... loading ...
آج کل
۔۔۔۔۔۔۔
رفیق پٹیل
امریکی صد ر اور پاکستان کے اعلیٰ حکام کی حالیہ ملاقاتوں کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ اور خطے میں اہم کردار ملنے والا ہے۔ پاکستان یہ کردار مزید موثر انداز میں کرسکتاہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ توقع کی جارہی ہے پاکستان میں معدنیات اور تیل کے ذخائر کو تلاش کرکے اسے قابل استعمال بنانے سے پاکستان کی انتظامیہ پر معاشی دبائو میں کمی آئے گی۔ معد نیات اور تیل کے حصول کا عمل طویل مدّت ہوسکتا ہے جس کے لیے کئی سالوں پر مشتمل طویل عرصہ درکارہوگا۔ اہم ترین مسئلہ اندرونی خلفشار ہے جس سے نجات کی ضرورت ہے ۔پاکستان بہتر اور موثر کردار صرف اس صورت میں ادا کر سکتا ہے جب پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے نجات حاصل کرکے اندرونی طور پر مستحکم ہو ۔
فوری طور ملک میں جاری بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی قیادت کی دلچسپی بہت کم نظر آتی ہے۔ ریاست کے بنیادی اداروں خصوصاً مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ کی کمزوریوں کے خاتمے کے ذریعے ہی ملک استحکام کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ محض عالمی حمایت سے امور خارجہ یقینا بہتری کے قوی امکانات ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی استحکام کی توقع کرناخام خیالی کے سوا کچھ نہیںہے۔ پاکستان کا ایک پڑوسی ملک بھارت جو خارجہ سطح پر پاکستان کی کسی بھی کامیابی سے خوش نہیں ہوتا پاکستان کو نقصان پہچانے کے مزید درپے ہوسکتا ہے۔ پاکستان دوستی اور امن کا خواہاں ہے لیکن دوسرے فریق سے مثبت تعاون نہیں ملتا پاکستان کے اندرونی عدم استحکا م کی موجودہ خراب ترین کیفیت اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے اور یہ کچھ اتار چڑھائو کے ساتھ رفتہ رفتہ بتدریج بڑھتی چلی گئی ۔ قیام پاکستان کے بعدسے اچھی اور موثر حکمرانی سے محرومی کے باعث پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچارہے۔ حالیہ چند سالوں میں اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت موجودہ حکمرانوں اور عوا م کے درمیان بہت بڑی دوری ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے واقعات اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کے نتیجے جنگ کی کیفیت میں ہے ۔پاکستان علاقائی محل وقوع کی وجہ سے دنیا کے اہم ممالک کے لیے اہم ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے میں خاطر خواہ کامیابی سے محروم ہے ۔پاکستان کا حکمران طبقہ عوامی نمائندگی سے محروم ہونے کی وجہ سے کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی صلاحیت سے اس لیے محروم ہے کہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے وفادار لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے چاپلوس اور بدعنوان عناصر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیںایماندار اور اچھی کارکردگی رکھنے والے عناصر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ملک دشمنوں کو ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ خصوصاً پڑوسی ملک دولت کا استعمال کرکے اہم عہدیداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس کا برملا اظہار بھی کر چکا ہے ۔اس جدید دور میں مصنوعی ذہانت ،جدید ٹیکنالوجی کے فر وغ اور انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر معلومات کی رسائی سے دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں ایک محدود پیمانے کی عالمی جنگ بھی جاری ہے جس میںیوکرین،روس ،اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان جنگ اور پاک بھارت کی حالیہ فوجی کارروائیاں شامل ہیں دنیا کی سب سے بڑی فوجی اورمعاشی طاقت امریکا چین کی معاشی ترقی، فوجی طاقت میںاضافے اور تجارتی اثرورسوخ کو روکنے کے اقدامات کر رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر نئی تبدیلیا ں رونما ہورہی ہیں ۔اس منظر نامے میں پاکستان کو فوری طور پر سیاسی،معاشی استحکام کے اقدامات کی اس لیے ضرورت ہے کہ اندرونی عدم استحکام میں عوامی بے چینی،بڑھتی ہوئی غربت،بیروزگاری،مہنگائی ،بد عنوانی،تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کمی، مہنگی ٹرانسپورٹ، صاف پانی کی کمی، جرائم کو قابو پانے میں رکاوٹیں، صنعت اور زراعت کی پیداوار میں کمی ،خصوصاًبجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور حالیہ سیلاب سے مزید اضافہ ہو سکتاہے۔ پاکستان کے ان مسائل کی کسی حد تک نشاندہی ورلڈ بینک نے کی ہے ۔پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشابھی بار بار ان مسائل اور خطرات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔دنیا بھر میں ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالی جائے اور معاشی ماہرین کی رائے
کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی اچھی اور صاف ستھری حکمرانی کے بغیر ممکن نہیںہے۔ ان تما م مسائل پر قابو پانے کے لیے بدعنوانی سے پاک موثر اور صاف ستھری با صلاحیت میرٹ پر مشتمل انتظامیہ،عوامی حمایت پر مشتمل مقننہ،آزاد اور غیرجانبدار عدلیہ کے ساتھ میڈیا کی آزادی ضروری ہے جس کے ذریعے پاکستان کے تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی ہوملک میں امن و امان ہو، مہنگائی کم ہو، تجارتی اور صنعتی سرگرمیوںکا فروغ ہو، روزگا ر میں اضافہ ہو، ایکسپورٹ کو فروغ ملے، تعلیم عام ہو، تعلیم کے معیار میں حقیقی معنوں میں اضافہ، ہو ٹیکنالوجی کو فروغ حاصل ہو، یہ کام پاکستان کی موجودہ قیادت کو ہی کرنے ہوں گے جو ایک پیچیدہ اور انتہائی محنت طلب مسئلہ ہے لیکن قومیں اسی صورت میں آگے بڑھتی ہیں جب وہ مشکالات کا سامنا کرنے کے لیے تیا ر ہوں اور ایسے آسان حل جو سطحی ہوں مصنوعی ہوں محض پردہ پوشی اورنمائش کے لیے ہوں مزید خرابی پیدا کرسکتے ہیں۔پاکستان اور امریکا کی قربت پر شکوک کا اظہا ر کرنے کے بجائے اس کے مثبت پہلو پر نظر رکھنی جائے تو بہترہے ۔دنیاکاکوئی ملک بھی دوسرے ملک کے تمام اندرنی پیچیدہ مسائل کو حل نہیں کر سکتا ۔اس کے لیے عوام اور انتظامیہ مل کر اجتماعی طور پر راہ تلاش کر سکتے ہیں۔ عوام کو نظر انداز کرنے کی موجودہ روش دانشمندی کے منافی ہی نہیں اچھی حکمرانی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے نتیجے میںکم ازکم اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے خاتمے میں امریکا مزید کردار ادا کرے گا جو ایک مزید بڑی پیش رفت ہوگی ۔صرف خطے میں ہی نہیں دنیا بھر میں امن تمام قوموں کے مفاد میں ہے ۔امریکی صدر ٹرمپ اگر دنیا کو امن کی طرف لے جانے اور تنازعات کا حل افہام وتفہیم سے نکالنے کی کوشش کرینگے تو یقیناان کی پذیرائی ہوگی ۔
دنیا کی بڑی طاقتوں کو بھی خیال رکھنا ہوگاکہ جنگ سے مزید مسائل پید ا ہوتے ہیں اور معصوم جانوں کا نقصان ہوتا ہے ۔دنیا کو موسمیاتی تبدیلی جیسے سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے جس کے مقابلے کے دنیا بھر کے ممالک کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ سب کو مل کر اس دنیا کو اس کے تباہ کن اثرات سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ مفادات سے بالاتر ہوکر ہی اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا کیا دنیا کے طاقتور اپنے مفادات سے پیچھے ہٹ کر دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس سے پہلے کے دیر ہوجائے۔