... loading ...
آج کل
۔۔۔۔۔
رفیق پٹیل
پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے سرکاری بیا نا ت پرلوگ اس لیے یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان دعو ؤںکی عملی شکل کہیں نظر نہیں آتی۔ بجلی، پٹرول،گیس اور کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگا ئی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ غربت میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔عوام کی خوشحالی اور ان کی پریشانی کا خاتمہ سیاسی اور معاشی استحکام کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کے لیے حقیقی معنوں میں ایسی نمائندہ حکومت لازمی ہے جسے عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہو۔ قومی اور بین الاقومی سطح پر سابقہ انتخابات کو منصفانہ تصور نہیں کیا گیا جس کی وجہ حکومت کا جا ئزہونا متنا زع ہوچکا ہے۔
حکمراں جماعتیں ا پنی ہر ناکامی کی وجہ بانی پی ٹی آئی کو سمجھتی ہیں ۔حال ہی میں با نی پی ٹی آئی کے ملک کی اہم شخصیت کے خلاف نئے بیانات کے بعد اس بات کا امکا ن ہے کہ کوئی ایسامقدمہ تیار ہو سکتا ہے جس کی کی بہت بڑی سزا ہو ۔خود وزیراعظم کے معاون خصوصی رانا ثناء کے اس بیان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے جس میںانہوں نے یہ کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آئندہ 14 سال تک جیل سے باہر نہیں آئیں گے۔ بعض مبصرّین کا خیال ہے کہ ن لیگ کی قیادت کی جانب سے مقتدر حلقوں پر دبائو ڈالا جارہا کہ عمران خان کو سیاست سے مکمّل باہر کیا جائے جس کا مطلب بانی پی ٹی آئی کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا یا غد ا ری کے کسی ممکنہ مقدمے میں موت کی سزا بھی ہوسکتا ہے۔ بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے موجوہ سخت بیانات کی وجہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں خراب سلوک کا ردّعمل ہے ۔حکمراں طبقے کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ بانی پی ٹی کو منظر سے ہٹا دیا جائے تو انہیں چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ۔یہ خیال اس لیے درست نہیں ہے کہ ایسی صورت میں سارا ا لزام حکومت میں شامل جماعتوں پر ہوگااور وہ عوام سے اپنا رشتہ مکمل طور پر ختم کر سکتی ہیں ۔باقی ماندہ مینڈیٹ سے بھی انہیں محرومی کا سامنا ہوگا۔پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کی موجودہ حکومت ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام پر توجہ دینے کے بجائے سوشل میڈیا پر پابندی کی خواہش مند ہیں ۔مسلم لیگ ن ، پی پی اور ایم کیوایم کی عوامی حمایت سے محرومی کی وجہ بانی پی ٹی آئی نہیں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اگر سیاسی منظر سے باہر بھی ہوجائیں ایسی صورت میں بھی بر سراقتدار جماعتوں کے عوامی سطح پر مسلسل زوال کا سلسلہ رک نہیں سکے گا ۔
منصفانہ انتخابات میں ن لیگ ، پی پی اور ایم کیو ایم کی بڑے پیمانے پر ناکامی کا شد ید خطرہ واضح نظر آتا ہے ۔ان جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے عام لوگ تیار نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کی غیر موجودگی کے باوجود ان جماعتوں کے امیدواروں کے مدمقابل کسی اور جماعت کے امیدواروں کو ہی کامیابی ملے گی۔ حکمراں جماعتوںکی عوامی مقبولیت کے تمام دعووں کا بھرم آزادنہ اور منصفانہ انتخابی عمل میں زمیںبوس ہوسکتا ہے جس کی ایک جھلک فروری 2024کے انتخابات میں نظرآئی تھی جہا ں غیر معروف قسم کے امیدواروں نے حکمراں جماعتوں کے مشہور اور نامی گرامی امید واروں کو شکست دے دی تھی۔ قومی اور بین ا لا قوامی سطح پر موجودہ حکومت کے بارے میں عمومی تاثر بھی یہی ہے کہ یہ عوامی حمایت سے محروم ہے۔ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد نا قص حکمرانی اور بدعنوانی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نے لوگوں کو موجودہ حکمرا نوں سے مزید متنفر کردیا ہے ۔غیر نمائندہ حکومت کے نتائج ملکوں کے لیے کس قدر تباہ کن ہوتے ہیں ۔اس سلسلے میں بے شمار تحقیقاتی اور علمی تحریریں موجود ہیں لیکن اس سلسلے میںحال ہی میں اپریل کی بیس تاریخ کو ایک تحقیقاتی رپورٹ سینٹر فار پالیسی اینڈ اکنامک ریسرچ نے شائع کی ہے۔ یہ یورپ کا ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد تحقیق کے ذریعے حکومتوں کو فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے لیے رہنما ئی فراہم کرنا ہے ۔یہ اعلیٰ درجے کے ماہرین ، محققین اور بہترین تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ایک طرح کا تھنک ٹینک ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات نہ ہوں تواس کے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اسی سلسلے کی دیگر تحقیقات بھی انٹر نیٹ پر موجود ہیں جس میں سینٹر فار امریکن پروگریس ، ورلڈ ڈیٹاآرگنائزیشن ، اسٹیٹس یونائٹڈ ڈیموکریسی سینٹرشامل ہیں۔ ان تحقیقات کے مطابق غیر نمائندہ حکومت جمہوری ا داروں کو کمزور کرنے کے ذریعے ملک کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے،احتساب کا نظام ختم ہو جاتا ہے۔ بد عنوانی وسیع پیمانے پر فروغ پا تی ہے۔ معیشت کا پہیہ سست ہوجاتا ہے۔ صنعت اور تجارت کی لاگت بڑھنے کی وجہ ملک معاشی طور پر کمزور ہوجاتاہے۔ قانون کی بالا دستی قائم نہیں رہتی۔ انصاف کے ادارے کمزور ہوجاتے ہیں۔انسانی حقوق کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔معاشرے میں خوف پھیلایا جا تا ہے جس سے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں ۔غیر نمائندہ حکومت عدلیہ ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو قابو کرنے کے اقدامات کرتی ہے معاشرے میں چیک ا ینڈ بیلنس ختم ہوجاتا ہے۔ یہ تحقیقات اس بات کی واضح عکاسی کرتی ہیں کہ پاکستان بھی غیر نمائندہ حکومت کی وجہ سے اسی قسم کے بحران اور افراتفری سے دوچار ہوچکا ہے۔ پی ٹی آئی نے فارم 45 اور فارم 47 کا جو تجزیہ پیش کیا ہے۔ عالمی میڈ یا بھی اسی سے ملتی جلتی رپورٹ پیش کرچکا ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ موجودہ حکمرانوں نے انتخابی عمل کا خاتمہ کردیا ہے۔ حکمراں جماعتوں کے امیدواروں کواحساس ہے۔ اب انہیں عوام کی ضرورت نہیں ۔ان امیدواروں کو یقین ہو چکا ہے کہ لوگ ا نہیں ووٹ نہیں بھی دیں گے تو بھی وہ کامیاب ہوجائیں چاہیں انہیں ا نتہائی کم یا چند ووٹ ہی کیوں نہ ملیں۔ اگر ان کے اعلیٰ سطح پر معاملات طے ہوں تو چند ووٹ بھی ایک لاکھ سے کہیں زیادہ ووٹوںمیں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ان کے مد مقابل کو ملنے والے لاکھ سے زائد ووٹ کم ہوکر اتنے ہوجائیں گے کہ وہ شکست سے دوچار ہو جائیں گے۔
2024 سے پچھلے انتخابات میں بیس فیصد دھاندلی کے ذریعے طاقتور حلقوں کی پسندیدہ جماعت بر سراقتدار آتی تھی ۔اب شا ید 2024 میں ا سّی ا و ر نوّے فیصد دھاندلی کے ذریعے مخصوص جماعتوں کو کامیاب کرانے کے بعد اقتدار حوالے کرنے کی نئی روایت سامنے آچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکمران سوشل میڈیا کی تنقیدکا نشانہ بنتے ہیں اور سوشل میڈ یا کے رویے سے پریشان رہتے ہیں اوراس پر پابندی کے قوانیں تشکیل دیتے ہیں ۔پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے اقدامات اور عمومی رویے پر تنقید کا سلسلہ بھرپور انداز سے جاری ہے۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویروں اور ویڈیو پر تنقید کاایک طوفان سوشل میڈیا پر برپا ہوچکا ہے۔ حکمران جماعتوں کے پاس بہتری کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیاد ہ کام چلانے اور اقتدار برقرار رکھنے کے لیے وہ مزید ٹیکس لگاکربجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں جس سے ان کے خلاف عوامی نفرت مزید بڑھ جائے گی۔ مقتدر حلقوں پر د بائو بڑھے گا تو وہ کوئی نئی حکمت عملی تیا ر کریں گے ۔ا یسامحسوس ہوتا ہے کہ کچھ نیا ہونے والاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا