیں۔یہ قانون انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک انقلابی قدم تھا، لیکن بدقسمتی سے اس کا نفاذ ابھی تک مؤثر نہیں۔ بیشتر خواجہ سرا آج بھی نادرا دفاتر میں شناختی کارڈ بنوانے ، اسکولوں میں داخلہ لینے ، یا ملازمت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
معاشرتی رویّے اور مذہبی تناظر
پاکستانی معاشرہ عمومی طور پر قدامت پسند ہے ، اور صنفی غیر مطابقت کو اکثر مذہب یا اخلاقیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ تاہم اسلامی تاریخ میں ایسے افراد کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ نبی کریم ۖ کے دور میں بھی مُخنثین موجود تھے ، اور روایات میں انہیں بطور انسان عزت دینے اور ان کے حقوق محفوظ رکھنے کا ذکر ملتا ہے ۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے :”وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ” بنی اسرائیل:70) اللہ نے تمام انسانوں کو عزت دی ہے ۔ یہ آیت اس بات کا اعلان ہے کہ عزت و کرامت کسی جنس، رنگ یا شکل سے مشروط نہیں، بلکہ
انسانیت سے وابستہ ہے ۔ لہٰذا مذہب اسلام خواجہ سرا برادری کی تذلیل نہیں بلکہ ان کی حفاظت اور عزت کا درس دیتا ہے ۔
تعلیم، صحت اور روزگار کے چیلنجز
خواجہ سرا کمیونٹی کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے ۔ تعلیمی اداروں میں ہراسانی، مذاق اور تشدد کی وجہ سے وہ تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ صحت کے نظام میں بھی ان کے لیے کوئی مخصوص سہولتیں نہیں، حتیٰ کہ اسپتالوں میں ان کا علاج کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیر رسمی پیشوں میں مجبوراً مصروف ہیں۔ اگر انہیں تعلیم، تربیت، اور تحفظ فراہم کیا جائے تو وہ نہ صرف خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ معاشرتی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
سول سوسائٹی اور میڈیا کا کردار
گزشتہ چند سالوں میں سول سوسائٹی اور میڈیا نے اس معاملے پر شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں خواجہ سرا کرداروں کی نمائندگی پہلے سے بہتر ہوئی ہے ، جیسے”عَلویہ” اور”کودا” جیسے ڈرامے ۔ تاہم ابھی بھی یہ کردار اکثر مزاح یا منفی تاثر کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ میڈیا کو ذمہ داری کے ساتھ مثبت اور باوقار نمائندگی کو فروغ دینا ہوگا تاکہ معاشرہ ذہنی طور پر تبدیلی قبول کر سکے ۔
ریاست، مذہبی قیادت اور عوام کی ذمہ داری
ریاست کو چاہیے کہ وہ موجودہ قوانین پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے ، خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے تعلیم، صحت، اور روزگار کے خصوصی پروگرام تشکیل دے ۔ مذہبی رہنماؤں کو بھی اس حساس موضوع پر اصلاحی بیانیہ سامنے لانا چاہیے تاکہ عوام میں نفرت کے بجائے ہمدردی اور احترام پیداہو۔عوامی سطح پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کے فرد ہیں، ان کا مذاق اڑانا یا ان سے نفرت کرنا دراصل اپنی انسانیت کا انکار ہے ۔
نتیجہ
پاکستان میں انسانی حقوق کا تصور صرف تب مکمل ہو سکتا ہے جب معاشرے کا ہر طبقہ، خصوصاً خواجہ سرا برادری، مساوی حقوق اور عزت کے ساتھ جینے کے قابل ہو۔ یہ صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری بھی ہے ۔ ریاست اگر تعلیم، روزگار اور سماجی تحفظ کے مواقع فراہم کرے ، اور عوام ان کے ساتھ انسانیت کے رشتے کو بحال کریں، تو پاکستان ایک حقیقی معنوں میں انسانی وقار اور برابری کا علمبردار ملک بن سکتا ہے ۔
٭٭٭