وجود

... loading ...

وجود

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

جمعه 10 اکتوبر 2025 پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

محمد آصف

پاکستان میں انسانی حقوق کا تصور آئینِ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں شامل ہے ۔ آئین کے مطابق ہر شہری کو برابری، عزت، تحفظ اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے زمینی حقیقت اس آئینی وعدے سے بہت مختلف ہے۔ ملک میں مختلف طبقے ، مذہبی اقلیتیں، خواتین اور خاص طور پر خواجہ سرا برادری (Transgender Community) وہ گروہ ہیں جو معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی استحصال کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مضمون پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے خاص طور پر خواجہ سرا برادری کے حقوق، ان کے چیلنجز، ریاستی اقدامات، اور سماجی رویّوں کا تجزیہ پیش کرتا ہے ۔
انسانی حقوق کا قانونی و اخلاقی تصور
انسانی حقوق وہ آفاقی اصول ہیں جو ہر انسان کو صرف انسان ہونے کے ناتے حاصل ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا 1948ء کا ”عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق”کہتا ہے کہ ہر شخص کو آزادی، برابری، اور تحفظ کا حق حاصل ہے ، چاہے وہ کسی بھی نسل، جنس، مذہب، یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔پاکستان نے بھی اس اعلامیے پر دستخط کر رکھے ہیں اور آئینِ پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 8 تا 28 میں شہری آزادیوں اور حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ۔ لیکن ان حقوق کا حقیقی نفاذ سماجی شعور اور ادارہ جاتی عملداری کے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی عمومی صورتحال
پاکستان میں انسانی حقوق کے میدان میں کئی چیلنجز موجود ہیں۔ غربت، تعلیم کی کمی، عدالتی نظام کی سستی، پولیس کی کرپشن، اور سیاسی عدم استحکام نے بنیادی انسانی آزادیوں کو محدود کر رکھا ہے ۔ شہری آزادی، اظہارِ رائے ، مذہبی آزادی، اور صنفی برابری کے حوالے سے ملک کو عالمی سطح پر متعدد تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ خواتین پر تشدد، مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیاز، جبری تبدیلیِ مذہب، اور بچوں کے استحصال جیسے مسائل عام ہیں۔ ان تمام مظالم میں وہ طبقہ جو سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے ، وہ”خواجہ سرا” ہیں۔
خواجہ سرا کمیونٹی کی تاریخی حیثیت
برصغیر کی تاریخ میں خواجہ سرا صرف ایک سماجی اقلیت نہیں بلکہ ایک اہم ثقافتی ادارہ تھے ۔ مغلیہ دور میں یہ درباری، گلوکار، اور محافظ کے طور پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ لیکن برطانوی نوآبادیاتی قانون”Criminal Tribes Act 1871” نے انہیں”جرائم پیشہ طبقہ” قرار دے کر معاشرتی دھارے سے کاٹ دیا۔ یہ بدنامی اور نفرت آج تک ختم نہیں ہو سکی۔ آزادی کے بعد بھی ریاستی اور سماجی رویے میں ان کے لیے قبولیت پیدا نہ ہو سکی۔
موجودہ معاشرتی تصویر
پاکستان میں خواجہ سرا آج بھی شدید امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ انہیں گھروں، تعلیمی اداروں، دفاتر، اور حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بیشتر خواجہ سرا اپنے خاندانوں سے بے دخل کر دیے جاتے ہیں، اور سڑکوں پر یا گروہی کمیونٹیوں میں پناہ لیتے ہیں۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے اکثر کو بھیک مانگنے ، شادیوں اور میلوں میں ناچ گانے ، یا جنسی استحصال جیسے پیشوں کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے ۔ یہ ان کا انتخاب نہیں، بلکہ مجبوری کا راستہ ہے جو معاشرتی نفرت نے ان پر مسلط کیا ہے ۔
ریاستی سطح پر پیش رفت اور قوانین
