... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
سندھ حکومت نے نظام تعلیم میں نیا تجربہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ہمارا ملک کا تعلیمی ڈھانچہ گزشتہ عرصہ دراز سے پستی کا شکار ہے ۔ اس صورتحال میں نئے تجربات کرنا معیار تعلیمات کو متاثر کر سکتا ہے ۔پاکستان خصوصاً سندھ کا تعلیمی ڈھانچہ عشروں سے زبوں حالی کا شکار ہے ۔ تعلیمی اداروں کی بگڑتی حالت، نصاب کی فرسودگی، اساتذہ کی غیر ذمہ داری اور انتظامی بدعنوانیوں نے تعلیم کو زوال کی اس منزل پر پہنچا دیا ہے جہاں ایک عام شہری اپنے بچوں کے مستقبل کو غیر یقینی اندیشوں میں گھرا ہوا پاتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں سندھ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ صوبے کے ہر ضلع کے کم از کم ایک سرکاری اسکول میں او اور اے لیول پروگرام متعارف کرائے گی۔ بظاہر یہ قدم ایک ترقی پسند اقدام دکھائی دیتا ہے مگر اگر دور رس نگاہوں سے دیکھا جائے تو یہ دراصل ہمارے موجودہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ نظامِ تعلیم پر حکومت کی طرف سے ایک سرکاری اعلانِ عدم اعتماد ہے ۔یہ سوال سب سے پہلے ذہن میں اُبھرتا ہے کہ جب صوبے کے بیشتر سرکاری اسکول بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، وہاں عالمی معیار کے پروگرام کیسے متعارف کرائے جائیں گے ؟ سندھ کے تعلیمی ڈھانچے کی جو تصویر ہمارے سامنے ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گھوسٹ اسکولوں کی لمبی فہرست، فرنیچر کی کمی، لیبارٹریوں کا فقدان، بیت الخلا اور پینے کے صاف پانی تک کی عدم دستیابی، اساتذہ کی حاضری میں بددیانتی، اور سب سے بڑھ کر امتحانی نظام میں سرایت کر جانے والی بدعنوانیاں ہمارے تعلیمی بحران کے اہم پہلو ہیں۔ ایسے ماحول میں او اور اے لیول جیسے پروگرام کا اعلان خوش کن ضرور ہے لیکن حقیقت میں یہ محض ایک سیاسی نعرہ اور نمائشی اقدام معلوم ہوتا ہے ۔
ہمارا میٹرک کا نصاب وقت کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ چکا ہے ۔ دنیا بھر میں تعلیم اب محض رٹنے یا کتابوں کے حافظے کا کھیل نہیں رہی بلکہ مہارت پر مبنی نظام، تنقیدی سوچ، ٹیکنالوجی کے انضمام اور عملی زندگی کی تیاری پر مرکوز ہے ۔ دوسری طرف سندھ کے اکثر اسکول آج بھی پرانی کتابوں، یکطرفہ تدریسی ماڈلز اور امتحانی مشقوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر بنیاد ہی کمزور ہو تو او اور اے لیول جیسے پروگرام کے اضافے سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوگا۔ اس سے ایک نئی طبقاتی خلیج کھڑی ہوگی جس میں ایک طرف چند خوش قسمت بچے عالمی معیار کی ڈگریاں لیں گے اور دوسری طرف لاکھوں طلبہ فرسودہ میٹرک اور انٹر کے نظام میں جکڑے رہیں گے ۔ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ بیرونی ماڈلز کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انہیں مقامی ثقافت، سماجی حقیقت اور معاشی حالات کے ساتھ ہم آہنگ نہ کیا جائے ۔ او اور اے لیول بنیادی طور پر ایک انگریزی میڈیم اور مہنگا نظامِ تعلیم ہے ۔ یہ پروگرام شہروں کے چند نجی اداروں میں محدود ہے اور وہاں بھی صرف وہی بچے داخلہ لے سکتے ہیں جن کے والدین زیادہ فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اگر حکومت کہتی ہے کہ وہ رجسٹریشن اور امتحانی فیس میں سبسڈی دے گی تو یہ سہولت بھی چند مخصوص اسکولوں تک محدود رہے گی۔ نتیجتاً چند ہزار طلبہ تو عالمی معیار کی سند حاصل کر لیں گے لیکن باقی لاکھوں طلبہ اسی زبوں حال میٹرک و انٹر کے نصاب میں محصور رہیں گے ۔ یہ واضح طبقاتی تفریق تعلیمی ناہمواری کو مزید گہرا کرے گی اور معاشرے میں عدم مساوات کے مسائل کو بڑھا دے گی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ حکومت کے مالی وسائل پہلے ہی محدود ہیں۔ صوبائی تعلیم کا بجٹ زیادہ تر تنخواہوں اور انتظامی اخراجات میں خرچ ہو جاتا ہے ۔ ایسے میں او اور اے لیول پروگرام کے لیے وسائل مختص کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے سے محروم اسکولوں میں سہولتوں کی فراہمی مزید کم ہو جائے گی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم پہلے اسکولوں کی عمارتیں، کرسیاں، پانی کے ٹینک اور بیت الخلا ٹھیک کریں گے یا عالمی سرٹیفکیٹ بانٹ کر اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بنیادی ڈھانچہ درست نہ کیا گیا تو او اور اے لیول بھی محض ایک نمائشی منصوبہ ثابت ہوگا جس کے پیچھے پوشیدہ مقاصد زیادہ اور عوامی مفاد کم ہوں گے ۔
تعلیمی اصلاحات کا آغاز بنیادی سطح سے ہونا چاہیے ۔ سب سے پہلے اساتذہ کی تربیت ناگزیر ہے ۔ ایک بہتر استاد پورے نظام کو بدل سکتا ہے ، جبکہ غیر تربیت یافتہ استاد اعلیٰ نصاب بھی بے کار کر دیتا ہے ۔ اسی طرح امتحانی نظام کی شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ نقل، سفارش اور بدعنوانی کا کلچر ختم ہو۔ نصاب کی تجدید بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے نصاب میں سائنسی تحقیق، ٹیکنالوجی کے جدید پہلو اور تنقیدی سوچ کے عناصر کو شامل کرنا ہوگا تاکہ طلبہ عملی زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل ہوں۔اس کے علاوہ سہولتوں کی فراہمی کو بنیادی حیثیت دینی ہوگی۔ ایک ایسا اسکول جہاں پانی نہ ہو، فرنیچر ٹوٹا ہوا ہو اور بیت الخلا غائب ہو، وہاں کسی بھی جدید پروگرام کی کامیابی ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے سے موجود اسکولوں کو فعال کرے ، گھوسٹ اسکولوں کو ختم کرے ، اور اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنائے ۔ اس کے بعد ہی کسی عالمی ماڈل کی بات کرنا سنجیدہ اقدام تصور ہوگا۔اصلاحات کا ایک اور پہلو پالیسی کے نفاذ، نگرانی اور مسلسل جائزے کا میکانزم ہے ۔ ہمارے ہاں اکثر پالیسیاں کاغذی حد تک محدود رہتی ہیں کیونکہ ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی واضح نظام موجود نہیں ہوتا۔ کوئی بھی تعلیمی پالیسی اس وقت تک حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ نہ لیا جائے اور خامیوں کو دور نہ کیا جائے ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارا میٹرک اور انٹر سسٹم اس لیے ناکام ہے کہ اسے چلانے والے بدنیت اور نااہل ہیں۔ جب تک نیت اور حکمت عملی درست نہیں ہوگی، کوئی بھی نیا پروجیکٹ یا دعویٰ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ او اور اے لیول پروگرام کو فوری طور پر متعارف کرانے کے بجائے صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے موجودہ نظام کو بہتر بنائے ۔ اگر ہمارے اسکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کر دی جائیں، نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال دیا جائے ، اساتذہ کو تربیت دی جائے اور امتحانی نظام کو شفاف بنایا جائے تو پھر شاید ہمیں او اور اے لیول جیسے پروگرام کی ضرورت بھی نہ پڑے ۔ لوگ خود بخود مقامی نظام پر اعتماد کریں گے کیونکہ اصل مسئلہ نصاب میں نہیں بلکہ اس کے نفاذ اور انتظام میں ہے ۔یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ سندھ حکومت نے گزشتہ کئی دہائیوں میں تعلیم کو نظر انداز کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ والدین او اور اے لیول جیسے غیر ملکی ماڈلز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اگر حکومت نے میٹرک اور انٹر سسٹم کو بہتر بنایا ہوتا تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت نمائشی اعلانات کے بجائے عملی اصلاحات پر توجہ دے ۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت او اور اے لیول پروگرام کو فوری ترجیح نہ دے بلکہ اسے طویل المدتی منصوبہ کے طور پر سوچے ۔ اولین مرحلے میں صوبے کے تمام اسکولوں کو فعال بنایا جائے ، اساتذہ کی تربیت کو یقینی بنایا جائے ، نصاب کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے ، سہولتوں کی فراہمی کو لازمی قرار دیا جائے اور امتحانی نظام کو شفاف بنایا جائے ۔ جب یہ تمام اقدامات مکمل ہو جائیں گے تو خود بخود ہمارے تعلیمی ادارے عالمی معیار کے پروگرام چلانے کے اہل ہو جائیں گے ۔ بصورت دیگر او اور اے لیول کا نعرہ بھی ان کئی نعروں کی طرح محض ایک سیاسی نعرہ ثابت ہوگا جس کا کوئی عملی فائدہ نہ ہو سکے گا۔یہی عقلمندی ہے کہ ہم خواب دکھانے کے بجائے حقیقت پر کام کریں، نمائشی پروجیکٹس کے بجائے بنیادی ڈھانچہ درست کریں اور اپنے نظام کو اتنا مضبوط بنائیں کہ عوام کو غیر ملکی ماڈلز کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ یہ قدم ہی سندھ کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے اور حقیقی معنوں میں ترقی کی بنیاد رکھ سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