وجود

... loading ...

وجود

ماضی کی غلطیاں، آزاد سوچ کی ضرورت اور فکری خودمختاری

هفته 04 اکتوبر 2025 ماضی کی غلطیاں، آزاد سوچ کی ضرورت اور فکری خودمختاری

محمد آصف

انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قومیں جب اپنے ماضی کی غلطیوں کو دہراتی ہیں تو ترقی کی راہ میں رکاوٹیں بڑھتی جاتی ہیں۔
ایک ہی دائرے میں گھومتے رہنے کی یہ عادت نہ صرف فکری جمود کو جنم دیتی ہے بلکہ معاشرتی اور سیاسی انحطاط کا سبب بھی بنتی ہے ۔ ہر
معاشرہ وقتاً فوقتاً ایسے مرحلوں سے گزرتا ہے جہاں ماضی کے فیصلے ، نظریات اور طرزِ عمل مستقبل کے امکانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سوال
یہ ہے کہ کیا ہم ماضی کی زنجیروں میں قید رہیں گے یا آزاد سوچ اور فکری خودمختاری کے ذریعے نئی راہیں تراشیں گے ؟ یہ آرٹیکل اسی حقیقت
پر روشنی ڈالنے کی ایک کوشش ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو سمجھ کر آزاد سوچ کی ضرورت کیوں بڑھتی ہے اور فکری خودمختاری ہی قوموں کی اصل بقا
کا ضامن کیوں ہے ۔
ماضی کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی ہے کہ ہم نے تنقیدی نظر سے اپنی تاریخ کا جائزہ لینے کے بجائے اندھی تقلید کو اپنا لیا۔ تاریخ میں قوموں نے جب کسی ایک نظریے یا شخصیت کو مطلق العنان سچائی سمجھ لیا تو وہاں اختلافِ رائے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں علمی، سیاسی اور سماجی جمود نے جنم لیا۔ مثال کے طور پر مسلم دنیا میں زوال کا ایک بڑا سبب یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے سائنس، فلسفہ اور اجتہاد کے دروازے بند کر دیے اور اپنی فکری آزادی کو چند جامد روایات کے سپرد کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قومیں آگے نکل گئیں جبکہ ہم اپنی ماضی کی عظمت کے قصے سناتے رہ گئے ۔ کامیاب قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ وہ غلطی کو ناکامی نہیں بلکہ تجربہ سمجھتی ہیں۔ جاپان کی مثال لیجیے ؛ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک تباہ حال ملک نے اپنی شکست کو نئی توانائی میں بدل دیا اور آج دنیا کی طاقتور معیشتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی قوم اپنی ناکامیوں کو تسلیم ہی نہ کرے اور ماضی کی غلطیوں پر پردہ ڈالے تو وہ بار بار انہی راستوں پر چلنے پر مجبور رہتی ہے جو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کی حقیقتوں کا سامنا کریں، اپنی کمزوریوں کو قبول کریں اور ان کی تلافی کے لیے نئے راستے اختیار کریں۔
آزاد سوچ وہ قوت ہے جو انسان کو روایتی جمود سے نکال کر تحقیق، جستجو اور ایجادات کی طرف لے جاتی ہے ۔ آزاد سوچ کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی اقدار یا مذہبی اصولوں کو پسِ پشت ڈال دے ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل و شعور کو استعمال کرتے ہوئے نئے مسائل کے حل تلاش کیے جائیں۔ آج کے دور میں ٹیکنالوجی اور علم کی دنیا ہر لمحہ بدل رہی ہے ۔ اگر ہم ابھی بھی ماضی کے طرزِ فکر میں قید رہیں گے تو ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جائیں گے ۔ آزاد سوچ ہی ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم پرانے مسائل کو نئے زاویوں سے دیکھیں اور ایسے حل تراشیں جو وقت کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ کسی بھی معاشرے میں آزاد سوچ کے بغیر سماجی ترقی ممکن نہیں۔ جب معاشرے میں سوال کرنے کی آزادی ختم ہوجاتی ہے تو نئے خیالات پنپ نہیں پاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن معاشروں میں اظہارِ رائے پر قدغن لگائی جاتی ہے ، وہاں ذہنی غلامی بڑھتی ہے ۔ نوجوان نسل جب یہ دیکھتی ہے کہ اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی تو یا تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتی ہے یا پھر باغیانہ رویے اختیار کرتی ہے ۔ اس کے برعکس، اگر نوجوانوں کو تحقیق، سوال اور تنقید کا حق دیا جائے تو وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ یہی صلاحیتیں ایک معاشرے کو ترقی کی منازل تک پہنچاتی ہیں۔ فکری خودمختاری دراصل اس بات کا نام ہے کہ کوئی قوم یا فرد اپنی سوچ، فیصلوں اور نظریات میں خود کفیل ہو۔ غلام قومیں صرف دوسروں کے خیالات کی پیروی کرتی ہیں اور اپنی راہ متعین کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہیں۔ آج بھی مسلم دنیا کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم نے اپنی فکری خودمختاری کھو دی ہے اور مغرب کے نظریات یا عالمی طاقتوں کی پالیسیوں کے مرہونِ منت ہیں۔ ہم اپنی سوچ اور پالیسیوں میں آزاد نہیں بلکہ دوسروں کے دباؤ اور مفادات کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔
یہی فکری غلامی ہماری ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
فکری خودمختاری کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے نظام کو آزاد اور تخلیقی بنایا جائے ۔ ایسا نصاب تیار ہو جو محض رٹہ سسٹم پر مبنی نہ ہو بلکہ طلبہ کو سوال کرنے ، سوچنے اور اپنی رائے پیش کرنے کا موقع دے ۔ جامعات میں تحقیق کی روایت کو فروغ دینا ہوگا۔ جب تحقیق ہوگی تو نئی ایجادات اور نئے نظریات سامنے آئیں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور ادبی اداروں کو بھی آزاد سوچ کے فروغ میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر یہ ادارے صرف مخصوص سوچ یا مفاد پر مبنی مواد نشر کریں گے تو معاشرے میں یک رخا پن اور ذہنی غلامی بڑھتی جائے گی۔ اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آزاد سوچ مذہب سے دوری کا باعث بنتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے ہمیشہ عقل و فکر پر زور دیا ہے ۔ قرآن نے بار بار انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے ۔
پیغمبر اسلام ۖ نے صحابہ کرام کو اجتہاد کی اجازت دی اور مختلف مسائل میں رائے دینے پر حوصلہ افزائی کی۔ اس لیے فکری خودمختاری اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اسی کی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم مذہب کو جمود کا نہیں بلکہ ترقی اور اجتہاد کا ذریعہ بنائیں۔ اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آزاد سوچ اور فکری خودمختاری کو اپنانا ہوگا۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم پرانی روایات کے حصار میں قید رہیں اور پھر بھی نئی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ آج کی دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہیں جو علم و تحقیق میں آزاد ہیں، جو اپنی پالیسیاں اپنے مفاد کے مطابق بناتی ہیں اور جو اپنی فکر کو دوسروں کے تابع نہیں کرتیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ماضی کی غلطیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ اندھی تقلید اور جمود ہمیں کہیں نہیں لے جاتے ۔ آزاد سوچ ہمیں تحقیق، جدت اور ترقی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ فکری خودمختاری ہماری شناخت اور وقار کو محفوظ بناتی ہے ۔ اگر ہم اپنے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو
ضروری ہے کہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو تسلیم کریں، آزاد سوچ کو فروغ دیں اور فکری خودمختاری کو اپنی قومی پالیسی کا حصہ بنائیں۔ یہی راستہ ہمیں ایک باوقار، خوددار اور ترقی یافتہ قوم بنا سکتا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت وجود هفته 04 اکتوبر 2025
ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت

ماضی کی غلطیاں، آزاد سوچ کی ضرورت اور فکری خودمختاری وجود هفته 04 اکتوبر 2025
ماضی کی غلطیاں، آزاد سوچ کی ضرورت اور فکری خودمختاری

اداروں کی تباہی کی بانسری بجانے والا ' نیورو' وجود جمعه 03 اکتوبر 2025
اداروں کی تباہی کی بانسری بجانے والا ' نیورو'

بلوچستان کی ترقی روکنے کی سازشیں وجود جمعه 03 اکتوبر 2025
بلوچستان کی ترقی روکنے کی سازشیں

سیاست کے کندھوں پر ایشیا کپ کا جنازہ وجود جمعه 03 اکتوبر 2025
سیاست کے کندھوں پر ایشیا کپ کا جنازہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر