... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چمکتی دھوپ میںبیس نکاتی منصوبے کے ساتھ کوئی الہامی حل لے کر نہ اُترے تھے۔ فلسطینیوں کے مقدر سے کھیلنے اور تشدد مسلط کرکے راہِ امن کے نام پر اُنہیں مزید محدود کرنے کے سازشی منصوبے پرانے ہیں۔ مغرب کے باضمیر دانشور بھی چیخ اُٹھے ہیں۔ مگر وطن ِ عزیز کے استعمار گزیدہ ذہن اپنے آقاؤں کے دماغ سے سوچتے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کی قربانیوں کو ہی جواز بنا کر اُنہیں قابل فروخت بنانے پر تُلے ہیں۔ جملہ مشہور ہے کہ ”پھر دوسرا آپشن کیا ہے”؟ طاقت کے آگے سجدہ ریز جعل ساز صوفیوں کی چوکھٹوں پر پڑے فالج زدہ ذہنوں کے” مرنجاں مرنج”نسخوں میں زندگی کرنے والوں نے پہلے آپشن پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ علامہ اقبال مرید ہندی بن کر ایسی ذہنیت کا مقدمہ اپنے پیر رومی (مولانا روم) کے پاس لے گئے تھے۔
کاروبارِ خسروی یا راہبی
کیا ہے آخر غایت ِ دین ِنبیۖ؟
(یہ فرمائیے کہ پیغمبر اسلام حضور سرورکائنات ۖ نے جو دین رائج کیا اس کی بنیادی غرض و غایت
کیا ہے کیا اس سے بادشاہی اور حکمرانی مراد ہے یا ترک ِدنیا اور رہبانیت اس کا مقصود ہے)
مولانا روم کا جواب واضح تھا
مصلحت در دین ِما جنگ و شکوہ
مصلحت در دین ِعیسیٰ غار و کوہ
(ہمارے دین میں جنگ (جہاد) شوکت کا ذریعہ ہے ۔ اور عیسیٰ کے دین کا مسکن غار اور پہاڑ ہے یعنی ترک دنیا و راہبی ۔
یعنی دین کا ملک و معاشرے پر غلبہ ہونے سے ہی امت اور اسلام کی نجات ہے ورنہ بے دین لوگ جب حاکم ہوں گے
تو چنگیزی ہی ہو گی ۔ )
فلسطینی جانتے ہیں ، پاکستانی دانشوروں کی فوج ظفر موج اور اقتدار کے دَرْیُوزَہ گر نہیں جانتے۔عجلت میں رہتے ہیں۔ انا کے گنبد میں اسیر ،ڈھلتی عمر میں سراہے جانے کے مرض میں مبتلا عورت کی نفسیات رکھنے والے قصر ابیض کے مکین نے ابھی اپنے بیس نکات کی چھَب نہ دکھلائی تھی، ابھی وہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے ذمہ دار، سیاہ کار نیتن یاہو کے ساتھ کھڑا ہی تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبے کو تائید فراہم کردی۔ چائے سے زیادہ کیتلی گرم ہے۔ فلسطینیوں کے گلوں سے پھوٹتے خون کے فواروں پر جن کا ایمان جوش میں نہ آیا تھا،جن کے وجود نامسعود میں 66ہزار 55 شہدا کی گرتی لاشوں نے کوئی حرکت پیدا نہ کی تھی، جنہیں ایک لاکھ 68 ہزار 346زخمیوں نے ذرہ برابر مضطرب نہ کیا تھا۔اچانک فلسطینی مسلمانوں کے قاتلوں کے سرپرست ٹرمپ کے منصوبے پر حرکت میں آگئے، اِدھر شہباز شریف نے تائید کی غزل چھیڑی اُدھر سِفلہ پن کی مخلوق ِ مول تول نے ساز پکڑا کہ ”دوسرا پشن کیاہے”؟
غلام حکم پر عمل کو التوا میں نہیں ڈال سکتے۔ چنانچہ منصوبے کے رازدار عرب ممالک کے ردِ عمل کا بھی انتظار نہیں کیا گیا۔اُس مصر کا بھی نہیں جو فلسطین فروش تھا۔ سعودی عرب کا بھی نہیں جو حماس کی تحریک کو ختم کرنے میں اسرائیل جیسی ذہنیت رکھتا ہے، قطر کا بھی نہیں جو امریکا کے استعماری مقاصد کا سب سے بڑا آلہ کار ملک ہے۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کا بھی نہیں جو ابراہیم معاہدے کا حصہ ہے اور جو کسی قیمت پر بھی اسرائیل سے تعلقات کو منقطع کرنے پر آمادہ نہیں۔ نیتن یاہو کے چہرے پر جس کے حکمران کی محبتوں کا ذکر کرتے ہوئے الہڑ دوشیزاؤں والی سرخی دوڑ جاتی ہے۔ ایسے فروختنی ممالک کے ضمیر فروش حکمران بھی چپ سادھے رہے مگر پاکستان کے ”باضمیر حکمرانوں” نے ایک خروش سے اعلانِ حمایت کردیا۔ اس اعلان حمایت کو کچھ دیر بھی نہ گزری تھی اور ”دوسرا آپشن کیا ہے” کی ہنڈیا کو فلسطینی خون کے چولہے پر چڑھائے چند ثانیے نہ گزرے تھے کہ نتین یاہو وائٹ ہاؤس سے برآمد ہوئے اور عبرانی زبان میں ایک انٹرویو سے اس معاہدے کے پوشیدہ مقاصد کو بے نقاب کر دیا۔ اُدھر ڈونلڈ ٹرمپ نے اول روز سے پاکستان کی منصوبے میں شرکت کا انکشاف کیا اور پاکستانی حکمرانوں کو بے لباس کردیا۔ نتین یاہو نے کہا کہ
1۔ حماس نے ہمیں تنہا کر دیا تھا، ہم نے اس معاہدے سے اُسے تنہا کردیا۔
2۔ اگر حماس اس منصوبے کو نہیں مانتی تو امریکا اپنی پوری طاقت اُسے کچلنے کے لیے ہمیں فراہم کرے گا۔
3۔منصوبے میں کسی فلسطینی ریاست کا ذکر نہیں ، نہ میں اسے قبول کرتا ہوں۔
4۔ اسرائیلی فوج زیادہ ترعلاقوں میں موجود رہے گی یعنی قابض فوج کا کنٹرول برقرار رہے گا۔
امریکی صدر کے بیس نکاتی منصوبے کی یہ وضاحت فوری طور پر اسرائیلی وزیراعظم نے ان چار نکات سے کی۔ جبکہ امریکی صدر نے پاکستانی حکمرانوں کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ اس منصوبے کی تیاری میں پہلے روز سے شریک ہے۔ٹرمپ کے اعلان کے بعد پاکستانی حکمرانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اب دو ریاستی حل کے راستے کو مبہم کرنے والے اس منصوبے میں اپنی شرکت کی تردید کے بھی قابل نہیں رہ گئے۔
ماضی میں مسئلہ فلسطین کے جتنے حل پیش کیے گئے، یہ منصوبہ اُن میں سب سے بدترین ہے، جس میں فلسطینیوں کی ایک فریق کے طور پر کوئی شرکت ہی نہیں ہے۔ کیمپ ڈیوڈ سے اوسلو تک جتنے بھی حل اس مسئلے کے حوالے سے سامنے آئے وہ فلسطین کی خود مختاری کو محدود کرنے پر منتج ہوئے اور اُن میںسے کسی معاہدے کے کسی وعدے کو وفا نہیں کیا گیا۔ اس تفصیلی موضوع کو آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں، یہاںنکتہ یہ ہے کہ ان معاہدوں کی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ فلسطین کو مزاحمت نے نہیں معاہدوں نے برباد کیا ہے۔ ٹرمپ کے بیس نکاتی معاہدے کی باسی کڑھی میں بدبو ہے، جبکہ غزہ میں حماس کا مجاہد اپنی بندوق اُٹھا کرگونج رہا ہے: ھذا الطریق۔ علامہ اقبال بال جبریل سے صدائے تائید دے رہے ہیں،پہلا آپشن بتا رہے ہیں
مصلحت در دین ِما جنگ و شکوہ
مصلحت در دین ِعیسیٰ غار و کوہ
٭٭٭