وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ کاامن منصوبہ اور مسلم قیادت

اتوار 05 اکتوبر 2025 ٹرمپ کاامن منصوبہ اور مسلم قیادت

حمیداللہ بھٹی

غزہ میں جنگ نہیںنسل کشی ہورہی ہے کیونکہ حماس کے پاس کوئی فضائی طاقت نہیں۔ ہتھیاربھی ازکار ِرفتہ ہیں اور نفری بھی تربیت یافتہ نہیں ۔نیز بھوک وپیاس سے نڈھال اور اِتنے مسائل کے باوجود اپنی شناخت کے تحفظ کی جبلت اُسے شکست تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔ وہ تمام تر بے سروسامانی کے باوجوداپنی بساط کے مطابق دفاع میں ثابت قدم ہے۔ دوبرس سے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جاری نسل کشی نے دنیا کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ اسی بناپر امریکہ اور اسرائیل کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے ۔ اسرائیلی سفاکانہ بمباری پر شدید ردِ عمل آنے سے ہی برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک بالآخر فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو صدرٹرمپ جیسے مذہبی تعصب کے شکار شخص کو امن منصوبہ پیش کرنے کی طرف لائی ہے۔ اِس منصوبے کی ابتدامیں چند اہم مسلم ممالک نے حمایت کی جسے اِس بناپر مسلم قیادت کی جلد بازی سمجھاجارہا ہے کہ امن منصوبے میں نہ صرف آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست بارے کوئی لائحہ عمل نہیں اور نہ ہی القدس شریف پر قبضہ ختم کرانے کی بابت کوئی واضح یقین دہانی ہے ۔انھی وجوہات کی بناپر ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ اسرائیل سے دنیا کی بڑھتی نفرت کو کم کرنے کے لیے ہی امریکہ میدان میں آیا ہے ، جس کا مسلم قیادت نے ادراک نہ کیا اور جلد بازی میں حمایت سے اپنی ساکھ دائو پر لگالی۔
فلسطین کا مسئلہ دراصل اسرائیل کا پیدا کردہ ہے۔ اگروہ جارحانہ پالیسی اورتوسیع پاسندی ترک کردے تو مشرقِ وسطیٰ میں فوری طورپر امن قائم ہو سکتا ہے، مگر اسرائیل کی توسیع پسندی نے فلسطین اتھارٹی کوچند ایک ایسے شہروں تک محدود کر دیا ہے جہاں غربت ا وربھوک و افلاس کا راج ہے جوہر حوالے سے اسرائیل کی محتاج ہے۔ فلسطین کو اِس نہج تک لانے میں پی ایل او کی حماقتوں کابھی اہم کردار ہے۔ اگر اوسلومعاہدے کے وقت یاسر عرفات جلدبازی نہ کرتے توآج فلسطینی اتھارٹی یوں بے بس ولاچار نہ ہوتی۔ جب حماس غزہ کی منتخب قیادت ہے تو امریکہ اور اسرائیل کااُسے دہشت گرد قرار دیناسمجھ سے بالاتر ہے ۔ٹرمپ امن منصوبے میں فلسطینی ریاست بارے میں تو ابہام ہے مگر حماس کی قیادت کو غیر مسلح کرنے اور ملک بدرکرنے بارے غیر مُبہم وضاحت ہے جس سے اسرائیل نوازی آشکار ہوتی ہے۔ حماس کے ہتھیارڈالنے کے بعد اسرائیلی کوانخلا کاوقت دیناجانبداری کو عیاں کرتا ہے، ا سرائیل کا قیام برطانیہ کی وجہ سے ممکن ہوا مگر اب یہ حالت ہے کہ خطے میں امریکی پالیسی کا تعین اسرائیل کرتا ہے۔ ٹرمپ امن منصوبے میں ایک بین الا قوامی عبوری اِدارے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کی صدارت امریکی صدر کے پاس ہوگی، جبکہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئرکو اِس کاحصہ بنایا گیاہے۔ علاوہ ازیں غزہ کی مستقبل میں دیکھ بھال کے لیے ٹرمپ نے اپنے صیہونی داماد جیرڈکشنر کو بھی اہم کردار تفویض کیا ہے، یہ سب امن پسندوں کوچونکانے کا باعث ہے امن منصوبہ کسی سازش کاپیش خیمہ معلوم ہوتا ہے جسے مسلم امہ کو سمجھنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے آٹھ بڑے مسلم ممالک کی مشاورت سے امن منصوبہ پیش کیا جس کی پاکستان سمیت سب نے حمایت کی ہے مگرحمایتی امن منصوبے کے خدوخال سامنے آنے پراب پریشان لگتے ہیں اور اپنی لاتعلقی ظاہرکرر ہے ہیں۔ قطر نے تحفظات کا اظہار کیا ہے پاکستان بھی اب فاصلہ اختیار کرتا نظر آتا ہے جبکہ حماس نے بھی امن منصوبہ رَد کر دیا ہے تواعتماد کا شکار امریکہ کوحالات کی سنگینی کاکچھ احساس ہواہے اور وہ دوست ممالک کو اعتماد میں لینے لگا ہے ۔قطر کو دفاع کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکے ساتھ ہونے کے دعویٰ پر اسحاق ڈار کو کہنا پڑا ہے کہ ہم کسی ابراہم اکارڈ کا حصہ نہیں بننے جارہے، اگر مسلم قیادت جلدبازی سے گریز کرتی توشایدٹرمپ ایسی جانبداری سے کام نہ لیتے اورنہ ہی آج مسلم قیادت عوامی حلقوں میں ہدفِ تنقید بن رہی ہوتی جلدبازی کاشاخسانہ ہے کہ امن منصوبے کی حمایت کی یقین دہانی کرانے والے قطر سمیت دو عرب ممالک اب مخمصے میں ہیں کہ کیسے حماس کو منصوبہ تسلیم کرنے پر رضا مند کریں۔ اب تو یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی نیتن یاہوکی خواہش کے مطابق ہونابہت مشکل ہے۔ اسی لیے امن منصوبے میں بار بار ترامیم کرانے کی نوبت آئی مسلم قیادت کی طرف سے حمایت کے باوجود امن منصوبہ کا پایہ تکمیل کو پہنچنااِس لیے بھی مشکل ہے کہ اکثر مسلم ممالک کی قیادت عوامی اعتماد سے محروم ہے جوحمایت کے بعد اب تذبذب میںہے جو اُسے کسی غیر معمولی فیصلے سے روکتی ہے ۔
امن منصوبے میں حماس سے کہا گیا ہے کہ بہتر گھنٹوں میں زندہ یرغمالیوں کورہاکرے اور دودرجن کے قریب مردہ یرغمالیو ں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کردے بعد گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کواسرائیل رہا کرے گا ۔ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ اسرائیل وعدے پورے نہیں کرتابلکہ من مرضی سے کام لیتا ہے ۔اسی لیے تمام تر مشکلات کے باوجود حماس اب اسرائیل پر اعتماد کرنے میں ہچکچارہی ہے۔ جنگ بندی کے ایام میں حماس کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی ہوتے ہی اسرائیل حملے کرتارہاہے جس کے سدِ باب کے حوالے سے جب مسلم قیادت پہلے کچھ نہیں کر سکی تو اب بھی ایسا امکانات کو رَد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل امن ،اصول ،اخلاق یا انسانی ہمدردی کو خاطر میں لائے بغیر شقی القلبی سے کام لے گا اور مسلم قیادت عملی اقدامات کی بجائے محض زبانی کلامی مذمت تک محدود رہے گی ۔لہٰذابہتر یہ ہے کہ غزہ کو مزید قربانی کا بکرابننانے سے گریز کیا جائے ۔امن معاہدے پر عمل کرنا یا جان چھڑانا دونوں صورتوں میں نیتن یاہو کے لیے بھی زیادہ خوشگوار صورتحال نہیں ہو سکتی جب وہ انتہائی دائیں بازو کی متعصب جماعت کے ووٹوں کی کمزور بیساکھی کے سہارے حکومت کررہے ہیں ۔اِس صورت میں بہتر ہوگا کہ تمام فریقین کوکسی نئے امتحان میں ڈالنے کی بجائے انصاف سے کام لیاجائے ۔
غیر جانبدار حلقے متفق ہیں کہ ٹرمپ امن منصوبے سے بھلے مشرقِ وسطیٰ میں امن نہ آئے اور قبضے میں لیے گئے علاقے پروشلم وگولان کی پہاڑیایوں سے فوجی انخلا نہ ہو نیز غزہ کا محاصرہ بددستور رہے لیکن اسرائیل کو تسلیم کرانے کا دیرینہ خواب پوراہوسکتاہے۔ بہتر یہ ہے کہ اِس حقیقت کو مسلم قیادت سمجھے ایسا ہی منصوبہ عراق میں جب ناقابل قبول قرار پاچکا تو نیاتجربہ کرنادانشمندی نہیںایسے جانبداری پر مبنی منصوبے کو تسلیم کرنے سے عرب بہار جیسی بیداری کی ایک نئی لہر جنم لینے کاخدشہ بھی بعید ازقیاس نہیںہے۔ ٹرمپ امن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے مسلم قیادت تمام پہلوئوں کو مدِ نظر رکھے اور فلسطینیوں کے مفاد کا تحفظ یقین بنائے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا دوٹوک موقف رہا ہے کہ اسرائیل مسلم دنیاکے دل میں پیوست خنجر ہے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں مگر دوریاستی حل کی حمایت دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور یہی امن منصوبے کی آڑ میں ہوناہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خطے کا امن اور بھارت وجود اتوار 12 اکتوبر 2025
خطے کا امن اور بھارت

بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت وجود هفته 11 اکتوبر 2025
پاکستان میں قومی انتخابات کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت

مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی وجود هفته 11 اکتوبر 2025
مشتاق احمد خان ایک غازی کی واپسی

بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر