وجود

... loading ...

وجود

اساتذہ کو خراجِ تحسین

اتوار 05 اکتوبر 2025 اساتذہ کو خراجِ تحسین

پروفیسر شاداب احمد صدیقی
5 اکتوبر عالمی یومِ اساتذہ 2025 دنیا بھر کے اساتذہ کی خدمات کو تسلیم کرنے اور ان کی قدردانی کا دن ہے ۔ یہ موقع اس بات کا جشن منانے کا ہے کہ اساتذہ کس طرح معاشرے پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، طلبہ کو کامیابی کے لیے ضروری مہارتیں، علم اور اقدار فراہم کرتے ہیں۔ یہ دن ہمیں اس امر کی یاد دہانی بھی کراتا ہے کہ معیاری تعلیم کس قدر اہم ہے اور اسے یقینی بنانے میں اساتذہ کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ورلڈ ٹیچرز ڈے اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو اپنی محنت اور لگن سے مستقبل کو سنوارتے ہیں، علم بانٹتے ہیں اور نئی نسل کے ذہنوں کو جِلا بخشتے ہیں۔ یہ عالمی دن اُن انمول خدمات کو تسلیم کرتا ہے جو اساتذہ نسل در نسل ادا کرتے آئے ہیں۔ اس دن کی ابتدا 1994 میں ہوئی جب یونیسکو نے اسے باضابطہ طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ 1966میں بین الاقوامی سطح پر طے پانے والے ILO/UNESCO Recommendation کو یاد دلایا جائے ، جس میں اساتذہ کے حقوق، فرائض اور پیشہ ورانہ تربیت کے اصول متعین کیے گئے تھے ۔ وقت کے ساتھ اس دن کی اہمیت میں اضافہ ہوا کیونکہ دنیا کو یہ احساس ہونے لگا کہ اگر تعلیمی نظام کو مضبوط بنانا ہے تو سب سے پہلے استاد کو بااختیار اور باعزت بنانا ہوگا۔ آج یہ دن 100 سے زائد ممالک میں عقیدت اور احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔
ہر سال اس دن کی ایک تھیم مقرر کی جاتی ہے جو تعلیمی چیلنجز اور اساتذہ کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے ۔ 2025کے لیے یونیسکو نے جو تھیم منتخب کی ہے وہ ہے : Recasting teaching as a collaborative profession۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ تدریس کو ایک انفرادی ذمہ داری کے بجائے ایک اجتماعی اور باہمی تعاون پر مبنی پیشہ سمجھا جائے ۔ یعنی تعلیم صرف استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کی مشترکہ کاوش ہے ، جس میں والدین، تعلیمی ادارے ، حکومتیں اور کمیونٹیز سب شریک ہیں۔ اس تھیم کے ذریعے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اکیسویں صدی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے تعلیم میں تنوع، جدت اور اشتراک لازمی ہے ۔ یونیسکو کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 44 ملین اساتذہ مختلف تعلیمی سطحوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود مزید 69ملین اساتذہ کی ضرورت ہے تاکہ 2030تک تعلیم سب کے لیے کے ہدف کو پورا کیا جا سکے ۔ اس کمی کی سب سے زیادہ شدت ترقی پزیر ممالک میں ہے جہاں نہ صرف تعلیمی وسائل کم ہیں بلکہ اساتذہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ بھی اکثر مایوس کن ہوتا ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں استاد کو قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے ۔ فن لینڈ، جاپان اور جنوبی کوریا میں استاد کی عزت اتنی زیادہ ہے کہ معاشرہ انہیں قوم کی تعمیر کا ستون مانتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کا تعلیمی نظام دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط تصور کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر فن لینڈ میں اساتذہ کو ڈاکٹروں اور وکلاء کے برابر سماجی حیثیت حاصل ہے اور ان کے لیے سخت انتخابی عمل رکھا جاتا ہے تاکہ صرف بہترین اور باصلاحیت افراد ہی تدریس کے شعبے میں داخل ہو سکیں۔ نتیجتاً وہاں کے تعلیمی نتائج دنیا کے دیگر ممالک سے نمایاں ہیں۔اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صورتحال مختلف ہے ۔ یہاں استاد کو عزت تو دی جاتی ہے لیکن عملی طور پر انہیں وہ مقام اور سہولتیں نہیں ملتیں جن کے وہ مستحق ہیں۔ آج بھی لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور جو بچے اسکول جاتے ہیں وہاں اکثر اساتذہ کی کمی، ناکافی تربیت اور محدود وسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق پاکستان کو اپنے تعلیمی اہداف پورے کرنے کے لیے کم از کم مزید 1.4ملین اساتذہ درکار ہیں۔ مگر جب موجودہ اساتذہ کو بروقت تنخواہیں نہیں ملتیں، تربیتی پروگرام ناکافی ہیں اور انہیں محض ایک سرکاری ملازم سمجھا جاتا ہے تو نئی نسل کی تعلیم کا معیار کیسے بلند ہو سکتا ہے ؟اساتذہ کے مسائل صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ ایک مشترکہ چیلنج ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل تعلیم کے بڑھتے ہوئے تقاضوں نے استاد کے کردار کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب استاد کو صرف کتاب پڑھانے والا نہیں بلکہ ایک رہنما، محقق، ماہر نفسیات اور ٹیکنالوجی کے ماہر کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے ۔ یہ سب تقاضے تبھی پورے ہو سکتے ہیں جب اساتذہ کو بھرپور تربیت، جدید سہولتیں اور پالیسی سطح پر حمایت فراہم کی جائے ۔یہ حقیقت بھی ہے کہ استاد کے بغیر کوئی تحریک یا انقلاب کامیاب نہیں ہوتا۔ استاد کو محض پیشہ ور نہیں بلکہ ایک نظریاتی معمار بھی کہا جاتا ہے ۔
پاکستان کے تناظر میں مسائل خاصے سنگین ہیں۔ دیہی علاقوں میں اکثر اسکول محض نام کے لیے قائم ہیں جہاں نہ استاد موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی بنیادی سہولتیں۔ شہری علاقوں میں اگرچہ اسکول موجود ہیں لیکن وہاں کلاس رومز کی تعداد کم اور طلبہ کی تعداد زیادہ ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک استاد کو بسا اوقات 60 سے 70 طلبہ کو پڑھانا پڑتا ہے جو کسی بھی معیار کے لحاظ سے ناقابلِ قبول ہے ۔ اس کے علاوہ استاد کو اکثر غیر تدریسی کاموں جیسے مردم شماری، الیکشن ڈیوٹی یا دیگر سرکاری امور میں لگا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کا اصل مقصد یعنی تعلیم متاثر ہوتا ہے۔ اس وقت سندھ میں اساتذہ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں صوبائی حکومت نے پنشن اصلاحات متعارف کروائی ہیں جن کے تحت سرکاری ملازمین بالخصوص اساتذہ کی پنشن اور مراعات میں کمی کر دی گئی ہے ۔اس لیے سندھ کے کئی شہروں میں تدریسی عمل رکا ہوا ہے اور تعلیمی عمل متاثر ہو رہا ہے۔ اساتذہ نے درس گاہوں کی تالا بندی کر دی ہے۔ اساتذہ احتجاجی دھرنوں میں شریک ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ کا قیمتی تعلیمی وقت ضائع ہو رہا ہے اور تعلیم کا حرج ہو رہا ہے مگر حکومت تاحال ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔اساتذہ کے عالمی دن کا اصل پیغام یہی ہے کہ جب تک استاد کو اس کا مقام اور سہولتیں نہیں ملتیں تب تک کسی قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ معاشرتی سطح پر بھی ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ استاد کو صرف ایک سرکاری ملازم یا محدود کردار سمجھنے کے بجائے ایک قومی سرمایہ سمجھا جائے ۔ والدین اور طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ استاد کا احترام کریں اور انہیں وہ عزت دیں جو ان کا حق ہے ۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ استاد کی مثبت مثالوں کو اجاگر کرے تاکہ معاشرے میں استاد کے وقار کو بلند کیا جا سکے ۔اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان سمیت تمام ممالک اساتذہ کی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ سب سے پہلے تو اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے شفاف بھرتی کا عمل اپنایا جائے تاکہ بہترین دماغ تدریس کے شعبے میں آئیں۔ دوسرا، اساتذہ کی تربیت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تاکہ وہ ٹیکنالوجی اور بدلتے نصاب کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔ تیسرا، اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ مالی مشکلات کے بجائے پوری توجہ تعلیم پر مرکوز کر سکیں۔ چوتھا، اساتذہ کو غیر تدریسی ذمہ داریوں سے بچایا جائے تاکہ وہ اپنے اصل مقصد یعنی تعلیم و تدریس پر توجہ دے سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے میں استاد کی عزت کو ایک عملی حقیقت بنایا جائے نہ کہ محض زبانی دعویٰ۔
یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ استاد ایک ایسا چراغ ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے ۔ اگر ہم نے استاد کو نظر انداز کیا تو ہماری نسلیں اندھیروں میں بھٹکتی رہیں گی، لیکن اگر ہم نے استاد کو اس کا مقام دے دیا تو کوئی طاقت ہماری ترقی کو روک نہیں سکے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومتیں، ادارے ، والدین اور طلبہ سب مل کر اساتذہ کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ وہ اپنے عظیم مشن کو پورے وقار کے ساتھ جاری رکھ سکیں۔ یہی اس دن کا سب سے بڑا پیغام اور سب سے بڑی ضرورت ہے ۔سندھ حکومت اساتذہ کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے پر غور کرے تاکہ تعلیمی تسلسل برقرار رہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت وجود هفته 11 اکتوبر 2025
پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت

مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی وجود هفته 11 اکتوبر 2025
مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی

بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا

ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر