... loading ...
معصوم مرادآبادی
ایران، عراق، شام، یمن اور لبنان کے بعد قطر اسرائیلی جارحیت کا شکار ہونے والا چھٹا اسلامی ملک ہے ۔ قطر کی راجدھانی دوحہ میں اسرائیلی طیاروں نے اس وقت حملہ کیا جب وہاں حماس کی سیاسی قیادت غزہ کے مسئلہ پر امن مذاکرات میں مصروف تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ مذاکرات امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایماء پر ہورہے تھے جس میں قطر ثالث کا کردار اداکررہا تھا۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اس بزدلانہ حملے میں حماس کی اعلیٰ قیادت تو محفوظ رہی البتہ ان کے کچھ ساتھی ہلاک ہوگئے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے دوقریب ترین پارٹنر ہیں، ایک اسرائیل دوسرا قطر۔ قطر ہی وہ مقام ہے جہاں مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجودہے ۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن واشنگٹن میں امریکی صدر سے ملاقات کررہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ قطر کوئی کمزور ملک ہے ۔ اس نے اپنی حفاظت کے تمام بندوبست کررکھے ہیں۔ اس کے پاس دنیا کے بہترین جنگی طیارے اور سازوسامان موجود ہے ، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کا ریموٹ کنٹرول امریکہ کے پاس ہے ۔
مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے تمام طاقتور اور خوشحال ملکوں نے اپنی حفاظت کا ٹھیکہ امریکہ کو دے رکھا ہے ۔ امریکہ اس ٹھیکے کے عوض کھربوں ڈالر وصول کرتا ہے ، لیکن اب قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب ملکوں کو پہلی بار یہ احساس ہوا ہے کہ امریکہ کی ضرورت سے زیادہ حاشیہ برداری بھی ان کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے ۔امریکہ لاکھ کہے کہ قطر پر حملہ اس کی مرضی کے خلاف ہوا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتا۔
اسرائیلی فوج نے جب گزشتہ منگل کو دوحہ پر فضائی حملہ کرکے حماس کے رہنما ؤں کو نشانہ بنایا تو یہ صرف عرب ملکوں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لیے حیران کن واقعہ تھا۔ اسرائیل نے حملہ کرکے یہ دکھادیا کہ کوئی بھی مسلم ملک صیہونی جارحیت سے محفوظ نہیں ہے ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس کارروائی کے بعد ترکی کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ حالیہ عرصے میں اسرائیل نے مسلم ملکوں کے خلاف جو کارروائیاں انجام دی ہیں، ان میں سب سے بڑا حملہ گزشتہ دنوں ایران پر کیا گیا تھا جہاں اس کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سے قبل اسرائیل نے تہران میں حماس کے اعلیٰرہنما اسماعیل ہانیہ کو ایک فضائی حملے میں ہلاک کردیا تھا۔ جوہری تنصیبات پر حملے کا ایران نے منہ توڑ جواب دیا اور اس کے میزائیلوں نے اسرائیل میں قیامت برپا کردی۔ نتیجتاً اسرائیل کو گھٹنوں پر آنا پڑا اور یہ جنگ طول نہیں پکڑ سکی۔ اس کے بعد اب اسرائیل نے قطرکو نشانے پر لیا ہے ۔لیکن اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ قطر اس کا کوئی جواب دے پائے گا، حالانکہ اس نے جواب دینے کا حق محفوظ رکھنے کی بات کہی ہے ۔مگر وہ دوسرے عرب ملکوں کی طرح امریکہ پر اس حد تک منحصر ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر کچھ ہوہی نہیں سکتا۔ حالانکہ تمام عرب ملکوں نے اس جارحیت کا متحد ہوکر منہ توڑ جواب دینے کی بات کہی ہے ، لیکن یہ سب زبانی جمع خر چ سے زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ سلامتی کونسل نے ضرور قطر کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے لیکن اس بیان میں کہیں بھی اسرائیل کا نام نہیں لیا گیا۔
کہا جارہا ہے کہ قطر میں اسرائیلی جارحیت کا اصل نشانہ حماس رہنما خلیل الحیہ تھے ، جو غزہ جنگ کے آغازسے ہی حماس کے کلیدی مذاکرات کار رہے ہیں۔ وہ قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعہ اسرائیلیوں اور امریکیوں کو پیغام بھیجتے اور وصول کرتے رہے ہیں۔ ایک ایسے لمحہ میں جب جنگ بندی کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے ، اسرائیل نے خلیل الحیہ اور ان کے ساتھیوں کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا وہ وہ اپنے دشمنوں کو کہیں بھی نہیں بخشے گا۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اس حملے میں خلیل الحیہ اوران کے ساتھی محفوظ رہے مگر خلیل کے بیٹے حمام الحیہ، ان کے دفتری انچارج اور قطری محافظ سمیت چھ افراد شہید ہوگئے ۔بی بی سی کے تجزیہ کار جیرمی بوون نے لکھا ہے کہاسرائیل کی جانب سے دوحہ پر حملے کے اعلان نے سوشل میڈیا پر فوراً اس قیاس آرائی کو تقویت دی کہ امریکی پیشکش محض ایک بہانہ تھی تاکہ حماس کی قیادت کو ایک مقام پر اکٹھا کرکے نشانہ بنایا جاسکے ۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے قطر کو اس حملے سے قبل ازوقت مطلع کردیا تھا، لیکن خود قطر کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ اطلاع اس وقت ملی جب دوحہ میں آگ برس رہی تھی۔ صدرٹرمپ کا یہ رویہ اس قطر کے ساتھ ہے جس نے انھیں مشرق وسطیٰ کے پچھلے سفر کے دوران دنیا کا سب سے قیمتی جہاز تحفے میں دیا تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ قطر کو اس حملے کی اطلاع قبل ازوقت کیوں نہیں مل سکی جبکہ اس کے پاس اربوں ڈالر کی لاگت سے بنایا گیا دفاعی نظام موجود ہے ۔ قطری حکومت نے اپنے فضائی دفاع کے لیے دنیا کے جدید ترین چار دفاعی نظام خرید رکھے ہیں جو امریکہ، ناروے ، فرانس اور جرمنی سے خریدے گئے ہیں۔ ان پر19/ ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ دفاعی نظام اس وقت ناکارہ ثابت ہوا جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔کہا جاتا ہے کہ محض ایک بٹن دبانے سے یہ پورا نظام غیرفعال ہوگیا، کیونکہ اس بٹن کو دبانے کااختیار امریکہ کے پاس تھا۔
قطر کے خلاف تازہ اسرائیلی جارحیت دراصل ان خلیجی ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے ، جو اللہ کی بجائے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ محض امریکہ کی خوشنودی کی خاطر انھوں نے گزشتہ دوسال کے دوران جبکہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے ، اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ غزہ میں عربوں کی نسل کشی ہوتی رہی اور وہ محض مذمتی بیان دیتے رہے ۔ اسرائیل نے غزہ میں تباہی وبربادی کی جو ہولناک داستان رقم کی ہے اس میں اسے امریکہ کی بھرپورحمایت حاصل رہی ہے ۔امریکہ چاہتا تو عرب ملکوں کی خوشنودی کی خاطرہی اسرائیل کا ہاتھ پکڑ سکتا تھا اور غزہ کو تباہی سے بچا سکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اوراقوام متحدہ میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قراردادوں کو بھی ویٹو کردیا۔ یہ کہانی نئی نہیں ہے ۔ جب سے اسرائیل کا ناجائز وجود عمل میں آیا ہے امریکہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے اور ان کی نسل کشی کرنے کے لیے اسرائیل کو ہر طرح کی امدادفراہمکرتا رہا ہے ۔امریکہ کی اندھی حمایت سے ہی آج اسرائیل اتنا طاقتور ہے کہ وہ تمام عالمی قوانین کو طاق پر رکھ کر کسی بھی مسلم ملک کے خلاف ننگی جارحیت انجام دیسکتا ہے ۔ قطرہ پر کیا گیا تازہ حملہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔ سعودی عرب اور متحدہ امارات جیسے ملکوں نے پہلی بار اسرائیل کی مذمت کی ہے اور قطر
میں کئے گئے حملہ کو عالمی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور قطر کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے ۔ مگر یہ بھی محض زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔کیونکہ اسرائیل اور امریکہ دونوں جانتے ہیں کہ’یہ بازو ان کے آزمائے ہوئے ہیں’۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو اب دوسال مکمل ہونے والے ہیں۔ اس عرصے میں اب تک کم ازکم 65 ہزار فلسطینیوں کی جانی گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے ۔ اسرائیل نے گزشتہ دوسال کے عرصے میں ایسا کون سا ظلم ہے جو غزہ پر نہ ڈھایا ہو، یہاں تک کہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر سے بھیجی گئی ریلیف بھی نہیں پہنچنے دی جس کے نتیجے میں غزہ میں بھکمری کا دردناک سلسلہ شروع ہوا۔ سوسے زیادہ صحافیوں کو ٹارگیٹ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پوری دنیا اس آخری درجہ کے ظلم وبربریت اور درندگی کے خلاف آواز اٹھاتی رہی مگر اسرائیل نے کسی کی نہیں سنی۔ بدترین فضائی حملوں کے بعد اب اسرائیل نے وہاں اپنی فوج اتاردی ہے ۔غزہ کی بیس لاکھ آبادی کس مپرسی کے آخری دور میں ہے ۔اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”غزہ کے شہری میری بات غور سے سنیں، میں آپ کو موقع دے رہا ہوں فوراً علاقہ خالی کردیں، فوج پوری تیاری کے ساتھ داخل ہونے والی ہے” ۔دنیا کے کسی ملک کے باشندوں کے ساتھ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ انھیں پہلے بدترین نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کو یہ دھمکی ملی کہ وہ علاقہ پوری طرح خالی کردیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگل کا راج قائم کردیا ہے ۔ فضا سے پمفلٹ برساکر غزہ کے ان باشندوں کو جو وہاں پیدا ہوئے ، پلے بڑھے اور جوان ہوئے یہ دھمکیاں مل رہی ہیں۔مگر غزہ کے باشندے جس مٹی کے بنے ہوئے ہیں، اس میں فرار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ غزہ کے لوگ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہیں گے اور شکست اسرائیل کا مقدر ہوگی۔اقوام متحدہ نے ایک بارپھر فلسطین کے دوریاستی حل کی قرارداد منظور کی ہے ۔