وجود

... loading ...

وجود

وقف ترمیمی بل نامنظوروقف ترمیمی بل نامنظور

بدھ 03 ستمبر 2025 وقف ترمیمی بل نامنظوروقف ترمیمی بل نامنظور

ریاض احمدچودھری

بی جے پی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ترمیمی بل کو محض 14 ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔ جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے کہا کہ بل میں 572 ترامیم کی تجاویز پیش کی گئیں جن میں سے 44 ترامیم پر بحث ہوئی اور اکثریت کی بنیاد پر کمیٹی نے این ڈی اے اراکین کی 14 ترامیم کو منظور کیا۔ اپوزیشن ارکان کی تمام مجوزہ ترامیم کو ووٹنگ کے دوران 10 کے مقابلے میں 16 ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔ جے پی سی چیئرمین پال اب فائنل ڈرافٹ کی منظوری کے بعد لوک سبھا اسپیکر سے ترمیم شدہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی درخواست کریں گے۔مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں منظور کردہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں (این ڈی اے) کی 14 ترامیم کو اپوزیشن، مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملی تنظیموں نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام جنتر منتر پر وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں مختلف مسلم تنظیموں، سیاسی رہنماؤں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے خطاب میں وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کو آئین کے بنیادی اصولوں پر حملہ قراردیتے ہوئے کہا، ”یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل کسی بھی اقلیتی یا کمزور طبقے کے حقوق سلب کیے جا سکتے ہیں۔”
مولانا مدنی نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے گھروں، مسجدوں اور مدرسوں پر پہلے ہی بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں اور اب آئین پر بھی بلڈوزر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس ترمیم کی مخالفت کرنی ہوگی۔یہ ملک تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ہے لیکن آج مخصوص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم ہر ممکن طریقے سے اس ناانصافی کے خلاف لڑیں گے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نمائندوں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے اس بل کو واپس نہ لیا تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ہم آئینی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اگر ہماری مانگیں پوری نہ ہوئیں تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔جبکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور وقف جے پی سی کے صدر جگدمبیکا پال نے اس احتجاج کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم کر کے غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ترمیم صرف منظم وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام کے لیے ہے لیکن کچھ لوگ اسے سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔”
آئیے دیکھتے ہیں کہ جے پی سی نے وہ کون سی ترامیم کی ہیں جنہیں مسلم تنظمیں خانہ پوری قرار دیتے ہوئے جگدمبیکا پال کے فیصلے کو تاناشاہی اور ظلم سے تعبیر کر رہی ہیں۔اب کلیکٹر نہیں سرکاری افسر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں، پہلے اس بات کا تعین کرنے کا حق ضلع کلکٹر کو دیا گیا تھا۔ لیکن جے پی سی نے اس میں تبدیلی کی سفارش کی ہے۔ اب کلکٹر کے بجائے ریاستی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ افسر فیصلہ کرے گا۔ جے پی سی کے چیئرمین نے کہا کہ ریاستی حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے کلکٹر کے عہدے سے اوپر کے افسر کو قانون کے مطابق انکوائری کرنے کے لیے نامزد کر سکتی ہے۔” ایک طرح سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی بات ہوئی۔ کلکٹر بھی حکومت کے ماتحت افسر ہوتا ہے اور اب نامزد سینئر افسر بھی حکومت کا ہی نمائندہ ہوگا۔ یہ تو بس ہاتھ گھما کر کان پکڑنے والی بات ہوئی۔مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں منظور کی گئی ترامیم میں ایک ترمیم یہ ہے کہ زمین پر دعویٰ کرنے والا شخص ٹریبونل کے علاوہ ریونیو کورٹ، سول کورٹ یا ہائی کورٹ میں بھی اپیل کر سکے گا۔ جب کہ وقف بورڈ کے پرانے قانون کے مطابق اگر وقف بورڈ کسی جائیداد کا دعویٰ کرتا ہے تو فریق مخالف اور دعویٰ کرنے والا شخص صرف ٹریبونل میں اپیل کر سکتا تھا۔ اب وقف ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔ جب کہ پہلے کے قانون میں وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی سمجھا جاتا تھا، اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حالانکہ پال نے اس ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر وقف کا متولی جائیداد بیچ رہا ہے یا بے ضابطگیوں کا ارتکاب کر رہا ہے تو اب وقف کے ٹربیونل کے حکم کے خلاف سینئر عدالتوں میں اپیل کی جا سکتی ہے۔
جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے ایک بیان میں کہا کہ وقف ٹریبونل میں اب دو کے بجائے تین ممبران ہوں گے۔ تیسرا اسلامی سکالر ہوگا۔ اس سے پہلے ترمیمی بل میں ٹربیونل میں دو ارکان کی گنجائش تھی۔ حالانکہ نئی ترمیم میں ٹریبونل کے اختیارات کو کم کرتے ہوئے اس کے فیصلوں کو دیگر عدالتوں میں چیلنج کرنے کا آپشن بھی کھول دیا گیا ہے۔نیا قانون پہلے کی رجسٹرڈ وقف املاک پر لاگو نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو وقف جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں وہ متاثر نہیں ہوں گی لیکن جو رجسٹرڈ نہیں ہیں، ان کے مستقبل کا فیصلہ بل میں طے شدہ معیارات کے مطابق کیا جائے گا۔جب تک کسی نے وقف کو زمین عطیہ نہ کی ہو۔ اگر اس پر مسجد بھی بنائی جائے تو وہ وقف کی ملکیت نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے کے قانون کے مطابق یہ تھا کہ اگر کسی زمین پر مسجد ہو یا اسے اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ خود بخود وقف کی ملکیت بن جاتی ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
80 لاکھ کشمیری محصور وجود جمعرات 04 ستمبر 2025
80 لاکھ کشمیری محصور

ایس سی او اجلاس اور گلوبل گورننس وجود جمعرات 04 ستمبر 2025
ایس سی او اجلاس اور گلوبل گورننس

پانی بطور ہتھیار وجود جمعرات 04 ستمبر 2025
پانی بطور ہتھیار

ٹرمپ کا دورہ بھارت منسوخ وجود بدھ 03 ستمبر 2025
ٹرمپ کا دورہ بھارت منسوخ

آسام میں بنگالی مسلمانوں کا جینا حرام وجود بدھ 03 ستمبر 2025
آسام میں بنگالی مسلمانوں کا جینا حرام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر