وجود

... loading ...

وجود

مودی کی بدلتی شناخت چائے والے سے راون تک

بدھ 08 اکتوبر 2025 مودی کی بدلتی شناخت چائے والے سے راون تک

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بھارت کی اپوزیشن نے مودی کی پوزیشن کا جنازہ نکال دیا ہے ۔سب سے زیادہ بھارت کی اپوزیشن نے مودی کو القاب سے نوازا ہے۔ اب تازہ ترین طنز کانگریس کے رہنما ادت راج کی طرف سے آیا ہے ، جنہوں نے نریندر مودی کو جدید دور کا ”راون” قرار دیا۔ یعنی مودی کا سفر چائے والے سے شروع ہوا اور اب راون تک پہنچ چکا ہے ۔بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!
مودی کی حرکتیں تو راون والی ہی ہیں۔ بھارت کی سیاست میں طنز و القاب کی روایت پرانی ہے ، مگر نریندر مودی کے عروج کے ساتھ یہ روایت ایک نئی شدت اختیار کر گئی۔ ایک طرف ان کے پرستار انہیں “وشنو کا اوتار”اور “نئے بھارت کا معمار”کہتے ہیں، تو دوسری طرف ان کے ناقدین نے ان کے لیے ایسے طنزیہ نام گھڑ رکھے ہیں جو صرف سیاسی مخالفت نہیں بلکہ عوامی جذبات اور غصے کا عکاس ہیں۔ مودی کے ہر دور میں ان کے مخالفین نے انہیں نئے القابات دیے ، جو کبھی سوشل میڈیا کے نعرے بنے ، کبھی عوامی احتجاج کی زبان۔
مودی کے سیاسی سفر کا آغاز ایک عام “چائے والے ” کے طور پر ہوا۔ یہ لفظ ان کے ماضی کی ایک حقیقت تھا، مگر اپوزیشن نے اسے ابتدا میں طنز کے طور پر استعمال کیا۔ راہول گاندھی اور دیگر رہنماؤں کے جلسوں میں یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ ایک ”چائے والا”ملک کی قیادت کے قابل نہیں۔ مگر مودی نے نہایت چالاکی سے اسی طنز کو اپنی طاقت بنا لیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو عام بھارتی کے نمائندے کے طور پر پیش کیا اور ”میں بھی چائے والا ہوں”کا نعرہ عوامی تحریک بن گیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جب ان کی پالیسیاں سرمایہ دار طبقے کے حق میں جانے لگیں، تو یہی ”چائے والا”اب طنز کا دوسرا رُخ بن گیا۔ عوام کہنے لگے کہ وہ چائے تو بیچتا تھا، مگر اب خواب بیچتا ہے ۔مودی کے خلاف سب سے سخت اور متنازع لقب ”گجرات کا قصائی”(Butcher of Gujarat)ہے ، جو 2002 کے گجرات فسادات کے بعد عالمی سطح پر ان کے نام کے ساتھ جڑ گیا۔ ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل اور بے گھر ہونے کے بعد بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پر ریاستی ناکامی بلکہ بعض اوقات چشم پوشی کے الزامات لگائے ۔ امریکی حکومت نے تو ایک وقت میں انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ لقب بھارتی سیاست میں آج بھی ان کے مخالفین کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ اگرچہ مودی خود کو اس وقت سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں، مگر دنیا کے کئی حلقے آج بھی انہیں ”گجرات کا قصائی”کہہ کر یاد کرتے ہیں، اور یہ نام ان کی سیاسی تاریخ کا ایک تاریک باب بن چکا ہے ۔جب وہ اقتدار میں آئے تو ایک نئی لغت نے جنم لیا۔ ”فیکو” (Feku)جھوٹ بولنے والا ”شیخی بگھارنے والا” یا ”بڑھکیں مارنے والا”۔ یہ نام ان کے وعدوں اور تقریروں پر طنز کے طور پر اپوزیشن نے دیا۔ یہ لفظ کانگریس کے کارکنان سے نکل کر پورے بھارت میں پھیل گیا۔ ان کے بلند و بانگ دعوے ، جن میں ”سب کا ساتھ سب کا وکاس”، ”ہر ہاتھ کو کام”، اور ”بلیک منی واپس لانے ”کے وعدے شامل تھے ، پورے نہ ہو سکے ۔ تب اپوزیشن اور عوام نے انہیں ”فیکو”کہنا شروع کیا، یعنی وہ شخص جو بڑھکیں تو مارتا ہے مگر عمل نہیں کرتا۔
راہول گاندھی نے مودی کے قیمتی لباسوں اور کاروباری طبقے سے قریبی تعلقات پر انہیں ”سوٹ بوٹ والا وزیراعظم” کہا۔ یہ اصطلاح اس وقت وجود میں آئی جب مودی نے اپنے نام سے کڑھائی کیا ہوا قیمتی سوٹ ایک سرکاری تقریب میں پہنا، جس کی نیلامی بعد میں لاکھوں روپے میں ہوئی۔ یہ طنز دراصل مودی کے اس تضاد پر تھا کہ جو شخص خود کو ”چائے والا”کہتا ہے ، وہ اب اربوں کی سرکاروں کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے ۔ اسی تناظر میں سوشل میڈیا پر انہیں ”پروپیگنڈا ماسٹر”اور ”ایونٹ بابا”بھی کہا جانے لگا، کیونکہ ان کے ہر اقدام کے ساتھ کیمرے ، تشہیر اور تالیوں کا شور ضرور ہوتا ہے ۔
مودی کے ناقدین نے ان کے نظریاتی پس منظر کو بھی نشانہ بنایا۔ انہیں ”پراڈکٹ آف آر ایس ایس”کہا گیا، یعنی وہ شخصیت جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریات سے جنم لیتی ہے وہی تنظیم جس پر ہندو قوم پرستی اور اقلیت دشمنی کے الزامات ہیں۔ یہی پس منظر آگے بڑھ کر ”نفر ت کا تاجر”(Merchant of Hate)کا لقب بنا، جو انسانی حقوق کے کارکنوں اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے انہیں دیا۔ اس لقب کے ذریعے یہ باور کرایا گیا کہ مودی کی سیاست محبت نہیں، نفرت کے ایندھن پر چلتی ہے ۔گزشتہ دنوں کانگریس کے رہنما ادت راج نے نریندر مودی کو جدید دور کا ”راون”قرار دیا۔ ادت راج نے اپنے بیان میں کہا کہ مودی نے بھارت کی مینو فیکچرنگ کو کمزور کر دیا، درآمدات پر انحصار بڑھا دیا اور چین کے سامنے معیشت کو جھکا دیا ہے ۔ ان کے مطابق مودی جدید راون ہیں، جو سونے کا محل تعمیر کر رہے ہیں، مگر جس دن وہ اس میں داخل ہوں گے ، وہ خود اس کی آگ میں جل جائیں گے ۔ یہ تشبیہ محض مذہبی علامت نہیں بلکہ ایک گہرا سیاسی طنز ہے ، جو مودی کی دولت پرستی، طاقت کے غرور اور عوامی مصائب سے لاتعلقی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔یہ سب طنزیہ القابات ”چائے والا”، ”گجرات کا قصائی”، ”فیکو”، ”سوٹ بوٹ والا وزیراعظم”، ”نفر ت کا تاجر”، ”ایونٹ بابا”، اور ”راون” دراصل اس بات کی علامت ہیں کہ عوامی سطح پر مودی کی شخصیت کو کتنے مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ان کے حامی انہیں بھارت کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، جبکہ ان کے مخالف انہیں ایک شاطر سیاستدان، ماہر تشہیر باز اور معاشی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
مودی کے بیانات، ان کے رویے اور ان کی سیاست نے بھارتی سماج میں ایک تضاد پیدا کر دیا ہے ۔ وہ خود کو ”چوکیدار”یعنی محافظ کہتے ہیں، مگر ان کے ناقدین انہیں ”چور”کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ غریب کا بیٹا ہیں، مگر ان کی پالیسیاں امیروں کے مفاد میں نظر آتی ہیں۔ وہ خود کو ”سب کا ساتھ” کے علمبردار کہتے ہیں، مگر ان کے دور میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ طنزیہ نام صرف الفاظ نہیں بلکہ عوامی ردِعمل کی کہانی ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ بھارت میں سیاسی اختلاف محض رائے کا فرق نہیں رہا، بلکہ جذبات، مذہب اور شناخت کا ٹکراؤ بن چکا ہے ۔ ایک طرف مودی کا برانڈ دن بہ دن مضبوط ہو رہا ہے ، تو دوسری طرف ان کے مخالفین کے طعنے بھی اسی رفتار سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کی شخصیت ایک ایسا سیاسی آئینہ بن چکی ہے جس میں ہر طبقہ اپنی سوچ کا عکس دیکھتا ہے ۔کوئی ”مسیحا”، کوئی ”قصائی”، کوئی ”راون”۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کی سیاست طنز کے شور سے نکل کر سنجیدہ احتساب کی طرف بڑھے ۔ اگر رہنما اپنے القابات کے بجائے عوام کے مسائل پر توجہ دیں، اگر میڈیا تعریفوں کے بجائے سوال اٹھائے ، اور عوام نفرت کی زبان کے بجائے دلیل کی زبان اختیار کریں، تو شاید وہ دن آئے جب کسی وزیر اعظم کو ”چائے والا”، ”فیکو”یا ”راون ”نہیں، بلکہ ”جمہوریت کا خادم ”کہا جائے ۔تبھی بھارت اپنی سیاست کے طنزیہ عہد سے نکل کر ایک بالغ جمہوریت کی طرف بڑھ سکے گا، جہاں القابات نہیں، کردار بولے گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025
لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں

وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر