... loading ...
معصوم مرادآبادی
گزشتہ جمعہ کوسپریم کورٹ نے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دینے کی مہم پر مرکزی حکومت سے کئی تیکھے سوال کئے ۔عدالت نے اس معاملے میں ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محض زبان کی بنیاد پر کسی کو غیر ملکی کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ اس وقت ملک کی کئی ریاستوں میں بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر سرکاری عتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔یوں تو یہ مہم بی جے پی کے اقتدار والے کئی صوبوں میں چل رہی ہے ، لیکن جنوب مشرقی ریاست آسام کے مسلمان اس کا سب سے زیادہ شکار ہیں، جہاں صوبائی حکومت انھیں تمام بنیادی شہری حقوق سے محروم کررہی ہے ۔ ایک محدود اندازے کے مطابق آسام میں اس مہم کے تحت اب تک پچاس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو دربدر کردیا گیا ہے اور وہ نہایت کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔حال ہی میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنوں کی ایک ٹیم آسام کے ان علاقوں کا دورہ کرکے آئی ہے جہاں مسلمانوں کوبنگلہ دیشی قرار دے کر زبردست جور وستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔اس ٹیم میں شامل پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اور انسانی حقوق کیعلمبردار ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید کے ایک بیان کو سنگھ پریوار نے خاصا اچھالا۔انھوں نے آسام کے حالیہ دورے میں یہ کہا تھا کہ”اگر یہاں بنگلہ دیشی ہیں تو اس میں کیا برائی ہے ۔وہ بھی تو آخر انسان ہی ہیں۔ خدا کی زمین اتنی وسیع ہے کہ کوئی بھی انسان کہیں بھی رہ سکتاہے ۔ ڈاکٹر سیدہ حمید کے اس بیان کو یہ کہہ کر اچھالا گیا کہ وہ آسام میں گھس پیٹھیوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ جبکہ ان کا بیان انسانی بنیادوں پر تھا۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری حکومت اپنی سہولت اور سیاسی ضرورتوں کے تحت یہاں بنگلہ دیشیوں کو پناہ دیتی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد ہیں جو اپنے خلاف ہونے والی بغاوت کے بعد سے سیاسی پناہ گزین کے طورپر یہاں مقیم ہیں۔ اس سے پہلے اسلام مخالف تسلیمہ نسرین کو بھی ہندوستان نے پناہ دی تھی اور وہ آج تک ہندوستان ہی میں ہیں۔اگر بنگلہ دیشیوں سے اتنی ہینفرت ہے تو پہلے ان دونوں کو ملک بدر کیا جانا چاہئے ۔
دراصل ہندوستان میں بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم کا آغاز بنگلہ دیش میں سیاسی تختہ پلٹ کے بعد ہوا ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے ایسی کوئی مہم نہیں تھی۔اس خطرناک مہم کا نشانہ ہر بنگلہ بولنے والا مسلمان ہے ۔جبکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مغربی بنگال اور آسام میں رہنے والے لاتعداد مسلمان بنگلہ زبان بولتے ہیں اور یہی ان کی مادری زبان ہے ۔مگر ملک کی کئی ریاستوں میں بنگلہ بولنے والے مغربی بنگال کے مسلمانوں کو حراست میں لے کر سرحد پار دھکیلا جارہا ہے ، جبکہ ان کے پاس ہندوستانی شہریت کے تمام ثبوت موجود ہیں۔ بنگلہ دیشیوں کے نام پر مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی سب سے بڑی مہم آسام میں چل رہی ہے ۔اسی مہم کا جائزہ لینے اور مظلومین سے ملنے کے لیے شہری حقوق کے کارکنوں کا یہ وفد آسام گیا تھا جس میں نامی گرامی لوگ شامل تھے ۔ اس وفد میں سابق آئی اے ایس ہرش مندر، سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن، راجیہ سبھا کے سابق رکن جواہر سرکار، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ وغیرہ شامل تھے ۔ اس وفد نے گزشتہ23و 24/ اگست کوبے دخلی مہم سے متاثر گول پاڑہ اور کامروپ اضلاع کادورہ کیا۔ اس وفد کے اراکین نے ایک پریس کانفرنس میں تفصیل سے بتایا کہ کس طرح جان بوجھ کر بے دخلی مہم کے دوران غیرقانونی طورپر صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ”ہیمنت بسوا سرما کی قیادت والی آسام حکومت کو قانون کی کوئی پروا نہیں ہے ۔”انھوں نے کہا کہ مجھے ضلع کے قبائلی باشندوں نے بتایا کہ سرکار کے ذریعہ خالی کرائی گئی زمینیں بڑے کارپوریشنوں کو اس مقصد کے تحت فروخت کردی گی ہیں کہ وہاں پر وہ سولر پروجیکٹ، سیمنٹ اور پام آئل بنانے کی فیکٹریاں قائم کرسکیں۔ دراصل یہی وہ مقصد ہے جس کے تحت بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ آسام میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر بے دخلی کی جو مہم چلائی جارہی ہے ، اس کی قیادت کسی ہندو انتہا پسند تنظیم کے ہاتھوں میں نہیں ہے ، بلکہ اس کی کمانڈ ریاست کے وزیراعلیٰ ہاتھوں میں ہے ، جو انتہائی فرقہ پرست اور مسلم دشمن ذہنیت کے حامل ہیں۔
ہیمنت بسوا سرما کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ ان کی زندگی کا واحد مقصد آسام کی سرزمین کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے ۔ یہی وجہ کہ وہ ‘میاں’ کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز اور نفرتی بیانات دیتے ہیں۔ حالانکہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے انھوں نے یہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ ریاست میں کسی بھی باشندے کے ساتھ مذہب، ذات پات یا نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کریں گے ، مگر ان کے عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف ہندوؤں کے وزیراعلیٰ ہیں اور آسام کے مسلمان ان کے دشمن ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً چالیس فیصد ہے ۔ ماضی میں بھی آسام کے مسلمانوں کودرانداز قرار دے کر ان کے خلاف تشدد آمیز مہم چل چکی ہے ۔ اسّی کی دہائی میں وہاں نیلی جیسا قتل عام بھی ہوچکا ہے ۔ وزیراعلیٰ سرما کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بار پھر آسام میں ویسی ہی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ ان کی ذہنی پراگندگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ہفتہ جب جمعیة العلماء کے صدر مولانا محمود مدنی نے آسام میں جاری مسلمانوں کی بے دخلی مہم کے خلاف بیان دیا تو وزیراعلیٰ نے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ کہا کہ اگر انھیں جمعیت کے صدر مولانا محمود مدنی کہیں مل جائیں تو وہ انھیں بھی بنگلہ دیش بھیج دیں گے ۔واضح رہے کہ جمعیت نے ایک قرارداد منظور کرکے آسام کے وزیراعلیٰ کو فوری طورپر ہٹانے اور نفرت انگیز تقریر کے لیے ان کے خلاف مجرمانہ کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سات رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے تمام حقائق بیان کئے کہ کس طرح آسام کے باشندوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر انھیں بے گھر اور بے در کیا جارہا ہے ۔ آسام حکومت کی اس ظالمانہ کارروائی کے نتیجے میں اب تک کم وبیش پچاس ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں اور وہ نہایت کس مپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ صرف پچھلے دومہینوں یعنی جون اور جولائی میں جنگلوں میں مقیم3300بنگلہ بولنے والے مسلم خاندانوں کو دربدر کردیا گیا ہے اور ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلا دئیے گئے ہیں۔فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا کہنا تھا کہ ایسے خاندانوں کی بھی بے دخلی کی جارہی ہے جن کے پاس کافی پرانے دستاویزات موجود ہیں۔ٹیم نے اس معاملے میں عدالتوں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ گوالپاڑہ میں گزشتہ دوماہ میں تین مقامات پر لوگوں کو ان کے گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا گیا۔ ہسیلا میں 680 خاندانوں کو اور اشودوبی گاؤں میں ایک ہزار84 خاندانوں کو ان کے مکانات اور جائداد سے بے دخل کیا گیا۔ہسیلا بیل کے خاندانوں نے اپنی زمین کے کاغذات دکھائے جو 1948کے ہیں۔ ان کے نام 1951کی این آر سی لسٹ اور 1950کی ووٹر لسٹ میں بھی موجود ہیں۔ضلع انتظامیہ نے پورے معاملے میں کسی جانچ کے بغیر یہاں کے مسلم خاندانوں کو بے دخل کیا ہے ۔یہی معاملہ اشودوبی گاؤں کا بھی ہے ۔یہاں آٹھ مسجدوں، دومدرسوں، فصلوں اور ان کے مویشیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ان حقائق سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح آسام کے مسلمانوں پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔
٭٭٭