پاکستان نے 2018ء میں ایک تاریخی قانون منظور کیا: (Protection of Rights) Act 2018 Transgender Persons ۔ اس قانون نے پہلی بار خواجہ سرا افراد کو باضابطہ طور پر شناخت، وراثت، تعلیم، روزگار، صحت، اور جائیداد کے مساوی حقوق فراہم کیے ۔ اس قانون کے تحت خواجہ سرا اپنی جنس خود شناخت کر سکتے ہیں، اور قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر قانونی دستاویزات پر اپنی شناخت درج کروا سکتے ہیں۔یہ قانون انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک انقلابی قدم تھا، لیکن بدقسمتی سے اس کا نفاذ ابھی تک مؤثر نہیں۔ بیشتر خواجہ سرا آج بھی نادرا دفاتر میں شناختی کارڈ بنوانے ، اسکولوں میں داخلہ لینے ، یا ملازمت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
معاشرتی رویّے اور مذہبی تناظر
پاکستانی معاشرہ عمومی طور پر قدامت پسند ہے ، اور صنفی غیر مطابقت کو اکثر مذہب یا اخلاقیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ تاہم اسلامی تاریخ میں ایسے افراد کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ نبی کریم ۖ کے دور میں بھی مُخنثین موجود تھے ، اور روایات میں انہیں بطور انسان عزت دینے اور ان کے حقوق محفوظ رکھنے کا ذکر ملتا ہے ۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے :”وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ” بنی اسرائیل:70) اللہ نے تمام انسانوں کو عزت دی ہے ۔ یہ آیت اس بات کا اعلان ہے کہ عزت و کرامت کسی جنس، رنگ یا شکل سے مشروط نہیں، بلکہ
انسانیت سے وابستہ ہے ۔ لہٰذا مذہب اسلام خواجہ سرا برادری کی تذلیل نہیں بلکہ ان کی حفاظت اور عزت کا درس دیتا ہے ۔
تعلیم، صحت اور روزگار کے چیلنجز
خواجہ سرا کمیونٹی کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے ۔ تعلیمی اداروں میں ہراسانی، مذاق اور تشدد کی وجہ سے وہ تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ صحت کے نظام میں بھی ان کے لیے کوئی مخصوص سہولتیں نہیں، حتیٰ کہ اسپتالوں میں ان کا علاج کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیر رسمی پیشوں میں مجبوراً مصروف ہیں۔ اگر انہیں تعلیم، تربیت، اور تحفظ فراہم کیا جائے تو وہ نہ صرف خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ معاشرتی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
سول سوسائٹی اور میڈیا کا کردار
گزشتہ چند سالوں میں سول سوسائٹی اور میڈیا نے اس معاملے پر شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں خواجہ سرا کرداروں کی نمائندگی پہلے سے بہتر ہوئی ہے ، جیسے”عَلویہ” اور”کودا” جیسے ڈرامے ۔ تاہم ابھی بھی یہ کردار اکثر مزاح یا منفی تاثر کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ میڈیا کو ذمہ داری کے ساتھ مثبت اور باوقار نمائندگی کو فروغ دینا ہوگا تاکہ معاشرہ ذہنی طور پر تبدیلی قبول کر سکے ۔
ریاست، مذہبی قیادت اور عوام کی ذمہ داری
ریاست کو چاہیے کہ وہ موجودہ قوانین پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے ، خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے تعلیم، صحت، اور روزگار کے خصوصی پروگرام تشکیل دے ۔ مذہبی رہنماؤں کو بھی اس حساس موضوع پر اصلاحی بیانیہ سامنے لانا چاہیے تاکہ عوام میں نفرت کے بجائے ہمدردی اور احترام پیداہو۔عوامی سطح پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کے فرد ہیں، ان کا مذاق اڑانا یا ان سے نفرت کرنا دراصل اپنی انسانیت کا انکار ہے ۔
نتیجہ
پاکستان میں انسانی حقوق کا تصور صرف تب مکمل ہو سکتا ہے جب معاشرے کا ہر طبقہ، خصوصاً خواجہ سرا برادری، مساوی حقوق اور عزت کے ساتھ جینے کے قابل ہو۔ یہ صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری بھی ہے ۔ ریاست اگر تعلیم، روزگار اور سماجی تحفظ کے مواقع فراہم کرے ، اور عوام ان کے ساتھ انسانیت کے رشتے کو بحال کریں، تو پاکستان ایک حقیقی معنوں میں انسانی وقار اور برابری کا علمبردار ملک بن سکتا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025
لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں

وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر